اَلْخِدَاعُ کے معنی جو کچھ دل میں ہو اس کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیردینا جس کے وہ درپے ہو اور آیت کریمہ: (یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ ) (۲۔۹) یہ (اپنے پندار میں) خدا کو حکم دیتے ہیں۔ میں اﷲ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اوراﷲ تعالیٰ کا نام ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گویا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔اس بناء پر فرمایا: (اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ) (۴۸۔۱۰) جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے۔ اور اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں مضاف محذوف ہے اور اصل میں یُخَادِعُونَ رَسُوْلَ اﷲِ ہے۔پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے۔تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اﷲ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے یہ بتانا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ معاملہ کرنا اﷲ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت: (اِنَّ الّذِیْنَ یَْایِعْونَ) میں بیان ہوچکا ہے اور آیت کریمہ: (وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ) (۴۔۱۴۲) اور وہ انہی کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ کے بعض نے یہ معنیٰ کئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اﷲُ میں ہے۔خَدَعَ الضَّبُّ گوہ کا اپنی بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیار بیٹھا رہتا ہے جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس لیتا ہے۔اسی بناء پر کہا گیا ہے اَلْعَقْرَبُ بَوَّابُ الضَّبِّ: کہ بچھو گوہ کا دربان ہے۔ چونکہ اہل عرب کے ہاں ضَبٌّ کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے (1) (مثل) ھُوَ اَخْدَعُ مِنَ الضَّبِّ کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طَرِیْقٌ خادِعٌ وَخَدِیْعٌ:گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کو دھوکہ دیتا ہے۔اَلْھِذْعُ: بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ گویا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کیلئے بنایا ہے۔خَدَعَ الرِّیْقُ: منہ سے تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے۔اَلْاَخْدَعَانِ: گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اورکبھی پوشیدہ ہوتی ہیں۔کہا جاتا ہے خَدَعْتُہٗ: میں نے اس کی اخداع رگ کو کاٹ دیا۔حدیث میں ہے: (2) (۱۰۷) بَیْنَ یَدِیِ السَّاعَۃِ سِنُونَ خَدَّاعَۃٌ: کہ قیامت کے قریب دھوکا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بدلتے رہیں گے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
خَادِعُھُمْ | سورة النساء(4) | 142 |
يَخْدَعُوْنَ | سورة البقرة(2) | 9 |
يُخٰدِعُوْنَ | سورة البقرة(2) | 9 |
يُخٰدِعُوْنَ | سورة النساء(4) | 142 |
يَّخْدَعُوْكَ | سورة الأنفال(8) | 62 |