عقل زدہ کافر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے ۔ کہتے تھے کہ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا ؟ حضرت ہود اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی ۔ کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کر دیا ؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے ۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے ۔ بھلائیوں کا اجر ہے ۔ ان کے نیک کام ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح ۔ اور ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے ۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں ۔ یہ سابق لوگ ہیں ۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے ۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے ، نذیر بھی ہے ، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی ۔
1۔ 1 اَلْحَکِیْمِ ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔
[١] یہ سورة مکی ہے اور اس کے مخاطب وہ قریش مکہ ہیں جو اللہ کے متعلق بھی غلط قسم کا تصور رکھتے تھے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم اور قرآنی آیات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کر رہے تھے اور عملاً مسلمانوں پر اتنی سختیاں اور مظالم ڈھا رہے تھے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔
الۗرٰ : یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ - تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ : ” تِلْكَ “ اسم اشارہ ہے، مشار الیہ ” اَلْآیَاتُ “ مقدر ہے۔ مراد قرآن مجید کی تمام آیات ہیں جن میں ہماری یہ سورت بھی شامل ہے، یعنی یہ عظیم الشان آیات کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ ” الْحَكِيْمِ “ (کمال حکمت والی) کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دانائی اور حکمت سے بھری ہوئی ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے، نہ عقل کے خلاف اور نہ کمتر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں، نہ ہی اس کے حلال و حرام اور حدود و احکام کبھی منسوخ ہوں گے، یعنی حکیم بمعنی محکم ہے۔
خلاصہ تفسیر - ( الر کا مطلب تو اللہ کو معلوم ہے) یہ ( جو آگے آتی ہیں) پر حکمت کتاب ( یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں ( جو بوجہ حق ہونے کے قابل جاننے کے اور ماننے کے ہیں اور چونکہ جن پر اس کا نزول ہوا ہے ان کی نبوت کا کفار انکار کرتے تھے اس لئے جواب فرماتے ہیں کہ (کیا ان مکہ کے) لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس ( جو کہ مثل ان کے بشر ہے) وحی بھیج دی ( جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ ( عام طور پر) سب آدمیوں کو ( احکام خداوندی کے خلاف کرنے پر) ڈرایئے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنایئے کہ ان کے رب کے پاس ( پہنچ کر) ان کو پورا مرتبہ ملے گا ( یعنی اگر ایسا مضمون کسی بشر پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوجاوے تو کوئی تعجب کی وجہ نہیں مگر) کافر ( اس قدر متعجب ہوئے کہ آپ کی نسبت کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے (نبی نہیں ہے کیونکہ نبوت بشر کے لئے نہیں ہوسکتی) بلاشبہ تمہارا رب ( حقیقی) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ روز ( کی مقدار) میں پیدا کردیا ( پس اعلی درجہ کا قادر ہے) پھر عرش پر ( جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم ( اور جلوہ فرما) ہوا ( کہ جو اس کی شان کے لائق ہے تاکہ عرش سے زمین و آسمان میں احکام جاری فرمائے، جیسا آگے ارشاد ہے کہ) وہ ہر کام کی ( مناسب) تدبیر کرتا ہے، ( پس حکیم بھی ہے، اس کے سامنے) کوئی سفارش کرنے والا ( سفارش) نہیں ( کرسکتا ہے) بدون اس کی اجازت کے ( پس عظیم بھی ہوا، پس) ایسا اللہ تمہارا رب ( حقیقی) ہے سو تم اس کی عبادت کرو ( اور شرک مت کرو) کیا تم ( ان دلائل کے سننے کے بعد) پھر بھی نہیں سمجھتے، تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اللہ نے ( اس کا) سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی (قیامت کو) پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ ( پوری پوری) جزا دے ( اور اس میں ذرا کمی نہ کرے بلکہ بہت کچھ زیادہ دے دے) اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے ( آخرت میں) کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا، اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے۔- معارف و مسائل - سورة یونس مکی سورتوں میں سے ہے، بعض حضرات نے اس کی صرف تین آیتوں کو مدنی کہا ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی ہیں۔- اس سورت میں بھی قرآن اور اسلام کے بنیادی مقاصد توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کو کائنات عالم اور اس میں ہونے والے تغیرات و مشاہدات سے استدلال کرکے ذہن نشین کیا گیا ہے، اس کے ساتھ کچھ عبرت خیز تاریخی واقعات و قصص کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان کھلی نشانیوں پر نظر نہیں کرتے اور اس کے ضمن میں شرک کا ابطال اور اس سے متعلق بعض شبہات کا جواب ارشاد ہوا ہے، یہ خلاصہ ہے مضامین سورت کا، یعنی توبہ اور اس سورت میں باہمی کیا ربط ہے، سورة توبہ میں انہی مقاصد کے لئے منکرین و کفار کے ساتھ جہاد اور کفر و شرک کی طاقت کو مادی اسباب کے ذریعہ توڑنے کا بیان تھا، اور یہ سورت چونکہ احکام جہاد کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی اس میں مذکورہ مقاصد کو مکی دور کے قانون کے مطابق صرف دلائل و براھین کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے۔- الر، یہ حروف مقطعہ کہلاتے ہیں جو قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، الم، حم، عسق، وغیرہ ان کے معانی کی تحیقق میں مفسرین کی بحثیں طویل ہیں، صحابہ وتابعین اور جمہور سلف کی تحقیق اس قسم کے تمام حروف مقطعہ کے متعلق یہ ہے کہ یہ خاص رموز ہیں ان کے معنی غالباً رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے گئے ہیں مگر آپ نے عام امت کو صرف ان علوم و معارف سے آگاہ فرمایا جن کو ان کے ذہن برداشت کرسکیں اور جن کے معلوم نہ ہونے سے امت کے کاموں میں کوئی حرج واقع ہوتا ہے، حروف مقطعہ کے رموز ایسے نہیں جن پر امت کا کوئی کام موقوف ہو یا ان کے نہ جاننے سے ان کا کوئی حرج ہو، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کے معانی کو امت کے لئے غیر ضروری سمجھ کر بیان نہیں فرمایا اس لئے ہمیں بھی اس کی تفتیش میں نہ پڑنا چاہئے، کیونکہ یہ امر یقینی ہے کہ اگر ان کے معانی جاننے میں ہماری مصلحت ہوتی تو رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بیان کرنے میں کوتاہی نہ فرماتے۔- (آیت) تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ، میں لفظ تلک سے اشارہ اس سورت کی آیات کی طرف ہے جن کا ذکر آگے آتا ہے اور کتاب سے مراد قرآن ہے اس کی صفت اس جگہ حکیم کے لفظ سے بیان فرمائی ہے جس کے معنی اس جگہ حکمت والی کتاب کے ہیں۔
الۗرٰ ٠ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ١- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(١) یعنی میں اللہ تعالیٰ ہوں سب کو دیکھ رہا ہوں یا یہ کہ یہ قسم ہے یہ سورت قرآن کریم کی محکم آیات ہیں جو حلال و حرام کو بیان کررہی ہیں۔
یہ حروف مقطعات ہیں۔ یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة الاعراف تین سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (اآآّ ‘ ا آمآآ) سے ہوتا ہے اور ان تینوں مقامات پر حروف مقطعات پر آیت مکمل ہوجاتی ہے ‘ مگر یہاں ان حروف پر آیت مکمل نہیں ہورہی ہے ‘ بلکہ یہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ بہر حال یہ توقیفی امور (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے پر موقوف) ہیں۔ گرائمر ‘ منطق ‘ نحو ‘ بیان وغیرہ کے کسی اصول یا قاعدے کو یہاں دخل نہیں ہے۔ - (تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ) ” یہ بڑی حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔ “
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :1 اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے ، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے ، شاعرانہ پرواز تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے ۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیز نہیں ہے ۔ یہ تو کتاب حکیم کی آیات ہیں ۔ ان کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے ۔
1: جیسا کے سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، یہ الگ الگ حروف جو سورتوں کے شروع میں آئے ہیں‘‘ حروف مقطعات ’’ کہلاتے ہیں، ان کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔