قرآن پاک میں ہے: (وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا ) (۲۵۔۲۹) اور شیطان انسان کو عین موقعہ پر دغا دینے والا ہے۔ اَلْخَذَولُ: (صیغہ مبالغہ) بہت زیادہ خُذْلان یعنی دغا دینے والا۔ اَلْخُذْلاَنُ ایسے شخص کا عین موقعہ پر ساتھ چھوڑکر الگ ہوجانا جس کے متعلق گمان ہوکہ پوری پوری مدد کرے گا اسی بنا پر کہا جاتا ہے:خَذَلَتِ الْوَحْشِیَّۃُ وَلَدَھَا:وحشی گائے نے اپنے بچہ کو چھوڑدیا۔تَخَاذَلَتْ رِجْلاَ فُلانٍ اس کی ٹانگیں کمزور پڑگئیں اسی سے اعشی نے کہا ہے(1) : (اَلرمل) (۱۳۲) بَیْنَ مَغْلُوْبٍ تَلِیْلٍ خَدُّہٗ وَخَذُولِ الرِّجْلِ مِنْ غَیْرِ کَسْحٍ (بعض مغلوب ہوکر رخسارے کے بل گرپڑے ہیں اور بعض کی ٹانگیں بدوں بے حسی کے جواب دے چکی ہیں۔رَجُلٌ خُذَلَۃٌ بے بس آدمی۔
Words | Surah_No | Verse_No |
خَذُوْلًا | سورة الفرقان(25) | 29 |
مَّخْذُوْلًا | سورة بنی اسراءیل(17) | 22 |
يَّخْذُلْكُمْ | سورة آل عمران(3) | 160 |