دَلَوْتُ الدَّلْوَ: کے معنیٰ کنویں میں ڈول ڈالنے کے ہیں اور اَدْلَیْتُھَا کے معنیٰ ڈول بھر کر نکالنے کے۔ابو منصور نے لکھا ہے کہ ادلیٰ کے معنیٰ ڈول کنویں میں ڈالنے کے آجاتے ہیں قرآن پاک میں ہے: (1) (فَاَدْلیٰ دَلْوَہٗ) (۱۲۔۱۹) اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا۔ اسی سے بطور استعارۃ اَدْلیٰ کے معنیٰ کسی چیز تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بنانا بھی آجاتے ہیں۔شاعر نے کہا ہے: (2) (۱۵۵) وَلَیْسَ الرِّزْقُ عَنْ طَلَبٍ حَثِیْثٍ وَلٰکِنْ اَلْقِ دَلوَکَ فِی الدِّلَائِ : رزق جدوجہد سے حاصل نہیں ہوتا ہاں تمہیں اس کے لئے وسائل تلاش کرنا چاہیئے۔اس بناء پر وسیلہ کو مَائِحٌ کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا: (3) (۱۵۶) وَلِیَ مَائِحٌ لَمْ یُوْرَدِ النَّاسُ قَبْلَہٗ مُعَلًّی وَاَشْطَانُ الطَّوِیِّ کَثِیْرٌ میرے پاس اظہار مطلب کے لئے ایسا بلند قدر وسیلہ ہے جو اچھوتے مضامین بیان کرتا ہے اور گفتگو کے اسباب بہت ہیں اور قرآن پاک میں ہے: (وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ ) (۲۔۱۸۸) اور نہ ان اموال کے ذریعہ (رشوت دے کر) حکام تک رسائی حاصل کرو۔ اِئْتَدَلّٰی (تفعل) قریب ہونا اور اترانا قرآن پاک میں ہے: (ثْمَّ دَنیٰ فَتَدَلیَّ) (۵۳۔۸) پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
دَلْوَهٗ | سورة يوسف(12) | 19 |
فَاَدْلٰى | سورة يوسف(12) | 19 |
فَتَدَلّٰى | سورة النجم(53) | 8 |
وَتُدْلُوْا | سورة البقرة(2) | 188 |