Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں فرمان ہے کہ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو ، کہ بندے کبھی کبھی تنگ آکر ، گھبرا کر اپنے لیے ، اپنے بال بچوں کے لیے اپنے مالک کے لیے ، بد دعائیں کر بیٹھتے ہیں لیکن میں انہیں قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا ۔ ورنہ وہ کسی گھر کے نہ رہیں جیسے کہ میں انہی چیزوں کی برکت کی دعائیں قبول فرمالیا کرتا ہوں ۔ ورنہ یہ تباہ ہو جاتے ۔ پس بندوں کو ایسی بدعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ چنانچہ مسند بزار کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اپنی جان و مال پر بد دعا نہ کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت موافقت کر جائے اور وہ بد دعا قبول ہو جائے ۔ اسی مضمون کا بیان ( وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11؀ ) 17- الإسراء:11 ) میں ہے ۔ غرض یہ ہے کہ انسان کا کسی وقت اپنی اولاد مال وغیرہ کے لیے بد دعا کرنا کہ اللہ اسے غارت کرے وغیرہ ۔ ایک نیک دعاؤں کی طرح قبولیت میں ہی آجا کرے تو لوگ برباد ہو جائیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے، اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے، اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو کبھی کے یہ موت اور ہلاکت سے دوچار ہوچکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انہیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لئے بد دعائیں کرتا ہے، جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے، مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بد دعاؤں کے مطابق، انہیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں، تو پھر جلدی ہی لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہوجایا کریں اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ تم اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال و کاروبار کے لئے بد دعائیں مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعائیں، اس گھڑی کو پالیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں، پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] قریش مکہ پر قحط :۔ قریش مکہ کی مسلسل ایذا رسانیوں اور نافرمانیوں کے نتیجہ میں مکہ میں سخت قحط نمودار ہوا جس کی مصیبت سے اہل مکہ بلبلا اٹھے قریشی متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں۔ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا حتیٰ کہ یہ لوگ ہڈیاں اور چمڑہ تک کھانے پر مجبور ہوگئے اور آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک کی شدت اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے انہیں دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا اور ان دنوں وہ اللہ سے آہ زاریاں بھی کرتے تھے اور بت پرستی میں بھی خاصی کمی آگئی تھی جب اس قحط نے طول کھینچا تو ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا آپ قحط کے عذاب سے نجات کے لیے دعا کریں، آپ تو صلہ رحمی کا سبق دیتے ہیں جبکہ ہم بھوکوں مر رہے ہیں۔ اگر یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے چناچہ آپ نے دعا فرمائی تو بارشیں ہونے لگیں اور قحط دور ہوگیا اور یہ دعائیں انسانوں کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے تھیں۔- اچھی دعاجلدی قبول ہوجاتی ہے اور بری نہیں ہوتی :۔ دوسری طرف کافر لوگ آپ سے کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ قرآن برحق ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسادے (٨: ٣٢) یہ دعا انسانوں کی برائی اور تباہی کے لیے تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول نہ کیا حتیٰ کہ بعض دفعہ رسول اللہ کی بددعا کے جواب میں فرما دیا۔ (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ١٢٨۔ ) 3 ۔ آل عمران :128)- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا دستور یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب کوئی اچھی چیز طلب کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اس طرح اگر وہ تم لوگوں کی بددعائیں بھی قبول کرنے لگتا تو اس وقت تک تم میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ برے کاموں کے بدلہ میں یا بددعاؤں کے نتیجہ میں فوراً عذاب نہیں نازل کیا کرتا بلکہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے پھر اگر باربار کی تنبیہات کے باوجود بھی لوگ نافرمانیوں سے باز نہ آئیں تب ان پر عذاب آتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ يُعَجِّلُ ۔۔ : ” تَعْجِیْلٌ“ تفعیل سے ہے، اس کا معنی وقت سے پہلے طلب کرنا اور ” اِسْتِعْجَالٌ“ کا معنی بھی جلدی طلب کرنا ہے، مگر یہاں یہ دونوں جلدی طلب کے معنی میں نہیں بلکہ جلدی دینے کے معنی میں ہیں اور حروف میں اضافہ معنی میں اضافے کے لیے ہے۔ اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ کفار جلدی مچاتے تھے کہ لاؤ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہو، فرمایا : (وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ ) [ الحج : ٤٧ ] ” اور وہ تجھ سے عذاب جلدی مانگتے ہیں۔ “ حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ اگر اسلام واقعی حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا یا کوئی عذاب الیم بھیج دے۔ دیکھیے سورة انفال (٣٢) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم جس طرح انھیں خیر بہت جلدی عطا کردیتے ہیں اسی طرح (ان کے مطالبے پر) عذاب بھی جلدی بھیج دیتے تو یہ کبھی کے ہلاک ہوچکے ہوتے، مگر ہم انھیں مہلت دے کر پورا موقع دیتے ہیں کہ واپس پلٹ آئیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، انسان جب اپنے لیے یا دوسروں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اسے جلد قبول فرماتا ہے، لیکن جب غصے یا رنج میں آکر اپنے منہ سے اپنے یا اپنے بچوں یا دوسروں کے لیے بددعا کے کلمات نکالتا ہے تو وہ انھیں قبول نہیں فرماتا، بلکہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ شاید وہ اپنی اصلاح کریں اور اگر وہ یہ بھی جلدی قبول کرلے تو لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں۔ اس صورت میں ” استعجال “ میں طلب کا معنی موجود ہے، ” تعجیل “ میں نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تَدْعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰی أَوْلَادِکُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰی خَدَمِکُمْ وَلاَ تَدْعُوْا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ ، لاَ تُوَافِقُوْا مِنَ اللّٰہِ سَاعَۃً نَیْلَ عَطَاءٌ فَیَسْتَجِیْبَ لَکُمْ ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب النہي عن أن یدعو ۔۔ : ١٥٣٢، عن جابر بن عبد اللہ۔ و صححہ الألباني ] ” اپنے آپ پر بددعا نہ کرو اور اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو اور اپنے خادموں پر بددعا نہ کرو اور اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسے وقت میں دعا کر بیٹھو جس میں (مانگی ہوئی چیز) دے دی جاتی ہے اور وہ تمہاری بددعا قبول کرلے۔ “ آخر میں فرمایا کہ آخرت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں کو ہم ان کے کفر و شرک اور ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلی تفسیر ان الفاظ کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ( ان کی جلدی مچانے کے موافق) جلدی سے نقصان واقع کردیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں ( اور اس کے موافق وہ فائدہ جلد واقع کردیتا ہے اسی طرح اگر نقصان بھی واقع کردیا کرتا) تو ان کا وعدہ ( عذاب) کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا ( لیکن ہماری حکمت جس کا بیان ابھی آتا ہے چونکہ اس کو مقتضی نہیں ہے) سو ( اس لئے) ہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے ان کے حال پر ( بلا عذاب چند روز) چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ( اور مستحق عذاب کے ہوجاویں اور وہ حکمت یہی ہے) اور جب انسان کو ( یعنی ان میں سے بعض کو) کوئی تکلیف پہنچی ہے تو ہم کو پکارنے لگتا ہے، لیٹے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی ( اور اس وقت کوئی بت وغیرہ یاد نہیں رہتا ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ) پھر جب ( اس کی دعا والتجاء کے بعد) ہم اس کی وہ تکلیف ہٹا دیتے ہیں تو پھر اپنی حالت پر آجاتا ہے ( اور ہم سے ایسا بےتعلق ہوجاتا ہے) کہ گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کے ہٹانے کے لئے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا ( اور پھر وہی شرک کی باتیں کرنے لگتا ہے، نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْٓا اِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا) ان حد سے نکلنے والوں کے اعمال ( بد) ان کو اسی طرح مستحسن معلوم ہوتے ہیں ( جس طرح ہم نے ابھی بیان کیا ہے) اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ( انواع عذاب سے) ہلاک کردیا ہے جب کہ انہوں نے ظلم ( یعنی کفر و شرک) کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے اور وہ ( بوجہ غایت عناد کے) ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ( جیسا ہم نے ابھی بیان کیا ہے) پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو آباد کیا تاکہ ( ظاہری طور پر بھی) ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو ( آیا ویسا ہی شرک و کفر کرتے ہو یا ایمان لاتے ہو) اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے ( آپ سے) یوں کہتے ہیں کہ ( یا تو) اس کے سوا کوئی ( پورا) دوسرا قرآن ( ہی) لائے ( جس میں ہمارے مسلک کے خلاف مضامین نہ ہوں) یا ( کم از کم) اسی ( قرآن) میں کچھ ترمیم کردیجئے ( کہ ہمارے مسلک کے خلاف مضامین اس سے حذف کردیجئے اور اس منطوق سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ وہ لوگ قرآن کو کلام محمدی سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ اسی بنا پر جواب تعلیم فرماتے ہیں کہ) آپ یوں کہہ دیجئے کہ ( قطع نظر اس سے کہ ایسے مضامین کا حذف کرنا فی نفسہ کیسا ہے خود) مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں ( اور جب بعض کا حذف بھی ممکن نہیں تو کل کا حذف تو بدرجہ اولی ناممکن ہے کیونکہ وہ میرا کلام تو ہے ہی نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے آیا ہے، جب یہ ہے تو) بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے ( اور بالفرض خدانخواستہ) اگر میں (وحی کا اتباع نہ کروں بلکہ) اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے بھاری دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں ( جو اہل عصیان کے لئے مخصوص ہے اور بوجہ عصیان کے تمہارے نصیب میں ہے سو میں تو اس عذاب یا اس کے سبب یعنی عصیان کی جرأت نہیں رکھتا اور اگر ان کو اس کے وحی ہونے میں کلام ہے اور یہ آپ ہی کا کلام سمجھے جاتے ہیں تو) آپ یوں کہہ دیجئے کہ ( یہ تو ظاہر ہے کہ یہ کلام معجز ہے کوئی بشر اس پر قادر نہیں ہوسکتا خواہ میں ہوں یا تم ہو سو) اگر خدا تعالیٰ کو منظور ہوتا ( کہ میں یہ کلام معجز تم کو نہ سنا سکوں اور اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے تم کو اس کی اطلاع نہ دے) تو ( مجھ پر اس کو نازل نہ فرماتا پس) نہ تو میں تم کو یہ ( کلام) پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا ( پس جب میں تم کو سنا رہا ہوں اور میرے ذریعہ سے تم کو اطلاع ہو رہی ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کلام معجز کا سنوانا اور اطلاع کرنا منظور ہوا اور سنانا اور اطلاع دینا بدون وحی کے بوجہ اس کے معجز ہونے کے ممکن نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہ وحی منزل اور کلام الہٰی ہے) کیونکہ ( آخر) اس ( کلام کے ظاہر کرنے) سے پہلے بھی تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں ( پھر اگر یہ میرا کلام ہے تو یا تو اتنی مدت تک ایک جملہ بھی اس طرز کا نہ نکلا اور یا دفعۃ اتنی بڑی بات بنالی یہ تو بالکل عقل کے خلاف ہے) پھر کیا تم اتنی عقل نہیں رکھتے ہو ( جب اس کا کلام الہٰی اور حق ہونا ثابت ہوگیا اور پھر بھی مجھ سے درخواست ترمیم کی کرتے ہو اور اس کو نہیں مانتے تو سمجھ لو کہ) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے ( جیسا میرے لئے تجویز کرتے ہو) یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلاوے ( جیسا اپنے لئے تجویز کر رکھا ہے) یقینا ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی ( بلکہ معذب ابدی ہوں گے ) ۔- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو آخرت کے منکر ہیں، اسی وجہ سے جب ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو وہ بطور استہزا کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ عذاب ابھی بلا لو یا یہ کہ پھر یہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا جیسے نضر بن حارث نے کہا تھا " یا اللہ اگر یہ بات سچی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب بھیج دیجئے "۔- پہلی آیت میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہیں، یہ عذاب موعود فوراً اس وقت بھی نازل فرما سکتے ہیں مگر وہ اپنی حکمت بالغہ اور لطف و کرم سے ایسا نہیں کرتے یہ نادان جو اپنے حق میں بد دعا کرتے اور مصیبت طلب کرتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ان کی بد دعا کو بھی اسی طرح جلد قبول فرما لیا کرتے جس طرح ان کی اچھی دعا کو اکثر کرلیتے ہیں تو یہ سب ہلاک ہوجاتے۔- اس سے معلوم ہوا کہ دعائے خیر اور اچھی دعا کے متعلق تو حق تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ اکثر جلد قبول کرلیتے ہیں اور کبھی کسی حکمت و مصلحت سے قبول نہ ہونا اس کے منافی نہیں، مگر جو انسان کبھی اپنی نادانی سے اور کبھی کسی غصہ اور رنج سے اپنے لئے یا اپنے اہل و عیال کے لئے بد دعا کر بیٹھتا ہے یا انکار آخرت کی بنا پر عذاب کو کھیل سمجھ کر اپنے لئے دعوت دیتا ہے اس کو فوراً قبول نہیں کرتے بلکہ مہلت دیتے ہیں تاکہ منکر کو غور و فکر کر کے اپنے انکار سے باز آنے کا موقع ملے اور اگر کسی وقتی رنج و غصہ یا دل تنگی کے سبب بد دعا کر بیٹھا ہے تو اس کو اس کی مہلت مل جائے کہ اپنے بھلے برے کو دیکھے اور انجام پر نظر ڈال کر اس سے باز آجائے۔- امام ابن جریر طبری نے بروایت قتادہ اور بخاری و مسلم نے بروایت مجاہد نقل کیا ہے کہ اس جگہ بد دعا سے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی انسان غصہ کی حالت میں اپنی اولاد یا مال و دولت کے تباہ ہونے کی بد دعا کر بیٹھتا یا ان چیزوں پر لعنت کے الفاظ کہہ ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ایسی دعا قبول کرنے میں جلدی نہیں فرماتے۔ امام قرطبی نے اس جگہ ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی ہے کہ وہ کسی دوست عزیز کی بد دعا اس کے دوست عزیز کے متعلق قبول نہیں فرماویں، اور شہر بن حوشب (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ جو فرشتے انسانوں کی حاجت روائی پر مقرر ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ میرا بندہ جو رنج و غصہ میں کچھ بات کہے اس کو نہ لکھو۔ ( قرطبی ) ۔ - اس کے باوجود بعض اوقات کوئی قبولیت کی گھڑی آتی ہے جس میں انسان کی زبان سے جو بات نکلے وہ فوراً قبول ہوجاتی ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی اولاد اور مال کے لئے کبھی بد دعا نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ وہ وقت قبولیت دعا کا ہو اور یہ بد دعا فوراً قبول ہوجائے (اور تمہیں بعد میں پچھتانا پڑے) صحیح مسلم میں یہ حدیث حضرت جابر کی روایت سے غزوہ بواط کے واقعہ کے تحت نقل کی گئی ہے۔- ان سب روایات کا حاصل یہ ہے کہ آیت مذکورہ کا اصل خطاب اگرچہ منکرین آخرت اور ان کے فوری مطالبہ عذاب سے متعلق ہے لیکن اس کے عموم میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جو کسی رنج و غصہ کی وجہ سے اپنے یا اپنے مال و اولاد کے لئے بد دعا کر بیٹھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عادت اس کے فضل و کرم کی وجہ سے دونوں کے ساتھ یہی ہے کہ ایسی بد دعاؤں کو فوراً نافذ نہیں فرماتے، تاکہ انسان کو سوچنے اور غور کرنے کا موقعہ مل جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْہِمْ اَجَلُھُمْ۝ ٠ ۭ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝ ١١- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] - ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، - اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) اور اگر لوگوں کی برائی کے لی جلدی مچانے کے مطابق جیسا کہ وہ فائدے کے لیے جلدی مچاتے ہیں اللہ تعالیٰ نقصان واقع کردیا کرتا تو سب کے سب ہلاک ہوچکے ہوتے، سو ہم ان لوگوں کو جن کو مرنے کے بعد کا کھٹکا ہی نہیں، ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ یہ اپنے کفر اور گمراہیوں میں اندھوں کی طرح بھٹکتے رہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ للنَّاس الشَّرَّ اسْتِعْجَالَہُمْ بالْخَیْرِ ) ” اور اگر اللہ جلدی کردیتا لوگوں کے لیے شر ‘ جیسے کہ وہ جلدی چاہتے ہیں خیر “- انسان جلد باز ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ اس کی کوششوں کے نتائج جلد از جلد اس کے سامنے آجائیں۔ مگر اللہ تو بڑا حکیم ہے ‘ اس نے ہر کام اور ہر واقعہ کے لیے اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کس کام میں خیر ہے اور کس میں خیر نہیں ہے۔ اگر اللہ انسان کی غلطیوں اور برائیوں کے بدلے اور نتائج بھی فوراً ہی ان کے سامنے رکھ دیا کرتا اور ان کے جرائم کی سزائیں بھی فوراً ہی ان کو دے دیا کرتا تو :- (لَقُضِیَ اِلَیْہِمْ اَجَلُہُمْ ط) ” ان کی اجل پوری ہوچکی ہوتی “- یعنی ان کی مہلت عمر کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی۔- (فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ) ” پھر ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ‘ کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھے ہو کر بڑھتے چلے جائیں۔ “- پھر وہی بات دہرائی گئی ہے۔ اس انداز میں ایک شان استغناء ہے کہ اگر وہ ہمیں ملنے کے امیدوار نہیں تو ہماری نظر التفات کو بھی ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :15 اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے ۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں: ایک یہ کہ اس تقریر سے تھوڑی مدت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز ، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہل مکہ چیخ اٹھے تھے ۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں ۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے ، بت پرستی میں کمی آگئی تھی ، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخرکار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں ۔ مگر جب قحط دور ہو گیا ، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں ، اور دین حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے ۔ ( ملاحظہ ہو النحل ، آیت ۱۱۳ ۔ المومنون ، آیات ۷۵ تا ۷۷ ۔ الدخان ، آیات ۱۰ تا ۱٦ ) ۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان لوگوں کو انکار حق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذاب الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا ۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا ۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سن کر بلائے قحط جلدی سے دور کر دی ۔ اسی طرح وہ تمہارےچیلنج سن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورا بھیج دے ۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے ۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے ۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے ۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا ، بلبلانا اور گڑ گڑانا شروع کر دیا ، اور جہاں راحت کا دور آیا کہ سب کچھ بھول گئے ۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب الہٰی کا مستحق بناتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یہ دراصل کفارِ عرب کے ایک سوال کا جواب ہے۔ جب اُنہیں کفر کے نتیجے میں عذابِ الٰہی سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اﷲ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ یہ لوگ عذاب آنے کے لئے اس طرح جلدی مچارہے ہیں جیسے وہ کوئی اچھی چیز ہو۔ لیکن اگر اﷲ تعالیٰ ان کی خواہش کے مطابق ابھی عذاب نازل کردے توان کو سوچنے سمجھنے کی جو مہلت دی گئی ہے وہ ختم ہوجائے گی، اور پھر ان کا ایمان لانا معتبر بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ اُن کے اِس مطالبے کو اپنی حکمت کی بنا پر پورا نہیں کرہا ہے۔ بلکہ فی الحال ان کو اپنے حال پر چھوڑدیا ہے، تاکہ جو لوگ سرکش ہیں، وہ گمراہی میں بھٹکتے رہیں، اور ان پر حجت تمام ہوجائے، اور جو سمجھ سے کام لینا چاہتے ہوں، انہیں راہ راست پر آنے کا موقع مل جائے۔