َالزَّجْرُ: اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں۔ زَجَرْتُۂ: میں نے اسے جھڑکا، روکا۔ اِنْزَجَر: (جھڑکنے پر) کسی کامسے رک جانا۔ یہ زَجَرَ کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ) (۳۷:۲) میں زَاجِرَاتِ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں۔ اور آیت: (فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ) (۷۹:۱۳) اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے۔ (مَا فِیۡہِ مُزۡدَجَرٌ) (۵۴:۴) جس میں (کافی) تنبیہ ہے۔ میں مُزْدَجَرٌ سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکابِ معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں۔ اور آیت: (وَّ ازۡدُجِرَ ) (۵۴:۹) اور اسے جھڑکیاں دی گئیں۔ کے معنیٰ ہیں: ڈانٹ کر نکال دیا گیا۔ یہاں زجر کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں۔ جیسے جاچلا جا، دور ہوجا وغیرہ۔
Words | Surah_No | Verse_No |
زَجْرًا | سورة الصافات(37) | 2 |
زَجْرَةٌ | سورة الصافات(37) | 19 |
زَجْرَةٌ | سورة النازعات(79) | 13 |
فَالزّٰجِرٰتِ | سورة الصافات(37) | 2 |
مُزْدَجَرٌ | سورة القمر(54) | 4 |
وَّازْدُجِرَ | سورة القمر(54) | 9 |