Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کا انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ 2۔ 2 (قَدَمَ صِدْقٍ ) کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔ 2۔ 3 کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ با للہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول انسان ہی ہوسکتا ہے :۔ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ شخص جو ہم جیسا ہی ایک آدمی ہے۔ ہماری طرح ہی پوری زندگی بسر کرتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ وہ اللہ کا رسول ہو، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دیا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے صرف انسان ہی رسول ہوسکتا ہے جو انہی کی زبان بولتا اور سمجھتا ہو اس کے علاوہ کوئی صورت ممکن ہی نہ تھی نہ کسی فرشتہ کو رسول بنایا جاسکتا تھا اور نہ کسی جن یا دوسری مخلوق کو اور اگر ایسا کیا بھی جاتا تو وہ لوگوں کے لیے حجت کیسے بن سکتا تھا ؟- [٣] اس رسول کو بھیجنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے بروقت مطلع کر دے اور انہیں اللہ کے جملہ احکام پہنچا دے اور بتلا دے کہ عزت اور سرفرازی صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہوسکتی ہے جو اس کی تعلیم کو تسلیم کرلیں لہذا لوگوں کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں ؟- [٤] آپ کو جادوگر کیوں کہا جاتا تھا ؟ کیونکہ آپ اللہ کا جو کلام پیش کر رہے تھے اس میں لطافت شیرینی اور تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ کافر بھی یہ کلام سن کر مسحور ہوجاتے تھے جیسا کہ نبی اکرم کا اپنا ارشاد ہے کہ اِنَّ مِنَ الْبَیَان لسحرًا (بخاری بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الآدب۔ باب البیان والشعر فصل اول) یعنی کوئی بیان ایسا ہوتا ہے جو جادو کا سا کام کرجاتا ہے۔ قرآن کی ایسی تاثیر کی وجہ سے قریش نے بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی اور کہتے تھے کہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متأثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ پابندی لگانے والے قریشی سردار خود قرآن سن کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنے باہمی معاہدہ کے باوجود چوری چھپے قرآن سن لیا کرتے تھے۔- ضما دازدی کا اسلام لانے کا قصہ :۔ ایک دفعہ یمن کے قبیلہ ازد کے ایک بااثرفرد ضماد ازدی مکہ تشریف لائے تو سرداران قریش نے انہیں متنبہ کیا کہ یہاں ایک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جس کے کلام میں جادو ہے کہیں اس کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔ ضماد ازدی خود دم جھاڑ کا کام کرتے تھے اس لیے انہیں یہ خیال آیا کہ اس شخص کی بات تو سننی چاہیے۔ میں بھی آخر ایک اچھا بھلا عقل مند آدمی ہوں اگر اس کی بات اچھی لگی تو قبول کرلوں گا ورنہ چھوڑدوں گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اسے کچھ آسیب ہوا تو اللہ میرے ہاتھوں اسے شفا دے۔ اس خیال سے میں ان کے پاس چلا گیا اور آپ سے اپنا کلام سنانے کی درخواست کی آپ نے اسے خطبہ مسنونہ الحمد للہ۔۔ عبدہ و رسولہ تک سنایا یہ خطبہ اگرچہ کوئی مستقل قرآنی آیت نہیں تاہم قرآنی کلمات کا ہی مجموعہ ہے جب ضماد نے یہ کلمات سنے تو جھوم اٹھا اور کہنے لگا پھر دہرائیے آپ نے دہرائے تو کہنے لگا ایک بار پھر دہرائیے آپ نے تیسری مرتبہ جب یہ کلمات دہرائے تو کہنے لگا میں نے کاہنوں کا کلام بھی سنا ہے اور جادوگروں کا بھی، شاعری کے اشعار بھی سنے ہیں۔ مگر ان کلمات جیسا پہلے کبھی کوئی کلام نہیں سنا بیشک یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بیعت کی تو آپ نے فرمایا : اور اپنی قوم کی طرف سے ؟ ضماد کہنے لگے ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں (مسلم، کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوۃ والخطبۃ)- ضماد ازدی کا یہ بیان کہ یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں وہی بات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی پہلی آیت میں ( الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ۝) 10 ۔ یونس :1) فرمایا ہے یعنی یہ کتاب دانائی سے اس قدر معمور ہے۔ کہ اس کی ہر بات استدلال اور اس کے منطقی نتیجہ پر منتج ہوتی ہے اور جو فصاحت و بلاغت، لطافت و شیرینی ہے وہ اس کی زائد خوبیاں ہیں۔- پھر چونکہ یہی قرآن آپ پیش فرما رہے تھے جو لوگوں کو مسحور بنا دیتا تھا لہذا کافر آپ کو جادوگر کہہ دیتے تھے اور اکثر انبیاء ورسل کو کفار کی جانب سے اسی لقب سے نوازا جاتا رہا ہے جن کو کوئی حسی معجزہ عطا کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک رسول اور ایک جادوگر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً :- ١۔ نبی اور جادوگر میں فرق :۔ جادو ایک فن ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ہر جادوگر کسی استاد کا شاگرد ہوتا ہے جبکہ معجزہ محض اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے یہ سیکھنے سکھلانے کی چیز نہیں ہوتی۔- ٢۔ جادو ایک پیشہ ہے جسے مال و دولت کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں جادوگر انتہائی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں جیسا کہ فرعون نے جب جادوگروں کو بلایا تو ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ کہ ہمیں اس کا کچھ معاوضہ بھی ملے گا ؟ جبکہ نبی انسانیت کی بےلوث خدمت کرتا ہے وہ برملا لوگوں سے کہہ دیتا ہے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔- ٣۔ جادو بالعموم ایسی باتوں کے لیے کیا جاتا ہے جن سے کسی کو دکھ اور تکلیف پہنچانا مقصود ہو جبکہ معجزہ بندوں کی ہدایت کے لیے بطور نشان نبوت پیش کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود سراسر بھلائی ہی بھلائی ہوتی ہے۔- ٤۔ جادوگر کے اخلاق و کردار دونوں مکروہ ہوتے ہیں اور لوگ اگر ان کی عزت کرتے ہیں تو ان کے شر سے بچنے کی خاطر کرتے ہیں جبکہ انبیاء کے اخلاق اور کردار نہایت پاکیزہ ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور ان کی گذشتہ زندگی کو کفار کے سامنے معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔- ایسے واضح تضاد کے باوجود مخالفین اگر انبیاء کو جادوگر کہتے رہے کہ تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی تھی کہ انہیں اتنا نمایاں فرق بھی نظر نہ آتا تھا بلکہ اس کی وجوہ محض ان کی ضد، ہٹ دھرمی، عناد، اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کا تعصب اور اپنے مناصب اور سرداریوں کا ختم ہوجانا وغیرہ ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا ۔۔ : یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح و سعادت کی راہ دکھانے کے لیے خود انھی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا گیا ؟ تعجب کی بات تو تب ہوتی کہ ان کا پروردگار ان کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا، یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا، کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لیے نمونۂ عمل بن ہی نہیں سکتا۔ مزید دیکھیے سورة توبہ ( ١٢٨) اور آل عمران (١٦٤) کی تفسیر۔ - اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ ۔۔ : ” قَدَم “ کا معنی تو ظاہر ہے، دوسروں سے آگے وہی نکلتا ہے جس کا قدم دوڑ میں سب سے آگے نکل جائے، اس لیے ” قَدم “ کا معنی پیش قدمی بھی کرتے ہیں۔ درجے اور مرتبے کی بلندی بھی آگے نکلنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ” صِدْق “ (سچ) مبالغہ کے لیے مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی اتنا سچا کہ سراپا سچ ہے، جیسے ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ ” أَيْ زَیْدٌ عَادِلٌ“ گویا زید سراپا عدل ہے۔ صدق قول میں بھی ہوتا ہے اور فعل میں بھی۔ ” قَدَم “ (موصوف) اپنی صفت ” صِدْقٍ “ کی طرف مضاف ہے، جیسا کہ ” مَسْجِدُ الْجَامِعِ “ معنی یہ ہوا کہ ایمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں حقیقی پیش قدمی اور سچا مرتبہ ہے، کفار اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے ہی نہیں بلکہ شرک و کفر میں ایسے اندھے ہوئے کہ وہ شخص جس کی چالیس سالہ زندگی کے صدق و امانت کے وہ خود شاہد تھے اس پر ایمان لانے کے بجائے ضد اور عناد سے اسے جادوگر کہہ دیا، ایسے اندھوں اور بہروں کو رب تعالیٰ کے ہاں حقیقی پیش قدمی اور سچا مرتبہ کیسے حاصل ہوسکتا تھا۔ سو وہ آگے بڑھنے کے بجائے جہنم میں گرنے کے لیے پیچھے رہ گئے۔ چونکہ ان کا آپ کو جادوگر قرار دینا بالکل ہی بودی بات تھی، اس لیے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔ - 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دینے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کے دماغ یہ مان گئے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام آدمی نہیں۔ مگر ان کی بدبختی دیکھیے کہ وہ جادوگروں کی غلیظ اور خبیث زندگی اور بد عادات سے خوب واقف ہونے کے باوجود سب سے زیادہ امین، راست باز، پاک دامن اور صاحب عقل و دانش انسان کو محض ہٹ دھرمی کی بنا پر جادوگر کہہ رہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں مشرکین کے ایک شبہ اور اعتراض کا جواب ہے، شبہ کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے یہ قرار دے رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول یا پیغمبر آئے وہ بشر یعنی انسان نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوئی فرشتہ ہونا چاہئے، قرآن کریم نے ان کے اس لغو خیال کا جواب کئی جگہ مختلف عنوانات سے دیا ہے، ایک آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا، یعنی اگر زمین پر بسنے والے فرشتے ہوتے تو ہم ان کے لئے رسول بھی کسی فرشتہ ہی کو بناتے، جس کا حاصل یہ ہے کہ رسالت کا مقصد بغیر اس کے پورا نہیں ہوسکتا کہ جن لوگوں کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے ان لوگوں میں اور اس رسول میں باہمی مناسبت ہو، فرشتوں کی مناسبت فرشتوں سے اور انسان کی انسان سے ہوتی ہے، جب انسانوں کے لئے رسول بھیجنا مقصد ہے تو کسی بشر ہی کو رسول بنانا چاہئے۔- اس آیت میں ایک دوسرے انداز سے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا اس بات پر تعجب کرنا کہ بشر کو کیوں رسول بنایا گیا اور اس کو نافرمان انسانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور فرمانبرداروں کو اس کے ثواب کی خوشخبری سنانے کا کام کیوں سپرد کیا گیا، یہ تعجب خود قابل تعجب ہے کیونکہ جنس بشر کی طرف بشر کو رسول بنا کر بھیجنا عین مقتضائے عقل ہے۔- اس آیت میں ایمان والوں کو خوشخبری ان الفاظ میں دی گئی (آیت) اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ، اس لفظ قدم کے اصلی معنی تو وہی ہیں جو اردو میں سمجھے جاتے ہیں یعنی پاؤ ں، چونکہ انسان کی سعی و عمل اور اس کے سبب ترقی کا ذریعہ قدم ہوتا ہے، اس لئے مجازا بلند مرتبہ کو قدم کہہ دیا جاتا ہے، اور لفظ قدم کی اضافت صدق کی طرف کرکے یہ بتلا دیا کہ یہ بلند مرتبہ جو ان کو ملنے والا ہے وہ حق اور یقینی بھی ہے اور قائم و باقی رہنے والا لازوال بھی، دنیا کے منصوبوں اور عہدوں کی طرح نہیں کہ کسی عمل کے نتیجہ میں اول تو ان کا حاصل ہونا ہی یقینی نہیں ہوتا اور حاصل بھی ہوجائے تو ان کا باقی رہنا یقینی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا فانی اور زائل ہونا یقینی ہے، کبھی تو زندگی ہی میں زائل ہوجاتا ہے اور موت کے وقت تو دنیا کے ہر منصب و عہدہ اور دولت و نعمت سے انسان خالی ہاتھ ہوجاتا ہے، غرض لفظ صدق کے مفہوم میں اس کا یقینی ہونا بھی شامل ہے اور کامل مکمل لازوال ہونا بھی، اس لئے معنی جملہ کے یہ ہوئے کہ ایمان والوں کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑا درجہ ہے جو یقینی ملے گا اور لازوال دولت ہوگی۔- بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس جگہ لفظ صدق لانے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جنت کے یہ درجات عالیہ صرف صدق و سچائی اور اخلاص ہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتے ہیں نرا زبانی جمع خرچ اور صرف زبان سے کلمہ ایمان پڑھ لینا کافی نہیں جب تک دل اور زبان دونوں سے سچائی کے ساتھ ایمان اختیار نہ کرلیا جائے جس کا لازمی نتیجہ اعمال صالحہ کی پابندی اور برے اعمال سے پرہیز ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۭ ؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٢- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والانَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - قدم ( پاؤں)- القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، - ( ق د م ) القدم - انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11]- اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- مبین بَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) کیا مکہ والوں کو اس بات حیرانی ہوئی کہ ہم نے ان ہی جیسے ایک انسان کے پاس وحی بھیجی تاکہ مکہ والوں کو بھی قرآن کریم کے ذریعے ڈرائے،- اور مومنوں کو بہترین ثواب کی خوشخبری سنائیے یا یہ کہ ان کو دنیا میں ایمان لانے کے صلہ میں آخرت میں اے پروردگار کے پاس پہنچ کر پورا مرتبہ ملے گا یا یہ کہ ان کے لیے شرافت و بزرگی والے نبی ہیں یا یہ کہ بلند مرتبہ والے شفیع ہیں مگر کفار مکہ کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ قرآن کریم تو جھوٹا جادو ہے۔- شان نزول : (آیت) ” اکان للناس عجبا “۔ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بناکر بھیجا تو تمام عرب نے یا عرب میں سے کچھ لوگوں نے اس بات کا انکار کیا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ کوئی انسان اس کا رسول ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔” اکان للناس “۔ یعنی کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی اور یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا ”۔ (الخ) چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے کئی دلیلیں پیش کیں تو کہنے لگے کہ اگر انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجنا تھا تو معاذ اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ دوسرا اس کا زیادہ مستحق تھا اس کا خیال تھا کہ مکہ والوں میں سے ولید بن مغیرہ اور طائف والوں میں سے مسعود بن عمر وثقفی ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”۔ اھم یقسمون رحمۃ ربک “۔ (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ ) ” کیا لوگوں کو بہت تعجب ہوا ہے کہ ہم نے وحی بھیج دی ایک شخص پر انہی میں سے “- (اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ ) ” کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ‘ خبردار کردیجیے اور اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت اونچا مرتبہ ہے۔ “- (قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ ) ” (اس پر) کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک کھلا جادوگر ہے۔ “- یعنی یہ تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ اس منصب کے لیے انسانوں میں سے جس کو چاہے پسند فرما کر منتخب کرلے۔ اگر اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی انذار اور تبشیر کی خدمت پر مامور کیا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :2 یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟ انسانوں کو ہوشیار کر نے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا ؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی ان کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :3 یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں ۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلی درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے ، اس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے ، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے ، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام ، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے ۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے ، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی ، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ ہو ۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے ۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہو ا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے ۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے ، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے ، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کر نے لگتے ہیں ۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے ، ایک متناسب نظام فکر ہے ، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے ، لفظ جچا تلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے ۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے ۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے برے نتائج سے ان کو خبردار کرے اور انہیں اس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے ۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں ۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے ، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرز عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہوگئی ہے ۔ اب تم خود ہی سوچ لو ، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی بڑا درجہ ہے