Blog
Books
Search Hadith

باب: زہد و ورع سے متعلق ایک اور باب

70 Hadiths Found
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حرص و نشاط ہوتی ہے، اور ہر حرص و نشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے، تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتار چلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو، اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے بگاڑ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے“۔

Abu Hurairah narrated that the Prophet (s.a.w) said: Indeed for everything there is a zeal, and for every zeal there is a slackening. So if its practitioner behaves properly,and is moderate, then hope for him (for his success). But if the fingers are pointed to him, then do not count him (among the worthy).

Haidth Number: 2453
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط ( یعنی چوکور ) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: ”یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے ( یعنی اس کی آرزوئیں ہیں ) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

Abdullah bin Mas'ud narrated The Messenger of Allah (s.a.w) drew a square line (on the ground) forus, and in the middle of the (square) line he drew another line, and he drew another line going out of the (square) line.Around the one that was in the middle, he drew (various) lines. Then he said: 'This is the son of Adam, and this is his life-span encircling him, and this one in the middle in the person, and these lines are his obstacles, if he escapes this one, this one ensnares him, and the line extending outside is his hope.'

Haidth Number: 2454
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Anas bin Malik narrated that the Messenger of Allah (s.a.w)said: The son of Adam grows old. But two things keep him young: Desire for life and desire for wealth.

Haidth Number: 2455
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہو جائے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

Mutarrif bin 'Abdullah bin Ash-Shikh-khir narrated from his father from the Prophet(s.a.w) who said: The case of the son of Adam is such that he is surrounded by ninety-nine calamities, if the calamities miss him, he falls into decrepitude.

Haidth Number: 2456

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ الرُّبُعَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ النِّصْفَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ ( درود ) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو“، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے“، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟“ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

At-Tufail bin Ubayy bin Ka'b narrated from his father who said: When a third of the night had passed, the Messenger of Allah(s.a.w) stood and said: 'O you people! Remember Allah! Remember Allah! The Rajifah is coming, followed by the Radifah, death and what it brings is coming, death and what it brings is coming!' Ubayy said: I said: 'O Messenger of Allah! Indeed I say very much Salat for you. How much of my Salat should I make for you?' He said: 'As you wish.' [He said:] I said: 'A fourth?' He said: 'As you wish. But if you add more it would be better for you.' I said: 'Then half?' He said: 'As you wish. And if you add more it would be better [for you].' [He said:] I said: 'Then two-thirds? 'He said: 'As you wish, but if you add more it would be better for you.' I said: 'Should I make all of my Salat for you?' He said: 'Then your problems would be solved and your sins would be forgiven.'

Haidth Number: 2457

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“ ۱؎، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے۔ ۲- اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔

Abdullah bin Mas'ud narrated that the Messenger of Allah (s.a.w) said: Have Haya' for Allah as is His due. [He said:] We said: O Prophet of Allah! We have Haya', and all praise is due to Allah. He said: Not that, but having the Haya' for Allah which He is due is to protect the head and what it contains and to protect the insides and what it includes, and to remember death and the trial, and whoever intends the Hereafter, he leaves the adornments of the world. So whoever does that, then he has indeed fulfilled Haya', meaning the Haya' which Allah is due.

Haidth Number: 2458

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَعْنَى قَوْلِهِ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ:‏‏‏‏ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، ‏‏‏‏‏‏وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّى يُحَاسِبَ نَفْسَهُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَهُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُهُ وَمَلْبَسُهُ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور «من دان نفسه» کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کر لے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے، ۳- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور «عرض الأكبر» ( آخرت کی پیشی ) کے لیے تدبیر کرو، اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب و کتاب آسان ہو گا، ۴- میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔

Shaddad bin Aws narrated that the Prophet (s.a.w) said: The clever person ids the one who subjugates his soul, and works for what is after death. And the incapable is the one who follows his desires and merely hopes in Allah.

Haidth Number: 2459

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا وَأَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ:‏‏‏‏ لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ:‏‏‏‏ فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا ( خوش آمدید ) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تو میری طرف آ گیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا: ”اللہ اس پر ستر اژدہے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژدہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

Abu Sa'eed narrated: The Messenger of Allah (s.a.w) entered his Musalla and saw the people who looked as if they were smiling. So he said: 'Indeed, if you were to increase in remembrance of the severer of pleasures, then you would find yourselves too busy for what I see. So increase in remembrance of death, the severer of pleasures. For indeed there is no day that comes upon the grave except that it speaks, saying: I am thee house of the estranged, I am the house of the solitude, I am the house of dust, and I am the house of the worm-eaten. When the believing worshipper is buried, the grave says to him: Welcome, make yourself comfortable. Indeed, to me, you are the most beloved of those who walked upon me. Since you have been entrusted to me and delivered to me today, you shall see what I have arranged for you. It will then widen for him so that his sight extends, and the door to Paradise is opened for him. And when the wicked worshipper or the disbeliever is buried , the grave says to him: You are not welcome, do not get comfortable. Indeed, to me, you are the most hated of those who walked upon me. Since you have been entrusted to me and delivered to me today, you shall see what I have arranged for you.' He said: 'It will begin closing in on him(squeezing him) until his ribs are crushing each other.' He said: The Messenger of Allah (s.a.w) clasped some of his fingers between others and said: 'Seventy giant serpents will constrict him, if even one of them were to hiss on the earth, nothing upon it would grow as long as it remained. They will chew on him and bite him until he is brought to the Reckoning.' He said: The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'The grave is but a garden from the gardens of Paradise, or a pit from the pits of the Fire.'

Haidth Number: 2460
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کا نشان آپ کے پہلو پر اثر کر گیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، ( وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ ) ۔

Ibn 'Abbas narrated: 'Umar bin Al-Khattab informed me, saying: 'I entered upon the Messenger of Allah (s.a.w) and saw him reclining upon a mat woven from fibers, and I could see the impressions it left upon his side.'

Haidth Number: 2461

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ،‏‏‏‏ عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَعَرَّضُوا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عمرو بن عوف رضی الله عنہ ( یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے ) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین ( احساء ) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں“، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Al-Mustawrad bin Makhramah narrated that 'Amir bin 'Awf informed him- and he was an ally of Banu 'Amr bin Lu'ay who had participated with The Messenger of Allah (s.a.w) at(the battle of ) Badr, he said: The Messenger of Allah (s.a.w) had dispatched Abu 'Ubaidah bin Al-Jarrah, so he arrived with the wealth from Al-Bahrain. When the Ansar had heard of the arrival of Abu 'Ubaidah they were attending Salat Al-Fajr. So the the Messenger of Allah (s.a.w) performed the Salat and when he finished, they assembled before him. The Messenger of Allah (s.a.w) smiled when he saw them, then he said: 'I think that you heard that Abu 'Ubaidah has arrived with something?' They said: 'Yes O Messenger of Allah! 'He said: 'Then receive good news, and hope for what will please you. By Allah! It is not poverty that I fear for you, but what I fear for you is that the world will be presented for you just as it was presented for those before you,then you will compete for it, just as they competed for it, and it will destroy you, just as it destroyed them.'

Haidth Number: 2462

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا حَكِيمُ،‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حَكِيمٌ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: ”حکیم! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہو گی، اور جو اسے حریص بن کر لے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہو گی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ ( دینے والا ) نیچے کے ہاتھ ( لینے والے ) سے بہتر ہے“، حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں، پھر ابوبکر رضی الله عنہ، حکیم رضی الله عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکیم رضی الله عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

Urwah bin Az-Zubair and Ibn Musayyab narrated that Hakim bin Hizam said: I (once) asked the Messenger of Allah (s.a.w) (for something) and he gave it to me. Then I asked him (again) and he gave it to me. Then I asked him (again) and he gave it to me. Then I asked him (again), so he gave it to me. Then he said: 'O Hakim! Indeed this wealth is green and sweet, so whoever takes it without asking for it, he will be blessed in it. And whoever takes it, insisting upon it, he will not be blessed in it. He is like the one who eats but does not get satisfied and contended. And the upper hand (giving) is better than the lower hand (receiving). So Hakim said: I said: 'O Messenger of Allah! By the One who sent you with the Truth! I shall not ask anyone for anything after you until I depart the world.' So Abu Bakr used to call Hakim to give him something, but he refused to accept it. Then 'Umar called him to give to him, but he refused to accept it. So 'Umar said: O you Muslims! I would like you to bear witness that I presented Hakim with his due of these spoils of war but he refused to accept it. So Hakim never asked anyone of the people for anything after the Messenger of Allah, until he died.

Haidth Number: 2463
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکلیف اور تنگی میں آزمائے گئے تو اس پر ہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کر سکے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

Abdur-Rahman bin 'Awf said: We were tested along with the Messenger of Allah(s.a.w) by adversity, so we were patient, then we were tested after him with prosperity, but we were not patient.

Haidth Number: 2464
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء و بےنیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے“۔

Anas bin Malik narrated that the Messenger of Allah(s.a.w) said: Whoever makes the Hereafter his goal, Allah makes his heart rich, and organizes his affairs, and the world comes to him whether it want to or not. And whoever makes the world his goal, Allah puts his poverty right before his eyes, and disorganizes his affairs, and the world does not come to him, except what has been decreed for him.

Haidth Number: 2465
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

Abu Hurairah narrated that the Messenger of Allah(s.a.w) said: Indeed Allah, Most High said: 'O son of Adam! Devote yourself to My worship, I will fill your chest with riches and alleviate your poverty. And if you do not do so, then I will fill your hands with problems and not alleviate your poverty.'

Haidth Number: 2466
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جو تھی، پھر جتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھر بقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہو گئے، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہاں عائشہ رضی الله عنہا کے قول «شطر» کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔

Aishah said : The Messenger of Allah(s.a.w) died and we had a Shatrof barely. We ate from it as Allah willed, then I said to the slave girl: 'Measure it' so she measured it, and it was not long before it was gone. She said: If we had left it alone then we could have eaten from it more than that.

Haidth Number: 2467
ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں، پردہ میرے دروازے پر لٹک رہا تھا، جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ”اس کو یہاں سے دور کر دو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتا ہے“، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

Aishah narrated: We had a cloth which had some pictures on it as a curtain on my door. The Messenger of Allah(s.a.w) saw it and said: 'Remove it, for it reminds me of the world.' She said: We had a piece of velvet that had patches of silk on it which we used to wear.

Haidth Number: 2468
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چمڑے کا ایک تکیہ ( بستر ) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

Aishah narrated: The Messenger of Allah (s.a.w) had a leather cushion stuffed with palm fibres which he would lean on.

Haidth Number: 2469
نے ایک بکری ذبح کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”اس میں سے کچھ باقی ہے؟“ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا: ”دستی کے سوا سب کچھ باقی ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

Abu Maisarah narrated from 'Aishah that they had slaughtered a sheep, so the Prophet (s.a.w) said: What remains of it? She said: Nothing remains of it except its shoulder. He said: All of it remains except its shoulder.

Haidth Number: 2470
ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

Aishah narrated: We, the family of Muhammad, would go for a month without kindling a fire, having only water and dates.

Haidth Number: 2471

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلَالٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن و رات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والا کھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپا لیتے تھے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ـ اس حدیث میں وہ دن مراد ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ سے بیزار ہو کر مکہ سے نکل گئے تھے اور ساتھ میں بلال رضی الله عنہ تھے، ان کے پاس کچھ کھانا تھا جسے وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے۔

Anas narrated that the Messenger of Allah (s.a.w) said: Indeed I have feared for the sake of Allah, such that no one has feared, and I have been harmed for the sake of Allah, such that no one has been harmed. Thirty days and nights have passed over me, and there was no food with Bilal and I forced something with a liver to eat, except what Bilal could conceal under his armpit.

Haidth Number: 2472

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، ‏‏‏‏‏‏فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ حَسْبِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیا بات ہے؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہو گیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود پایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

Muhammad bin Ka'b Al-Qurazi said: Someone narrated to me that he heard 'ali bin abi Talib saying: 'I went out on a cold day from the house of the Messenger of Allah (s.a.w). I had taken a tanned skin, si I tore it in the middle, and out it over my neck, and wrapped my mid-section, fastening it with a palm leave. I was severely hungry, and if there was food in the house of the Messenger of Allah (s.a.w) I would have eaten some of it. I went in search of something. I passed by a Jew on his property drawing water (from a well) with a pulley. I watched him from a gap in the fence. He said: what is wrong with you O Arab1 Would you like to get a date for every bucket? I said: Yes. Open the door so I can come in. He opened the door, I entered and he gave me his bucket. Then for every bucket I pulled out, he would give me a date, until when it was enough for me. I put his bucket down and said: I think I had enough to eat then I scooped some water to drink it. Then I came to the Masjid and found the Messenger of Allah (s.a.w) in it.'

Haidth Number: 2473
Haidth Number: 2474

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیا ہے۔

Jabir bin 'Abdullah narrated: The Messenger of Allah (s.a.w) dispatched us, and there were three-hundred of us. We were carrying our provisions on our shoulders. Then our provisions ran out such that each man among us could eat only a date per day. It was said to him: O Abu 'Abdullah! How could one date be enough for a man?' He said: We realized its value when we did not even have that. Then we came to the sea where we saw a whale that the sea had tossed (on the shore). So we ate as much as we liked from it for eighteen days.

Haidth Number: 2475

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَأَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى عَنْهُ وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَشُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے؟ ۲؎“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور ( دوسرے ) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے ( یعنی دمشقی سے ) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور ( تیسرے ) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔

Yazid bin Ziyad narrated from Muhammad bin Ka'b Al-Qurazi who heard from Abi Talib narrated that he said: 'I was sitting in a gathering with the Messenger of Allah (s.a.w) when Mus'ab bin 'Umair appeared before us, wearing nothing but a Burdah patched with some animal furs. When the Messenger of Allah (s.a.w) saw him he began crying because of the good life he previously had compared to the state that he was in that day. Then the Messenger of Allah (s.a.w) said: 'How will you people be, when the late morning comes upon one of you while wearing a Hullah, and at the end of the day he is in, (another) Hullah, when a platter is placed in front of him while another is removed, and you cover your houses just as the Ka'bah is covered?' They said: 'O Messenger of Allah! On that day we will be better than we are today, devoting ourselves to worship, satisfied with our good fortune.' So the Messenger of Allah (s.a.w) said: 'No, today you are better than you will be on that day.'

Haidth Number: 2476

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِتَسْتَتْبِعَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيَسْتَتْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْحَقْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَضَى فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ وَهُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَاءَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرُدُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرِبْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اشْرَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ:‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل و عیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزرگاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر رضی الله عنہ گزرے تو میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر رضی الله عنہ گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا: ”ابوہریرہ!“ میں نے کہا: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”ساتھ چلو“ اور آپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہو لیا، آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا: ”یہ دودھ کہاں سے ملا؟“ عرض کیا گیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ!“ میں نے کہا: حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ اہل صفہ کو بلا لاؤ“، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھربار تھا نہ کوئی مال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی صدقہ آتا تھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلا بھیجتے، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے دودھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گزرا اور میں نے ( دل میں ) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جو کچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلا لایا، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دے دو“، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کو دینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہو جاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا، ساری قوم سیر ہو چکی تھی ( یا سب لوگ سیر ہو چکے تھے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکرا کر فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ دودھ پیو“، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اسے پیو“ میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجا ہے اب میں پینے کی گنجائش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دودھ پیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Abu Hurairah narrated: The people of As-Suffah were the guests of the people of Islam,they had nothing of people nor wealth to rely upon. And By Allah, the One Whom there is none worthy of worship besides Him – I would lay on the ground on my liver (side) due to hunger, And I would fasten a stone to my stomach out of hunger. One day I sat by the way that they (the Companions) use to come out through. Abu Bakr passed and so I asked him about an Ayah from Allah's Book, not asking him except that he might tell me to follow him (for something to eat). But he passed on without doing so. Then `Umar passed, so I asked him about an Ayah from Allah's Book, not asking him except that he might tell me to follow him. But he passed on without doing so. Then Abul-Qasim (s.a.w) passed, and he smiled when he saw me, and said: 'Abu Hurairah?' I said: 'I am here O Messenger of Allah!' He said: 'Come along.' He continued and I followed him, he entered his house, so I sought permission to enter, and he permitted me. He found a bowl of milk and said: 'Where did this milk come from?' It was said: 'It was a gift to us from so – and – so.' So the Messenger of Allah (s.a.w) said: 'O Abu Hurairah' I said: 'I am here O Messenger of Allah!' He said: 'Go to the people of As-Suffah to invite them.' - Now, they were the guests of the people of Islam, they had nothing of people nor wealth to rely upon. Whenever some charity was brought to him, he would send it to them without using any of it. And when a gift was given to him (s.a.w), he would send for them to participate and share with him in it. I became upset about that, and I said (to myself): 'What good will this bowl be among the people of As-Suffah and I am the one bringing it to them?' Then he ordered me to circulate it among them (So I wondered) what of it would reach me from it, and I hoped that I would get from it what would satisfy me. But I would certainly not neglect to obey Allah and obey His Messenger, so I went to them and invited them. When they entered upon him they sat down. He said: 'Abu Hurairah, take the bowl and give it to them.' So I gave it to a man who drank his fill, then he gave it to another one, until it ended up with the Messenger of Allah (s.a.w), and all of the people had drank their fill. The Messenger of Allah (s.a.w) took the bowl, put it on his hand,then raised his head. He smiled and said: 'Abu Hurairah, drink.' So I drank, then he said: 'Drink.' I kept drinking and he kept on saying, 'Drink.' Then I said: 'By the One Who sent you with the truth! I have no more space for it.' So he took the bowl and praised Allah, mentioned His Name and drank.'” (Sahih)

Haidth Number: 2477
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

Yahya Al-Bakka' narrated from Ibn 'Umar who said: A man belched in the presence of the Prophet(s.a.w), so he said: 'Restain your belching from us. For indeed those who are filled most in the world will be the hungriest on the Day of Judgement.'

Haidth Number: 2478
انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اگر تم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے، جب اس پر بارش کا پانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ۱؎۔

Abu Burdah bin Abi Musa narrated that his father said: O my son! If you saw us when we were with the Prophet(s.a.w) and the sky poured upon us, you would think that our smell was the smell of sheep.

Haidth Number: 2479
ابراہیم نخعی کہتے ہیں: گھر مکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے، میں نے کہا: اس مکان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جسے بنائے بغیر چارہ نہیں انہوں نے کہا: نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ۔

Sufyan Ath-Thawri narrated: From Abu Hamzah, (who said): From Ibrahim An-Nakha'i who said: 'All buildings and concerns for them will be against you.' I said: 'What do you think about what one can not do without?' He said: 'There is no reward for that nor harm.'

Haidth Number: 2480
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔

Sahl bin Mu'adh bin Anas Al-Juhani narrated from his father, that the Messenger of Allah (s.a.w)said: Whoever leaves(valuable) dress out of humility to Allah while he is able to (afford it), Allah will call him before the heads of creation on the Day of Judgement so that he can chose whichever Hulal of faith he wishes to wear.

Haidth Number: 2481
Haidth Number: 2482