عامر بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان كرتے ہیں، كہتے ہیں كہ ایك بدو نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: میرا والد صلہ رحمی كرتا تھا، اور یہ كرتا تھا، وہ كرتا تھا۔ وہ كہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ میں۔ اعرابی كو غصہ آگیا۔ اس نے كہا: آپ كا باپ كہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم كسی كافر كی قبر كے پاس سے گزرو تو اسے آگ كی خوشخبری دو، وہ اعرابی اس كے بعد مسلمان ہو گیا، اور كہتا تھا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایك مشكل كام مجھے سونپ دیا ہے۔ میں جس كافر كی قبر كے پاس سے گزرتا ہوں اسے آگ كی خوشخبری دیتا ہوں۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ:بخار جہنم كی بھٹی ہے اس میں سے مومن كو جتنا بخار ہوتا ہے وہ آگ میں سے اس كا حصہ ہے(جو اسے دنیا میں مل جاتا ہے اور آخرت میں وہ محفوظ ہوجاتا ہے)۔
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: پانچ اعمال ایسے ہیں جس شخص نے یہ اعمال ایك دن میں كئے اللہ تعالیٰ اسے اہل جنت میں سے لكھ دیں گے۔ جس شخص نے مریض كی عیادت كی، جنازے میں شریك ہوا، اس دن روزہ ركھا ،جمعہ کے دن خوشی خوشی نماز کے لئے گیااور ایك غلام آزادكیا۔
جابر بن عبدالل رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار كے كھجور كے باغ میں داخل ہوئے، تو بنی نجار كے ان آدمیوں كی آوازیں سنیں جوجاہلیت میں مر گئے تھے۔ انہیں ان كی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا كر باہر نكل آئے۔ اور اپنے صحابہ كو حكم دیا كہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما كے درمیان تلخ كلامی ہوگئی۔خالد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے كہا: تم اپنےسبقت والے دنوں كی وجہ سے ہمارے بڑے بن رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات كا تذكرہ كیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خاطر میرے صحابہ کو اور مجھے (ہمارے حال پر) چھوڑ دو اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم احد كے برابر یا پہاڑوں كے برابر سونا خرچ كرو تب بھی تم ان كے اعمال تك نہیں پہنچ سكتے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ: تین چیزوں میں شفا ہے۔ سینگی لگانے والے كی سینگی میں، یا شہد كے گھونٹ میں یاآگ سے داغنے میں اور میں اپنی امت كو داغنے سے منع كرتا ہوں
صہیب رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ كے ساتھ بیٹھے تھے۔ اچانك مسكرا دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كیا تم پوچھو گے نہیں كہ میں كیوں مسكرایا؟ صحابہ نے كہا: اے اللہ كے رسول! آپ كس وجہ سے مسكرائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں مومن كے معاملے سے خوش ہوا۔ اس كا سارے كا سارا معاملہ بھلائی ہے۔ اس كی پسندیدہ چیز اسے مل جائے تو اللہ كا شكر كرتا ہے، اور یہ اس كے لئے بہتر ہے۔ اگر نا پسندیدہ چیز سے اس كا سامنا ہو جائے تو صبر كرتاہے، اور یہ اس كے لئے بہتر ہے۔ مومن كے علاوہ كوئی بھی شخص ایسا نہیں جس كا سارے كا سارا معاملہ بھلائی ہو
انس بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن (کا معاملہ) عجیب ہے ، اللہ تعالیٰ اس كے لئے جس چیز كا فیصلہ كرتا ہے اس كے لئے وہ بہتر معاملہ ہوتا ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے مومن بندے كو آزماتا ہوں اپنی عبادت کرنے والوں سے میرا شکوہ نہیں كرتا تو میں اسے اپنے قیدیوں سے آزاد كردیتا ہوں۔ پھر اس كے گوشت كو بہتر گوشت سے بدل دیتا ہوں، اس كے خون كو بہتر خون سے بدل دیتا ہوں، پھر وہ نئے سرے سے عمل كرتا ہے
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے سے اس كی دو محبوب چیزیں چھین لیتا ہوں حالانكہ وہ اسے انتہائی پسند كرتا ہے اور وہ اس معاملے پر میری تعریف كرتا ہے تو میں اس کے لئے جنت كے علاوہ كسی اور ثواب پر راضی نہیں ہوتا ۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تبارك وتعالیٰ روح كے لئے فرماتا ہے: نكل، روح كہتی ہے: میں اس معاملے كو نا پسند كرتے ہوئے ہی نكلوں گی(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نكل، اگرچہ تجھے نا پسند ہی كیوں نہ ہو۔)
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس سے ایك جنازہ گزرا تو آپ كھڑے ہو گئے اور فرمایا: كھڑے ہو جاؤ، كیوں كہ موت كے لئے ایك گھبراہٹ ہے۔
سلمی رضی اللہ عنہا ابو رافع رضی اللہ عنہ كی بیوی سے مروی ہے كہ: جب كسی كے سر میں درد ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے كہتے: جا ؤ اور سینگی لگواؤ، اور جب کسی كی ٹانگ میں درد ہوتا تو اس سے كہتے: جاؤ اور اسے مہندی سے رنگ دو(مہندی لگاؤ)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے كہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام آپ كو (ان الفاظ سے) دم كرتے: اللہ كے نام كےساتھ، جو آپ كو ہر بیماری سے شفا دے، ہر حسد كرنے والے كے شر سے ،جب وہ حسد كرے اور ہر نظر لگانے والے كے شر سے۔
ائشہكہتی ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان كلمات كے ساتھ پناہ مانگا كرتے تھے:( اے اللہ! لوگوں كے رب!) بیماری كو دور كردے، اور شفا دے دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا كے علاوہ كوئی شفا نہیں، ایسی شفا جو بیماری نہ چھوڑے، جب آپ اپنے مرض الموت میں بوجھل ہوگئے۔ تو میں نے آپ كا ہاتھ پكڑ كر آپ كے جسم پر پھیرا ، اور یہی كلمات كہے،آپ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑا كر كہا: اے اللہ مجھے بخش دے ، اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملادے، عائشہ رضی اللہ عنہا كہتی ہیں كہ یہ آخری كلام تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
خارجہ بن صلت رحمۃ اللہ علیہ اپنے چچا(علاقہ بن صحار)سے بیان كرتے ہیں كہ وہ ایك قوم كے پاس سے گزرے، تو وہ ان كے پاس آئے اور كہنے لگے: تم اس آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) كے پاس سے خیر لے كر آئے ہو۔ اس آدمی کو دم کرو، وہ اس آدمی كو لے كر آئے۔ جو بیڑیوں میں جكڑا ہوا تھا۔ علاقہ بن صحار نے اس آدمی كو تین دن صبح وشام دم كیا۔ جب بھی وہ دم ختم كرتے تو تھوك جمع كرتے، پھر اس پر تھوك پھینكتے۔ اس طرح محسوس ہوتا گویا وہ رسیوں میں سے كھل رہا ہے۔ انہوں نے اسے كچھ دیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے اور آپ سے اس كا تذكرہ كیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كھاؤ كتنے ہی لوگ جھوٹے دم كے ذریعے كھاتے ہیں، تم تو سچے دم كے ساتھ كھا رہے ہو
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كی بیٹی كو لیا جو موت كے قریب تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گود میں لیااور آپ نے اسےاپنے سینے سے لگایا، وہ آپ كی گود میں ہی فوت ہوگئی، ام ایمن رضی اللہ عنہا كی چیخ نكل گئی، ان سے كہا گیا: كیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس رو رہی ہو؟ وہ كہنے لگی:اے اللہ كے رسول ! كیا میں آپ كو روتا نہیں دیكھ رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں رو نہیں رہا، یہ تو رحمت ہے، مومن تو ہر حال میں بھلائی میں ہوتا ہے، روح پہلو میں سے نكلتی ہے تب بھی وہ اللہ كی حمد كرتا ہے
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ نوچنے والی پر لعنت كی، گریبان پھاڑنے والی پر، اور ہلاكت كی دعا كرنےوالی پر لعنت كی
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مردوں كو”لااله الااللہ“كی تلقین كرو، كیوں كہ مومن كی روح پسینے کاقطرہ ٹپکنے کی طرح نرمی سے نكل جاتی ہے۔ جب كہ كافر كا سانس اس كی باچھوں سے نكلتا ہے۔ جس طرح گدھے كا سانس نكلتا ہے۔
براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں كہ ایك بچہ دفن كیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قبر كے دباؤ سےكوئی بچتا تو یہ بچہ بچتا۔( )
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرنیین (قبیلہ عرینہ کے لوگ) لوگوں كے قصے كے بارے میں بیان کر رہے تھے، جو مدینے آئے تو انہیں مدینے كی ہواموافق نہ آئی۔ اور ان كے پیٹ پھول گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ہمارے اونٹوں كی طرف چلے جاؤ اور ان كا دودھ اور پیشاب پیو تو تم ٹھیك ہو جاؤ گے۔ انہوں نے ایسا ہی كیا اور صحیح ہو گئے، اس كے بعد چرواہوں پر حملہ كر كے انہیں قتل كر دیا، اونٹ ہانك كر لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كے پیچھے لوگ بھیجے، انہیں پکڑ کرلایا گیا، آپ نے ان كے ہاتھ پاؤں كاٹ دیئے اور ان كی آنكھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اور مرنے تك حرہ(سخت پتھریلی آتش فشانی زمین) میں چھوڑ دیا۔(
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار كے ایك باغ كے پاس سے گزرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایك آواز سنی تو فرمایا: یہ كیاہے؟ لوگوں نے كہا: ایك آدمی كی قبر ہے جسے جاہلیت میں دفن كیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے ڈر نہ ہوتا كہ تم مردوں كو دفن كرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا كرتا كہ تمہیں قبر كا عذاب سنائےجو اللہ تعالیٰ نے مجھے سنایا ہے
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ: اگر اس (حجر اسود) کو جاہلیت کی نجاستوں نے نہ چھوا ہوتا تو كوئی بھی بیماری والا اسے چھوتا تو شفایاب ہو جاتا، اور روئے زمین پر اس پتھر كے علاوہ جنت کی كوئی چیز نہیں
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: دن كا جو بھی عمل ہوگا، اس پر خاتمہ ہوگا جب مومن بیمار ہوجاتا ہے تو فرشتے كہتے ہیں: اےہمارے رب ! تیرا فلاں بندہ، تو نے اسے روك لیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اس كے عمل پر اس كا خاتمہ كرو، جب تك یہ تندرست نہ ہوجائے یا مرنہ جائے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ: عافیت والے قیامت كے دن جب وہ آزمائش والوں كا ثواب دیكھیں گے تویہ خواہش كریں گے كہ ان كی كھال قینچیوں سے كاٹ دی جاتی۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں ام عبداللہ بنت ا بی ذباب كے پاس ان كی بیماری میں عیادت كرنے آیا، انہوں نے كہا: ابو ہریرہ! میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا كے پاس ان كی بیماری میں عیادت كرنے گئی، انہوں نے میرے ہاتھ میں زخم یا پھوڑا دیکھا، كہنے لگیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ كسی بندے كو اس كی نا پسندیدہ آزمائش میں مبتلا كرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس آزمائش كو اس كے لئے كفارہ اور پاكیزگی كا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ جب تك وہ اپنی اس آزمائش میں اللہ كے علاوہ كسی كے پاس نہیں جاتا یا اسے ٹھیك كرنے میں اللہ كے علاوہ كسی اور كو نہیں پكارتا۔