Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تخلیق کائنات کی قرآنی روداد تمام عالم کا رب وہی ہے ۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا ۔ پھر عرش پر وہ مستوی ہو گیا ۔ جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے ۔ جو سرخ یاقوت کا ہے ۔ جو نور سے پیدا شدہ ہے ۔ یہ قول غریب ہے ۔ وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے اس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ۔ اسے کوئی کام مشغول نہیں کر لیتا ۔ وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا ۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کر سکتی ۔ ہر چھوٹے بڑے کا ، ہر کھلے چھپے کا ، ہر ظاہر باہر کا ، پہاڑوں میں سمندروں میں ، آبادیوں میں ، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے ۔ ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے ۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے ، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں ۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کر سکے ۔ آسمان کے فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر زبان نہیں کھولتے ۔ اسی کو شفاعت نفع دیتی ہے جس کے لیے اجازت ہو ۔ یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے ۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو ۔ اسے واحد اور لاشریک مانو ۔ مشرکو اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے ۔ اس کے وہ خود قائل تھے ۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔ 3۔ 2 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ 3۔ 3 مشرکین و کفار، جو اصل مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ 3۔ 4 یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو :۔ اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورة اعراف کی آیت نمبر ٥٤) پھر وہ کائنات کو پیدا کرکے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلارہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی بااختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔- رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورة فاتحہ میں بتلائے جاچکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کرلینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کردی جائیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ ۔۔ : نبوت کے اثبات کے بعد توحید و قیامت کے دلائل شروع ہوتے ہیں۔ توحید کی پہلی اور اظہر من الشمس دلیل جو قرآن بار بار بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق ومالک، رب اور مدبر ہونا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١، ٢٢) یہ بات مکہ کے مشرک بھی مانتے تھے۔ دیکھیے سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) جب رب وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں کی جائے۔ اس آیت میں اور دوسرے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور دوسری صفات کو اس کے واحد معبود برحق ہونے کی دلیل بنایا ہے۔ - فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ : اس آیت میں دہر یہ کا بھی رد ہے جو رب تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں، جب معمولی سے معمولی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی تو سمجھ لو کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا عظیم الشان نظام، جس میں کوئی حادثہ یا تصادم نہیں، اسے بنانے والا تمہارا رب ہی ہے۔ چھ دنوں سے مراد یا تو وہ دن ہیں جن میں سے ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے، فرمایا : (وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) [ الحج : ٤٧ ] ” اور بیشک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔ “ یا ہمارے چھ دنوں کے برابر مدت مراد ہے، کیونکہ یہ دن رات تو سورج کی پیدائش کے بعد وجود میں آئے۔ (واللہ اعلم)- اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تدریج بھی ظاہر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ چاہتا تو سب کچھ ایک لمحے میں ” کُنْ “ کہہ کر پیدا فرما لیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ زمین و آسمان کو مرحلہ وار پیدا فرمائے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ہر کام آرام و اطمینان کے ساتھ کرنے کا سبق ہے۔ کائنات کی اکثر اشیاء پر غور کریں تو وہ چھ مرحلوں سے گزر کر مکمل ہوئی ہیں، مثلاً انسان کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورة مومنون (١٢ تا ١٤) ۔- ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۔۔ : پھر عر ش پر بلند ہوا اور وہاں رہ کر اسے کائنات کی تدبیر کا مرکز بنایا۔ نیز دیکھیے سورة اعراف (٥٤) ” يُدَبِّرُ الْاَمْرَ “ سے معلوم ہوا کہ پیدا کرنے کے بعد اس کا سارا اختیار اور تدبیر و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرکین نے اختیار کچھ اور ہستیوں کے پاس سمجھ لیا، بھلا پیدا کرنے کے بعد اپنی ملکیت و اختیار کسی دوسرے کو کون دیتا ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ملکیت و اختیار بےبس مخلوق کو دے دے جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتی، حقیقت یہی ہے کہ مشرک سے بڑھ کر بےعقل کوئی نہیں ہوسکتا۔ دیکھیے سورة روم (٢٨) ۔- مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ : کفار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا خیال تھا اور ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو مالک تو نہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت کے ہاتھوں یا ان کی غیبی قوت سے مجبور ہو کر ان کی بات اور سفارش ماننا پڑتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان سے التجائیں کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صاف نفی فرما دی۔ ہاں، خود اللہ تعالیٰ کسی کو عزت بخشنے کے لیے اسے سفارش کی اجازت دے دے تو وہ سفارش کرسکے گا، مگر صرف اس کے لیے جس کے حق میں اجازت ملے گی۔ اس میں اس کا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکے گا قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٥) ، طہ (١٠٩) ، سبا (٢٣) اور نجم (٢٦) بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سرے سے شفاعت ہی کی نفی کی ہے، جیسے فرمایا : (؀ۭفَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ ) [ المدثر : ٤٨ ] ” پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔ “ اور فرمایا : (وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ) [ البقرۃ : ٤٨، ١٢٣] ” اور کسی جان سے کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ “ وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے کہ ان کی سفارش فائدہ نہیں دے گی، یا اجازت کے بغیر سفارش مراد ہے، ورنہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں شفاعت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ” اِلَّا بِاِذْنِہٖ “ والی آیات سے بھی یہ شفاعت ثابت ہو رہی ہے، مگر یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی۔ - فَاعْبٗدٗوْہ : عبادت کا معنی ” پوجا کرنا “ بھی ہے اور پوری زندگی ” عبد “ یعنی اس کا فرماں بردار غلام (بندہ) بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لیے کسی غیبی قوت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ کے ساتھ خاص کیا ہے، پس ” فَاعْبٗدٗوْہ “ کے معنی ہیں اسی کی پوجا کرو، اسی کو مشکلات دور کرنے کے لیے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی (غلامی) میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراؤ گے۔ - اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : یہ اصل میں ” تَتَذَکَّرُوْنَ “ تھا، یہاں فکر کے بجائے ذکر کی دعوت دی ہے۔ ذکر یاد کرنے کو کہتے ہیں، نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مقصد ہے کہ اللہ واحد ہی کو عبادت کے لائق سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں، جو کچھ تمہارے گردوپیش ہے اور جو کچھ تمہارے ذہن میں موجود ہے اسی کو یاد کرو، نصیحت کے لیے وہی کافی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں توحید کو اس ناقابل انکار حقیقت کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے میں اور پھر پورے عالم کے کاموں کی تدبیر کرنے اور چلانے میں جب اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں تو پھر عبادت و اطاعت میں کوئی دوسرا کیسے شریک ہوسکتا ہے، بلکہ کسی دوسرے کو اس میں شریک کرنا بڑی بےانصافی اور ظلم عظیم ہے۔- اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا ہے، لیکن ہمارے عرف میں دن اس وقت کو کہا جاتا ہے جو آفتاب کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک ہوتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ آسمان و زمین اور ستاروں کے پیدا ہونے سے پہلے آفتاب ہی کا وجود نہیں تو طلوع، غروب کا حساب کیسے ہو اس لئے مراد یہاں وہ مقدار وقت ہے جو آفتاب کے طلوع و غروب کے درمیان اس جہان میں ہونے والی تھی۔- چھ دن کے تھوڑے سے وقت میں اتنے بڑے جہان کو جو آسمانوں اور زمین اور سیارات اور تمام کائنات عالم پر مشتمل ہے، بنا کر تیار کردینا اسی ذات قدوس کا مقام ہے جو قادر مطلق ہے اس کی تخلیق کے لئے نہ پہلے سے خام اجناس کا موجود ہونا ضروری ہے اور نہ بنانے کے لئے کسی عملہ اور خدام کی ضرورت ہے بلکہ اس کی قدرت کاملہ کا یہ مقام ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا فرمانا چاہیں تو بغیر کسی سامان اور کسی کی امداد کے ایک آن میں پیدا فرما دیں، یہ چھ دن کی مہلت بھی خاص حکمت و مصلحت کی بناء پر اختیار کی گئی ہے ورنہ ان کی قدرت میں یہ بھی تھا کہ تمام آسمان و زمین اور اس کی کائنات کو ایک آن میں پیدا فرما دیتے۔- اس کے بعد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ، یعنی پھر قائم ہوا عرش پر۔ اتنی بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ عرش رحمن کوئی ایسی مخلوق ہے جو تمام آسمانوں اور زمین اور تمام کائنات عالم پر محیط ہے سارا جہاں اس کے اندر سمایا ہوا ہے، اس سے زائد اس کی حقیقت کا معلوم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، جو انسان اپنی سائنس کی انتہائی ترقی کے زمانہ میں بھی صرف نیچے کے سیاروں تک پہنچنے کی تیاری میں ہے اور وہ بھی ابھی نصیب نہیں اور اس کا یہ اقرار ہے کہ اوپر کے سیارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ آلات رصدیہ کے ذریعہ بھی ان کی معلومات تخمینہ اور اندازہ سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور بہت سے ستارے ایسے بھی ہیں جن کی شعاعیں ابھی تک زمین پر نہیں پہنچیں، حالانکہ شعاع نوری کی حرکت ایک منٹ میں لاکھوں میل بتائی جاتی ہے، جب سیاروں اور ستاروں تک انسان کی رسائی کا یہ حال ہے تو آسمان جو ان سب ستاروں اور سیاروں سے اوپر ہے اس کا یہ مسکین انسان کیا حال معلوم کرسکتا ہے، اور پھر جو ساتوں آسمانوں سے بھی اوپر اور سب پر حاوی اور محیط عرش رحمن ہے اس کی حقیقت تک انسان کی رسائی معلوم - آیت مذکورہ سے اتنا معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے چھ دن میں آسمان و زمین اور تمام کائنات بنائی اور اس کے بعد عرش پر قیام فرمایا۔- یہ یقینی اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جسم اور جسمانیت اور اس کی تمام صفات و خصوصیات سے بالا و برتر ہے نہ اس کا وجود کسی خاص سمت اور جہت سے تعلق رکھتا ہے نہ اس کا کسی مکان میں قیام اس طرح کا ہے جس طرح دنیا کی چیزوں کا قیام اپنی اپنی جگہ میں ہوتا ہے، پھر عرش پر قیام فرمانا کس طرح اور کس کیفیت کے ساتھ ہے، یہ ان متشابہات میں سے ہے جن کو انسان کی عقل و فہم نہیں پاسکتی اسی لئے قرآن حکیم کا ارشاد ان کے بارے میں یہ ہے کہ (آیت) وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ، یعنی ان کے سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اور مضبوط اور صحیح علم والے اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت جاننے کی فکر میں نہیں پڑتے، اس لئے اس قسم کے تمام معاملات میں جن میں حق تعالیٰ کی نسبت کسی مکان یا جہت کی طرف کی گئی ہے یا جن میں حق تعالیٰ کے لئے اعضاء ید، وجہ ساق وغیرہ کے الفاظ قرآن میں وارد ہوئے، عقیدہ جمہور علمائے امت کا یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ کلمات اپنی جگہ پر حق جاننے کی فکر کو اپنی عقل سے بالاتر ہونے کی بناء پر چھوڑ دیا جائے۔- نہ ہر جائے مرکب تو ان تاختن کہ جاہا سپر باید انداختن - اور جن متاخرین علماء نے ان چیزوں کے کوئی معنی بیان فرمائے ہیں ان کے نزدیک بھی وہ محض ایک احتمال کے درجہ میں ہیں کہ شاید یہ معنی ہوں، اس معنی کو یقینی وہ نہیں فرماتے اور نرے احتمالات ظاہر ہے کہ کسی حقیقت کا انکشاف نہیں کرسکتے، اس لئے صاف اور سیدھا مسلک سلف صالحین اور صحابہ وتابعین ہی کا ہے جنہوں نے ان چیزوں کی حقیقت کو علم الہٰی کے سپرد کرنے پر قناعت فرمائی، اس کے بعد فرمایا يُدَبِّرُ الْاَمْرَ یعنی عرش پر مستوی ہو کر وہ تمام عالموں کا انتظام خود دست قدرت سے انجام دیتا ہے۔- (آیت) مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ، یعنی کسی نبی و رسول کو بھی اس کی بارگاہ میں سفارش کرنے کی بذات خود کوئی مجال نہیں، جب تک حق تعالیٰ ہی ان کو سفارش کرنے کی اجازت عطا نہ فرماویں وہ بھی کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ۝ ٠ ۭ مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِہٖ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٣- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - دبر - والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً- [ النازعات 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور،- ( د ب ر ) دبر ۔- التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ - شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» - الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - تذکرون - ۔ ای تفکرون۔ تم کیوں نہیں غور و فکر کرتے۔ تم کیوں نہیں سوچتے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) بلاشبہ تمہارے رب حقیقی نے دنیا کے پہلے چھ دنوں میں جس کا پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعۃ المبارک ہے جن میں سے ہر ایک دن کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہے، آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا یا یہ کہ پھر عرش پر غالب اور متمکن ہوا۔- اور وہ بندوں کے ہر ایک کام کی تدبیر کرتا ہے یا یہ کہ بندوں کے ہر کام میں غور فرماتا ہے یا یہ کہ وہ فرشتوں کو وحی تنزیل اور مصیبت کے ساتھ بھیجتا ہے۔- اس کے سامنے کوئی قریبی فرشتہ اور نہ کوئی نبی مرسل کسی کی سفارش کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ، جو ان تمام امور کو انجام دیتا ہے وہ تمہارا پروردگار ہے سو تم اسی کی توحید بجا لاؤ کیا تم پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ) ” یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی چھ دنوں میں “- (ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ط) ” پھر وہ عرش پر متمکن ہوگیا ‘ (اور) وہ تدبیر کرتا ہے ہر معاملہ کی۔ “- اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور منصوبہ بندی کے مطابق پوری کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ” حجۃ اللہ البالغہ “ کے باب اول میں اللہ تعالیٰ کے تین افعال کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے : (١) ابداع ( ) یعنی کسی چیز کو عدم محض سے وجود بخشنا ‘ (٢) خلق ‘ یعنی کسی چیز سے کوئی دوسری چیز بنانا ‘ اور (٣) تدبیر ‘ یعنی اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کائناتی نظام کی منصوبہ بندی ( ) فرمانا۔ - (مَا مِنْ شَفِیْعٍ الاَّ مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ط) ” نہیں ہے کوئی بھی شفاعت کرنے والا مگر اس کی اجازت کے بعد۔ “- کوئی اس کا اذن حاصل کیے بغیر اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے آیت الکرسی (سورۃ البقرۃ) میں بھی شفاعت کے بارے میں اسی نوعیت کا استثناء آچکا ہے۔ - (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ) ” وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ پس تم اسی کی بندگی کرو۔ تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :4 یعنی پیدا کر کے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملا اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے ، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں ۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے ، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں ، ساری زمام اقتدار پر وہ خود قابض ہے ، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے ، اس جہان ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا ، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے ، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر٤۰ ، ٤۱ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :5 یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے ۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے ، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے ۔ خدا کی خدائی میں اتنا زور دار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :6 اوپر کے تین فقروں میں حقیقت نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خد ا ہی تمہارا رب ہے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو ۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے ، یعنی پروردگار ، مالی و آقائی ، اور فرماں روائی ، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے ۔ یعنی پرستش ، غلامی اور اطاعت ۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو ، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے ۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے ۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے ۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے ۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حلم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے ۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :7 یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرز عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور انہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: ’’استواء‘‘ کے لفظی معنیٰ سیدھا ہونے، قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے اُن کا اِستواء بھی مخلوقات جیسا نہیں۔ اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اسی لفظ کو برقرار رکھا ہے، کیونکہ ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عرش پر اس طرح اِستواء فرمایا جو ان کی شان کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے، نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔