Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دین حنیف کی وضاحت یکسوئی والا سچا دین جو میں اپنے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اس میں اے لوگوں اگر تمہیں کوئی شک شبہ ہے تو ہو ، یہ تو ناممکن ہے کہ تمہاری طرح میں بھی مشرک ہو جاؤں اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرنے لگوں ۔ میں تو صرف اسی اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی میں لگا رہوں گا جو تمہاری موت پر بھی ویسا ہی قادر ہے جیسا تمہاری پیدائش پر قادر ہے تم سب اسی کی طرف لوٹنے والے اور اسی کے سامنے جمع ہو نے والے ہو ۔ اچھا اگر تمہارے یہ معبود کچھ طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ جو ان کے بس میں ہو مجھے سزا دیں ۔ حق تو یہ ہے کہ نہ کوئی سزا ان کے قبضے میں نہ جزا ۔ یہ محض بےبس ہیں ، بےنفع و نقصان ہیں ، بھلائی برائی سب میرے اللہ کے قبضے میں ہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے ، مجھے اس کا حکم ہے کہ میں مومن رہوں ۔ یہ بھی مجھے حکم مل چکا ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کرو ۔ شرک سے یکسو اور بالکل علیحدہ رہوں اور مشرکوں میں ہرگز شمولیت نہ کروں ۔ خیر و شر نفع ضرر ، اللہ ہی کے ہاتھ میں ۔ کسی اور کو کسی امر میں کچھ بھی اختیار نہیں ۔ پس کسی اور کی کسی طرح کی عبادت بھی لائق نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنی پوری عمر اللہ تعالیٰ سے بھلائی طلب کرتے رہو ۔ رب کی رحمتوں کے موقع کی تلاش میں رہو ۔ ان کے موقعوں پر اللہ پاک جسے چاہے اپنی بھر پور رحمتیں عطا فرما دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عیبوں کی پردہ پوشی اپنے خوف ڈر کا امن طلب کیا کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو شخص جب بھی توبہ کرے ، اللہ اسے بخشنے والا اور اس پر مہربانی کرنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ تمام لوگوں پر واضح کردیں کہ میرا طریقہ اور مشرکین کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ 104۔ 2 یعنی اگر تم میرے دین کے بارے میں شک کرتے ہو، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اور یہی دین حق ہے نہ کہ کوئی اور تو یاد رکھو میں ان معبودوں کی کبھی اور کسی حال میں عبادت نہیں کرونگا جن کی تم کرتے ہو۔ 104۔ 3 یعنی موت وحیات اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی لئے جب وہ چاہے تمہیں ہلاک کرسکتا ہے کیونکہ انسانوں کی جانیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٢] موت سے متعلق تین حقائق :۔ موت کے متعلق چند ایسے اٹل حقائق ہیں جن کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کرسکتا خواہ وہ مومن ہو یا مشرک ہو یا دہریہ اور نیچری ہو۔ ایک یہ کہ ہر ذی روح کو موت آکے رہے گی کوئی انسان موت کی گرفت سے آج تک نہ بچ سکا ہے اور نہ بچ سکتا ہے دوسری یہ کہ جب موت کا وقت آجائے تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اور تیسری یہ کہ موت ہر ذی روح کے لیے ناگوار ہوتی ہے اور کوئی بھی مرنا پسند نہیں کرتا۔ الا یہ کہ مومنوں کو موت کے وقت آئندہ کے بہتر انجام کی خوشخبری دی جاتی ہے یا انھیں جنت میں ان کا مقام دکھلا دیا جاتا ہے جس کی بنا پر وہ موت کو برضاء ورغبت قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیدۃ عائشہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور ان تینوں حیثیتوں کو مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے بالخصوص اس حقیقت کو کہ موت کو ان کے معبود ٹال نہیں سکتے نیز یہ کہ موت اور زندگی کا رشتہ سرتا سر خالص اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔- معبودان باطلہ کی اقسام اور ان کی بےبسی :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کی تین ہی قسمیں ہوسکتی ہیں ایک توہماتی ارواح جیسے جن، فرشتے مختلف سیاروں یا بزرگوں کی ارواح، ایسی چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے کی بنیاد محض انتہائی توہمات ہیں۔ دوسرے بےجان معبود جیسے بت مجسمے اور شجر و حجر وغیرہ اور تیسرے پیر و مشائخ وغیرہ۔ ان میں سے بےجان تو محض توہماتی چیزیں ہیں رہے پیرو مشائخ جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو موت جیسی ناگوار چیز کی گرفت سے بچا لیا تھا یا اس کے وقت کو مؤخر کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے تھے ؟ اور اگر وہ اپنی بھی مصیبت دور نہیں کرسکے تو دوسروں کی کیسے دور کرسکتے ہیں ؟- زندگی اور موت پر اللہ کے سوا کسی معبود کا اختیار نہیں چلتا :۔ اسی حوالہ سے مشرکوں کو انتباہ کیا جارہا ہے اور پیغمبر کی زبان سے یہ کہلوایا جارہا ہے کہ آپ انھیں کہیے کہ میں صرف اسی ہستی کی پرستش کرتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں تمہاری جانیں ہیں تمہاری جانوں پر تمہارے تمام معبودوں میں سے کسی کا بھی تصرف نہیں چلتا تو پھر میں آخر اسی اکیلے معبود کی کیوں نہ پرستش کروں جو میری اور تمہاری سب کی جانوں پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے ہم سب کی زندگی اور موت کی باگ ڈور خالصتاً اسی کے ہاتھ میں ہے اور کان کھول کر سن لو کہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ایسے بےبس اور لاچار معبودوں کی کبھی پرستش کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ ۔۔ : شک کا معنی یہ ہے کہ ذہن میں کسی چیز کے حق ہونے یا ناحق ہونے کا برابر امکان ہو، اگر اس کی ذہنی کیفیت کو ترازو میں تولا جائے تو وہ اسے نہ حق کہہ سکے نہ باطل۔ اب دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ” اِنْ “ اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں کوئی بھی شک ہے۔ ” اگر “ کا لفظ بتاتا ہے کہ شک کی گنجائش تو نہیں لیکن فرض کرو کہ تمہیں اس میں کوئی شک ہے تو میرا اعلان سن لو کہ میں ایک اللہ کے سوا تمہارے معبودوں میں سے کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت سے پہلے تمام باطل معبودوں کا انکار کیا گیا ہے، جیسے (قُلْ یَا اَیُّہَا الْکٰفِرٗوْنَ ) میں ہے، پھر صرف ایک اللہ کی عبادت کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی اس کی دلیل ذکر فرما دی : (الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ) ” وہ جو تمہاری روح قبض کرتا ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة زمر (٤٢) کوئی اور معبود یہ کام کرتا ہو تو سامنے لاؤ۔ ساتھ ہی اس میں دھمکی بھی ہے کہ اگر تم شرک پر قائم رہے تو اس اللہ کو کیا جواب دو گے جو تمہاری روح قبض کرتا ہے اور ہر حال میں تمہیں اسی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سے نمٹ لے گا اور مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں مومن بن کر رہوں اور اپنی پیشانی اس کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکاؤں، لہٰذا میری اور تمہاری راہ ایک دوسرے سے سراسر مختلف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ اے لوگو اگر تم میرے دین کی طرف سے شک ( اور تردد) میں ہو تو ( میں تم کو اس کی حقیقت بتلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ) میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، لیکن ہاں اس معبود کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے اور مجھ کو ( منجانب اللہ) یہ حکم ہوا ہے کہ میں ( ایسے معبود پر) ایمان لانے والوں میں سے ہوں اور ( مجھ کو) یہ ( حکم ہوا ہے) کہ اپنے آپ کو اس دین ( مذکورہ توحید خالص) کی طرف اس طرح متوجہ رکھنا کہ اور سب طریقوں سے علیحدہ ہوجاؤ اور کبھی مشرک مت بننا اور ( یہ حکم ہوا ہے کہ) خدا ( کی توحید) کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ ( عبادت کرنے کی حالت میں) کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ ( ترک عبادت کی حالت میں) کوئی ضرر پہنچا سکے پھر اگر ( با لفرض) ایسا کیا ( یعنی غیر اللہ کی عبادت کی) تو اس حالت میں ( اللہ کا) حق ضائع کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے اور (مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ) اگر تم کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچاوے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں ( بلکہ) وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہیں مبذول فرمائیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں ( اور فضل کے تمام افراد مغفرت اور رحمت میں داخل ہیں اور وہ مغفرت اور رحمت عظیمہ کے ساتھ موصوف ہیں پس لامحالہ صاحب فضل بھی ہیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۝ ٠ ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٠٤ ۙ- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار مکہ سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دین اسلام کے بارے میں شک ہے تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا، جن بتوں کی تم اللہ کی بجائے عبادت کرتے ہو لیکن ہاں اس معبود کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری ارواح کو قبض کرتا ہے اور پھر مرنے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں مومن لوگوں کے ساتھ ان کے دین پر ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ )- اب سورة کے آخر میں فیصلہ کن انداز میں خطاب کیا جا رہا ہے کہ اے لوگو یہ جو تم مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہو ‘ کہ میں اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرلوں یا تمہارے ساتھ کسی حد تک مداہنت ( ) کا رویہ اختیار کروں ‘ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں میرے دین کے بارے میں ابھی تک شک ہے۔ اگر ایسا ہے تو تم لوگ اپنا یہ شک دور کرلو :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :106 جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :107 متن میں لفظ يَتَوَفّٰىكُمْ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے جو تمہیں موت دیتا ہے ۔ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے ، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اس جان آفرین کے حوالے کر دینی پڑتی ہے ، میں صرف اسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کا قائل ہوں ۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکین مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے ، اس پر کسی دوسرے کا قابو نہیں ہے ۔ حتی کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھیراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے ۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالی کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ وہ جو تمہیں موت دیتا ہے ، یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے ۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے ۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی و موت پر بھی اقتدار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں ۔ پھر کمال بلاغت یہ ہے کہ وہ مجھے موت دینے والا ہے کہنے کے بجائے وہ جو تمہیں موت دیتا ہے ۔ فرمایا ۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیان مدعا ، دلیل مدعا ، اور دعوت الی المدعی ، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں ۔ اگر یہ فرمایا جاتا کہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو مجھے موت دینے والا ہے تو اس سے صرف یہی معنی نکلتے کہ مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے ۔ اور تم یہ غلطی کر رہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani