Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلتَّزْجِیَۃُ کے معنیٰ کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلاً: پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا کا بادلوں کو چلانا۔ قرآن پاک میں ہے: (یُزۡجِیۡ سَحَابًا) (۲۴:۴۳) (اﷲ ہی) بادلوں کو ہنکاتا ہے۔ (یُزۡجِیۡ لَکُمُ الۡفُلۡکَ ) (۱۷:۶۶) جو تمہارے لئے (سمندروں میں) جہازوں کو چلاتا ہے۔ اور اسی سے کہا جاتا ہے کہ رَجُلٌ مُزْجِیٌّ: ہنکایا ہوا آدمی۔ یعنی کمزور اور ذلیل آدمی۔ اَزْجَیْتف رَدِیْئَ التَّمْرِ: میں نے ردی کھجوروں کو دور پھینک دیا۔ اور زَجَا (لازم) اَزْجیٰ کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے۔ زَجا الخَراجُ (ن) خراج کا سہولت سے جمع ہوجاتا ہے۔ اور ’’خَرَاجٌ رَاجٍ‘‘ اس خراج کو کہتے ہیں جو معمولی ہونے کی وجہ سے سہولت سے جمع ہوجائے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔ (۲۰۳) وَحَاجَۃٍ غَیرُ مُزْجَاۃٍ عَنِ الْحَاجِ اور حاجت مندوں کی بعض حاجتیں معمولی نہیں ہوتیں کہ انہیں پورا کیا جاسکے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
مُّزْجٰىةٍ سورة يوسف(12) 88
يُزْجِيْ سورة بنی اسراءیل(17) 66
يُزْجِيْ سورة النور(24) 43