رَقِیَ (س) رُقِیَّا۔ فی السُّلْمِ کے معنیٰ سیڑھی پر چڑھنے کے ہیں اور اِرْتَقٰی (افتعال) بھی اسی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قڑآن پاک میں ہے: (فَلۡیَرۡتَقُوۡا فِی الۡاَسۡبَابِ) (۳۸:۱۰) تو ان کو چاہیے کہ سیڑھیاں لگاکر آسمان پر چڑھیں۔ مثل مہو رہے (1) : اِرْقَ عَلٰی ظَلِْکَ: یعنی اپنی طاقت کے مطابق چلو اور طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالو۔ اور رَقَیْتُ بمعنیٰ رقیہ یعنی افسوس کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ محاورہ ہے: کَیْفَ رَقْیُکَ اَوْ رُقْیَتُکَ: کہ تمہارا افسوس کیسا ہے۔ اس میں رَقْیٌ مصدر ہے اور رُقْیَۃٌ اسم۔ اور آیت کریمہ: (لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ ) (۱۷:۹۳) یعنی ہم تیرے افسوس پر یقین کرنے والے نہیں ہیں۔ میں رُقِیٌّ بمعنیٰ رُقْیَۃٌ کے ہے اور آیت: (وَ قِیۡلَ مَنۡ ٜ رَاقٍ ) (۷۵:۲۷) اور کون افسوس کرے۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ اس وقت جھاڑ پھونک سے کوئی اس کی جان نہیں بچاسکے گا۔ چنانچہ اسی معنیٰ میں شاعر نے کہا ہے۔ (2) (الکامل) (۱۹۰) وَاِذِالْمَنِیَّۃُ اَنْشَبَتْ اَظْفَارَھَا اَلْفَیتَ کُلَّ تَمِیْمَۃٍ لَّا تَنْفَع کہ جب موت اپنا پنجہ گاڑ دیتی ہے تو کوئی افسوں کارگر نہیں ہوتا۔ ابن عباس نے مَنْ رَاقٍ کے معنیٰ کئے ہیں کہ کون سے فرشتے اس کی روح لے کر اوپر جائیں یعنی ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب۔ اَلتَّرْقُوَۃُ: ہنسلی کی ہڈی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے کہ سانس پھول کر وہیں تک چڑھتی ہے اس کی جمع تَرَاقِیُ ہے۔ چنانچہ قڑآن میں ہے: (کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ) (۷۵:۲۶) سنو جی! جب جان بدن سے نکل کر گلے تک پہنچ جائے گی۔
Words | Surah_No | Verse_No |
تَرْقٰى | سورة بنی اسراءیل(17) | 93 |
رَاقٍ | سورة القيامة(75) | 27 |
فَلْيَرْتَقُوْا | سورة ص(38) | 10 |
لِرُقِيِّكَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 93 |