اَلْھَزْمُ کے اصل معنی کسی خشک چیز کو دبا کر توڑدینے کے ہیں۔خشک اور پرانے مشکیزہ کو دباکر توڑ ڈالنے یا تربوز،ککڑی وغیرہ کے تورنے پر ہزم کا لفظ بولا جاتا ہے اور اسی سے ہزیمت (بمعنی شکست) ہے جس طرح حَطْمٌ یَاکَسْرٌ کا لفظ (مجازاً) شکست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ھَزَمَ کا لفظ بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: ۔ (فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اﷲ) تو طالوت علیہ السلام کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی۔ (۲۔۲۵۱) (جُنۡدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہۡزُوۡمٌ مِّنَ الۡاَحۡزَابِ) (۳۸۔۱۱) یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے بھی ایک لشکر ہے۔ (1) اور فَاقِرَۃٌ کی طرح ھَازِمَۃٌ بھی بڑی مصیبت کو کہتے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے۔اَصَابَتْہُ ھَازِمَۃُ الدَّھْرِ: اسے بڑی مصیبت پہنچی۔ ھَزَمَ الرَّعْدُ: گرج کی آواز کا شکستہ ہونا۔ اَلْمِھْزَامُ: ایک لکڑی جس کے سرے پر آگ لگاکر بچے کھیلتے ہیں۔گویا وہ اس سے دوسرے لڑکوں کو ہزیمت دیتے ہیں اور کمینے (ونی) شخص کے متعلق ھَزَمَ وَاھْتَزَمَ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
سَيُهْزَمُ | سورة القمر(54) | 45 |
فَهَزَمُوْھُمْ | سورة البقرة(2) | 251 |
مَهْزُوْمٌ | سورة ص(38) | 11 |