Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سناتا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع دی جاتی، بعض نے ادراکم بہ کے معنی کیے ہیں اعلمکم بہ علی لسانی، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بابت کچھ بھی نہ بتلاتا۔ 16۔ 2 اور تم بھی جانتے ہو کہ دعوائے نبوت سے قبل چالیس سال میں نے تمہارے اندر گزارے کیا میں نے کسی استاذ سے کچھ سیکھا ہے ؟ اسی طرح تم میری امانت و صداقت کے بھی قائل رہے ہو۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ میں اللہ پر افترا باندھنا شروع کردوں ؟ مطلب ان دونوں باتوں کا یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے نہ میں نے کسی سے سن یا سیکھ کر اسے بیان کیا ہے اور نہ یوں ہی جھوٹ موٹ اسے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] آپ کی سابقہ زندگی سے قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت :۔ یہ کفار کے مطالبات کا دوسرا جواب ہے یعنی اللہ کی یہی مشیت تھی کہ اس نے مجھے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تاکہ میں تمہیں اس کے پیغام سے آگاہ کر دوں اور اگر وہ نہ چاہتا تو نہ میں تمہیں قرآن سناتا اور نہ ہی تم اس کے مضامین پر آگاہ ہوتے اس میں میرے اپنے اختیار کی کوئی بات نہیں البتہ ایک بات کی طرف تمہاری توجہ ضرور دلاتا ہوں اور وہ ہے میری سابقہ زندگی جو میں نے تمہارے ہی درمیان گزاری ہے اور تم ان باتوں سے خوب واقف ہو کہ :- ١۔ میں خود امی یا ان پڑھ ہوں تمام تر زندگی میں نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا کہ کسی دوسرے سے سیکھ کر ایسا کلام پیش کردیتا جس کی مثل پیش کرنے سے تمہارے سب شعراء اور ادباء عاجز آچکے ہیں۔- ٢۔ نبوت سے پیشتر میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ ایسا کلام کہنا میری جبلّت میں موجود تھا جس میں ترقی کرتے کرتے میں ایسا کلام پیش کرنے کے قابل ہوگیا ہوں جیسا کہ شعراء اور ادباء کی زندگی میں ایسا ملکہ ابتداء سے ہی موجود ہوتا ہے۔- ٣۔ میں نے کبھی نہ کسی سے جھوٹ بولا نہ فریب کیا اور تم لوگ میری صداقت و راست بازی اور دیانت و امانت کے معترف بھی ہو اور کئی دفعہ اپنی زبانی ایسا اعتراف بھی کرچکے ہو۔ پھر ان حقائق کی موجودگی میں تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں قرآن بنا لایا ہوں یا بناسکتا ہوں نیز یہ کہ آج تک میں نے کسی آدمی کے ذمہ کوئی جھوٹی بات منسوب بھی نہیں کی تو پھر اللہ کی نسبت ایسا جھوٹ کیسے منسوب کرتا ہوں کہ یہ قرآن اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ ۔۔ : ” تَلَوْتُ “ ” تَلاَ یَتْلُوْ تِلَاوَۃً “ (ن) سے واحد متکلم ماضی معلوم کا صیغہ ہے۔ ” مَا تَلَوْتُہٗ ‘ میں اسے نہ پڑھتا۔ ” أَدْرٰی “ یہ ” دَرٰی یَدْرِیْ “ (ض) (جاننا، معلوم کرنا) سے باب افعال ” اَدْرٰی یُدْرِیْ “ کا ماضی معلوم واحد غائب کا صیغہ ہے۔ ” وَلَا اَدْرٰکُم “ اور نہ وہ تمہیں اس کی خبر دیتا، یا تمہیں یہ معلوم کرواتا۔ مطلب یہ ہے کہ میں نبوت سے پہلے ایک عمر، یعنی چالیس برس تم میں رہا، اس ساری مدت میں تم سب جانتے ہو کہ نہ مجھے پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) [ العنکبوت : ٤٨ ]” اور اس سے پہلے تو نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے ضرور شک کرتے۔ “ اور دیکھیے سورة شوریٰ (٥٢، ٥٣) اور تم سب کا میرے صدق اور امانت پر بھی اتفاق ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٣٣) تو کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قرآن جس کی سب سے چھوٹی سورت کی مثل پیش کرنے سے اللہ کے سوا پوری کائنات عاجز ہے، وہ میں نے کیسے تصنیف کرلیا اور تم اعتبار کیوں نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ وہ اسے مجھ پر نازل کرتا، نہ میں اسے پڑھ کر تمہیں سناتا اور نہ وہ اس کی خبر تمہیں دیتا۔ اب کوئی اور قرآن میں کہاں سے لاؤں، یا اس میں اپنے پاس سے تبدیلی کیسے کروں ؟ یہ بات میرے امکان اور میرے بس میں ہی نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد قرآن کے من جانب اللہ اور کلام الہٰی ہونے کو ایک واضح دلیل سے سمجھایا، (آیت) فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ، یعنی تم ذرا یہ بھی تو سوچو کہ نزول قرآن سے پہلے میں نے تمہارے سامنے چالیس سال کی طویل مدت گزاری ہے، اس مدت میں تم نے کبھی مجھے شعر و سخن یا کوئی مقالہ لکھتے ہوئے نہیں سنا، اگر میں اپنی طرف سے ایسا کلام کہہ سکتا تو کچھ نہ کچھ اس چالیس سال کے عرصہ میں بھی کہا ہوتا، اس کے علاوہ اس چالیس سالہ طویل زندگی میں تم میرے چال چلن میں صدق و دیانت کا تجربہ کرچکے ہو کہ عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا تو آج چالیس سال کے بعد آخر جھوٹ بولنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، اس سے بدیہی طور پر ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق امین ہیں، قرآن میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اسی کی طرف سے آیا ہوا ہے۔- اہم فائدہ :- قرآن کریم کی اس دلیل نے صرف قرآن کے کلام حق ہونے پر ہی مکمل ثبوت پیش نہیں کیا بلکہ عام معاملات میں کھرے کھو ٹے اور حق و باطل کی پہچان کا ایک اصول بھی بتادیا کہ کسی شخص کو کوئی عہدہ یا منصب سپرد کرنا ہو تو اس کی قابلیت اور صلاحیت کو جانچنے کا بہترین اصول یہ ہے کہ اس کی پچھلی زندگی کا جائزہ لیا جائے، اگر اس میں صدق و امانت داری موجود ہے تو آئندہ بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے، اور اگر پچھلی زندگی میں اس کی دیانت و امانت اور صدق و سچائی کی شہادت موجود نہیں تو آئندہ کے لئے محض اس کے کہنے اور دعوے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرنا کوئی دانشمندی نہیں، آج عہدوں کی تقسیم اور ذمہ داریوں کی سپردگی میں جس قدر غلطیاں اور ان کی وجہ سے عظیم مفاسد پیدا ہو رہے ہیں ان سب کی اصلی وجہ اسی اصول فطرت کو چھوڑ کر رسمی چیزوں کے پیچھے پڑجانا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِہٖ۝ ٠ ۡ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ١٦- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عمر ( زندگی)- والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے یوں فرما دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہوتا کہ میں اس کا رسول نہ ہوں تو نہ میں تمہیں یہ قرآن حکیم پڑھ کر سنا سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس قرآن حکیم کے ملنے کی اطلاع کرتاکیوں کہ آخر اس کلام پاک کے ظاہر کرنے سے پہلے بھی چالیس سال تک تم میں رہ چکا ہوں اور اس وقت اس کے متعلق ایک جملہ بھی نہیں نکلا تو پھر کیا تم انسانوں جیسی اتنی عقل بھی نہیں رکھتے کہ یہ قرآن کریم میری اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (قُلْ لَّوْ شَآء اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلاآ اَدْرٰٹکُمْ بِہٖز) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہیے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر سناتا اور نہ وہ تمہیں اس سے واقف کرتا “- (فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) ” میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے۔ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے “- میں پچھلے چالیس برس سے تمہارے درمیان زندگی بسر کر رہا ہوں۔ تم مجھے اچھی طرح سے جانتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میں شاعر نہیں ہوں ‘ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کاہن یا جادو گر بھی نہیں ہوں ‘ تمہیں یہ بھی علم ہے کہ مجھے ان چیزوں سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی اور میں نے ان چیزوں کو سیکھنے کے لیے کبھی مشق یا ریاضت بھی نہیں کی۔ تم اس حقیقت کو بھی خوب سمجھتے ہو کہ کوئی شخص ایک دن میں کبھی شاعر یا کاہن نہیں بن جاتا۔ ان تمام حقائق کا علم رکھنے کے باوجود بھی تم مجھے ایسے الزامات دیتے ہو ‘ تو کیا تم لوگ تعصب کی بنا پر عقل سے بالکل ہی عاری ہوگئے ہو ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :21 یہ ایک زبردست دلیل ہے ان کے اس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے ۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتا دور کی چیز تھے ، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ان لوگوں کے سامنے کی چیز تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے ۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے ، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا ، جوان ہوئے ، ادھیڑ عمر کو پہنچے ۔ رہنا سہنا ، ملنا چلنا ، لین دین ، شادی بیاہ ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی پہلو ان سے چھپا ہوا نہ تھا ۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی ۔ آپ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا: ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی تعلیم ، تربیت اور صحبت نہیں پائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکا یک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے ۔ اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے ، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے ، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی ان پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے ۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں کی جسے اس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے ، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے ۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے ۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی ۔ کیونکہ مکہ تو درکنار ، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جاتا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتا ہے ۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے؟ دوسری بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی ، وہ یہ تھی کہ جھوٹ ، فریب ، جعل ، مکاری ، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا ۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہوا ہے ۔ برعکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سابقہ پیش آیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اک نہایت سچے ، بے داغ ، اور قابل اعتماد ( امین ) انسان کی حیثیت ہی سے جانتے تھے ۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آچکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ پڑے تھے اور آپ میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہوگا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا ۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو وہاں داخل ہوئے ۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اٹھے ھذا الامین ، رضینا ، ھٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ” یہ بالکل راستباز آدمی ہے ، ہم اس پر راضی ہیں ۔ یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے“ ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلہ قریش سے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ” امین“ ہونے کی شہادت لے چکا تھا ۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کرنے لگا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو ، کچھ عقل سے تو کام لو ، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں ، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں ، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کر سکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ قصص ، حاشیہ نمبر ۱۰۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: یعنی یہ قرآن میرا بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہے۔ اگر وہ نہ چاہتا تو نہ میں تمہارے سامنے پڑھ سکتا تھا، نہ تمہیں اس کا علم ہوسکتا تھا۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرما کر مجھے حکم دیا کہ تمہیں سناؤں، اس لئے سنا رہا ہوں۔ لہٰذا اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 7: یعنی تمہارا یہ مطالبہ کہ میں اس قرآن کو بدل دوں، دراصل میری نبوت کا انکار اور مجھ پر (معاذ اﷲ) جھوٹ کا الزام ہے، حالانکہ میں نے عمر کا بڑا حصہ تمہارے درمیان گذارا ہے، اور میری ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تمہارے سامنے رہی ہے۔ قرآنِ کریم کے نازل ہونے سے پہلے تم سب مجھے سچا اور امانت دار کہتے رہے ہو، اور چالیس سال کے طویل عرصے میں کبھی کسی ایک شخص نے بھی مجھ پر جھوٹ کا الزام نہیں لگایا۔ اب نبوت جیسے معاملے میں مجھ پر یہ الزام لگانا بے عقلی نہیں تو اور کیا ہے؟