کفار کی بدترین حجتیں مکے کے کفار کا بغض دیکھئے قرآن سن کر کہنے لگے ، اسے تو بدل لا ، بلکہ کوئی اور ہی لا ۔ تو جواب دے کہ یہ میرے بس کی بات نہیں میں تو اللہ کا غلام ہوں اس کا رسول ہوں اس کا کہا کہتا ہوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو قیامت کے عذاب کا مجھے ڈر ہے ۔ دیکھو اس بات کی دلیل یہ کیا کم ہے؟ کہ میں ایک بےپڑھا لکھا شخص ہوں تم لوگ استاد کلام ہو لیکن پھر بھی اس کا معارضہ اور مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ میری صداقت و امانت کے تم خود قائل ہو ۔ میری دشمنی کے باوجود تم آج تک مجھ پر انگلی ٹکا نہیں سکتے ۔ اس سے پہلے میں تم میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکا ہوں ۔ کیا پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے؟ شاہ روم ہرقل نے ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی تم نے اسے جھوٹ کی تہمت لگائی ہے؟ تو اسے باوجود دشمن اور کافر ہو نے کے کہنا پڑا کہ نہیں ، یہ ہے آپ کی صداقت جو دشمنوں کی زبان سے بھی بےساختہ ظاہر ہوتی تھی ۔ ہرقل نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کیسے مان لوں کہ لوگوں کے معاملات میں تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لے ۔ حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں شاہ حبش سے فرمایا تھا ہم میں اللہ نے جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ہم اس کی صدقت امانت نسب وغیرہ سب کچھ جانتے ہیں وہ نبوت سے پہلے ہم میں چالیس سال گزار چکے ہیں ۔ سعید بن مسیب سے تنتالیس سال مروی ہیں لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے ۔
15۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت و واحدیت پر دلالت کرتے ہیں۔ 15۔ 2 مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قرآن مجید کی جگہ قرآن ہی دوسرا لائیں یا پھر اس میں ہماری حسب خواہش تبدیلی کردیں۔ 15۔ 3 یعنی مجھ سے دونوں باتیں ممکن نہیں میرے اختیار میں ہی نہیں۔ 15۔ 4 یہ اس کی مذید تاکید ہے۔ میں تو صرف اس بات کا پیرو ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کمی بیشی کا ارتکاب کروں گا تو یوم عظیم کے عذاب سے میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔
[٢٢] کفار مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرلیا تھا اور عقیدہ آخرت کے تو سخت منکر تھے۔ انکار آخرت کا عقیدہ کس دور میں ان کے مذہب میں شامل ہوا تھا یہ معلوم نہیں ہوسکا۔- [٢٣] کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ :۔ گویا مشرکین قریش یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی تصنیف کردہ ہے لہذا اپنے اس زعم باطل کو بنیاد بنا کر انہوں نے دو مطالبات پیش کردیئے ایک یہ کہ اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسرا یہ کہ اگر سارا قرآن دوسری قسم کا نہیں لاسکتے تو کم از کم اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کردو جس کی بنا پر ہم تمہارے ساتھ صلح و سمجھوتہ کی راہ استوار کرسکیں۔ بالفاظ دیگر قرآن میں سے اس حصہ کو حذف کردو جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے اس کے عوض ہماری طرف سے تم لوگوں کو عام اجازت ہوگی کہ جیسے اور جب چاہو اپنے اللہ کو پکارو اور اسی کی عبادت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے یعنی اپنی چھوڑو نہ اور دوسروں کو چھیڑو نہ اور یہی وہ فاسد نظریہ ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا :- باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق باطل نہ کر قبول - [٢٤] اس جملہ میں کفار کے دونوں نظریات کی تردید کردی گئی یعنی یہ قرآن میری اپنی تصنیف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ لہذا یہ بات میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں نیز میں اس وحی کی پیروی کا پابند ہوں جو اس قرآن میں ہے لہذا مجھے ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کرکے اسے اس قابل بناسکوں جس کی بنیاد پر ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی سمجھوتہ یا درمیانی راہ طے پاسکے۔ نیز اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں درآں حالیکہ میں ہی اس قرآن کی اتباع کا داعی ہوں تو پھر مجھ سے بڑھ کر مجرم کون ہوسکتا ہے ؟ میں تو اس تصور اور پھر اس کے نتیجہ میں عذاب اخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ ۔۔ : اس سے پچھلی آیات میں مشرکین کو مخاطب کیا تھا، یہاں ان کا ذکر غائب کے صیغے سے کیا ہے، اسے التفات کہتے ہیں اور یہاں اس سے مقصود مشرکین کی تحقیر اور ان پر ناراضگی کا اظہار ہے کہ یہ بےعقل لوگ خطاب کے قابل ہی نہیں ہیں۔ مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور شرک کی تردید کا ذکر اور آخرت پر یقین کی بات سننا کسی طرح گوارا نہ تھا۔ وہ آیات الٰہی سن کر مطالبہ کرتے کہ اس قرآن کی جگہ کوئی اور قرآن لائیں، جس میں ہمارے لیے یہ تکلیف دہ باتیں نہ ہوں، بلکہ کچھ ہماری پسندیدہ باتیں بھی ہوں، اللہ کے سوا بھی کسی داتا، دستگیر، مشکل کشا، بگڑی بنانے والے کے اختیارات مذکور ہوں، اگر پورا قرآن اور نہیں لاسکتے تو اس میں ہماری خاطر داری کے لیے کچھ اپنے پاس ہی سے تبدیلیاں کردیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان سے کہہ دیں کہ پورا قرآن اور لانا تو بہت دور کی بات ہے میں تو اس میں اپنی طرف سے ایک شوشہ بھی نہیں بدل سکتا۔ میرا کام نہ قرآن تصنیف کرنا ہے، نہ اس میں ترمیم، تبدیلی یا اضافہ کرنا۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے وہ پہنچا دوں، اگر میں ایسی کسی حرکت کا ارتکاب کروں گا تو میں اپنے رب کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو بہت بڑے دن میں واقع ہونے والا ہے۔ - 3 بعض مفسرین نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہمت لگاتے تھے کہ قرآن انھوں نے خود ہی تصنیف کیا ہے، اب اپنی اس بات کا ثبوت حاصل کرنے کے لیے وہ آپ سے کوئی اور قرآن لانے کا یا اس میں اپنے پاس سے تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے کہ اگر آپ یہ مطالبہ مان لیں گے تو ثابت ہوجائے گا کہ یہ قرآن خود انھی کا تصنیف کردہ ہے، پھر ہمیں آپ کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا، کفار کی مراد پہلی تفسیر اور اس تفسیر میں مذکور دونوں باتیں ہی ہوسکتی ہیں اور ہیں۔
پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں چار آیتوں میں منکرین آخرت کے ایک غلط خیال اور بےجا فرمائش کی تردید ہے، ان لوگوں کو نہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل تھی اور نہ وحی و رسالت کے سلسلہ سے واقف تھے، انبیاء علہیم السلام کو بھی عام انسانوں کی طرح جانتے تھے قرآن کریم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ دنیا کو پہنچا اس کے متعلق بھی ان کا یہ خیال تھا کہ یہ خود آپ کا کلام اور آپ کی تصنیف ہے، اسی خیال کی بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کیا کہ قرآن تو ہمارے اعتقادات و نظریات کے خلاف ہے جن بتوں کی ہمارے باپ دادا ہمیشہ تعظیم کرتے آئے اور ان کو حاجت روا مانتے آئے ہیں قرآن ان سب کو باطل اور لغو قرار دیتا ہے، بہت سی چیزیں اور معاملات جو ہم برابر استعمال کرتے آئے ہیں قرآن ان سب کو حرام قرار دیتا ہے، اور پھر قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب دینا ہوگا، یہ سب چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ہم ان کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اس لئے آپ یا تو ایسا کریں کہ اس قرآن کے بجائے کوئی دوسرا قرآن بنادیں جس میں یہ چیزیں نہ ہوں یا کم ازکم اسی میں ترمیم کرکے ان چیزوں کو نکال دیں۔- قرآن کریم نے اول ان کے غلط اعتقاد کو رد کرتے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ نہ میرا کلام ہے، نہ اپنی طرف سے اس کو بدل سکتا ہوں میں تو صرف وحی الہٰی کا تابع ہوں، اگر میں ذرا بھی اس میں اپنے اختیار سے کوئی تبدیلی کروں تو سخت گناہ کا مرتکب ہوں گا اور نافرمانی کرنے والوں پر جو عذاب مقرر ہے میں اس سے ڈرتا ہوں اس لئے ایسا نہیں کرسکتا۔- پھر فرمایا کہ میں جو کچھ کرتا ہوں فرمان خداوندی کے تابع کرتا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ تمہیں یہ کلام نہ سنایا جائے تو نہ میں تمہیں سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے باخبر کرتے اور جب اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ تمہیں یہی کلام سنوایا جائے تو کس کی مجال ہے جو اس میں کوئی کمی بیشی کرسکے۔
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ ٠ ۙ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ ٠ ۭ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ ٠ ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ٠ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٥- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
سورة یونس - قرآن میں تبدیلی ناممکن ہے - قول باری ہے قال الذین لا یربون لقاء نا ائت بقران غیر ھذا او بدلہ ل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی ان اتبع الا ما یوحی الی ۔ وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اس بجائے کوئی اور قرآن لائو یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو۔ میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدیل کرلوں ، میں تو بس اس وحی کی پیرو ہوں جو میرے پاس آتی ہے۔ قول باری لا یرجون لقاء نا کی تفسیر میں دو قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہمارے عقاب سے نہیں ڈرتے اس لیے کہ رجاء کا لفظ خوف کے معنی دے جاتا ہے اور اس کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ما لکم لا ترجون للہ وقار ا۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو ۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ۔ تم اللہ کی عظمت سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ہمارے ثواب کی طمع اور توقع نہیں رکھتے جس طرح کہا جاتا ہے۔ تاب رجاء لثواب اللہ وخوفاعن عقابہ فلاں شخص اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی امید وار اس کے عقاب سے ڈر کی بنا پر تائب ہوگیا کوئی اور قرآن لائے اور قرآن کو تبدیل کرنے کے درمیان یہ فرق ہے کہ پہلی صورت رفع قرآن کی مقتضی نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے قرآن کے ہوتے ہوئے اس کے باقی رہنے کا بھی جواز ہوتا ہے جبکہ دوسری صورت یعنی تبدیل قرآن اسی وقت ہوسکتی ہوے جب رفع قرآن عمل میں آ جائے اور اس کی جگہ دوسرا قرآن یا اس کا کچھ حصہ رکھ دیا جائے ۔ کافروں کا یہ سوال بلا وجہ اور تلبیس کے طور پر تھا اس لیے کہ انہیں قرآن کے خلاف لب کشائی کے لیے اس کے سوا کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی تھی ۔ دوسری طرف اس بات کا کوئی جواز نہیں تھا کہ قرآن کا معاملہ ان کی اپنی پسند اور بلاوجہ فیصلے پر چھوڑ دیا جاتا کیونکہ انہیں بندوں کے مصالح کا کوئی علم نہیں تھا، اگر ان کے کہنے پر کوئی قرآن لانے یا قرآن میں تبدیلی کا جواز ہوتا تو وہ دوسرے قرآن کے بارے میں وہی کچھ کہتے جو پہلے کے بارے میں کہتے تھے اور تیسرے قرآن کی صورت میں اس کے متعلق بھی ان کی دہی رائے ہوتی جو دوسرے کے متعلق تھی اور اس طرح یہ سلسلہ کہیں اختتام پذیر نہ ہوتا اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دلائل بیوقوفوں کے مقاصد اور ان کی خواہشات کے تابع ہو کر رہ جاتے ۔ حالانکہ موجودہ قرآن کے ذریعہ ان پر حجت تام ہوچکی تھشی ۔ جب یہ چیز انہیں مطمئن نہ کرسکی اور وہ اس حجت کی معارضت سے بھی عاجز رہے تو لازمی طور پر دوسرے اور تیسرے قرآن کے بارے میں بھی ان کا یہی طرز عمل ہوتا ہے۔- سنت وحی من اللہ ہے اس سے نسخ آیت قرآنی ممکن ہے - اس آیت سے بعض ایسے حضرات نے استدلال کیا ہے جو سنت کے ذریعے نسخ قرآن کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ قول باری ہے قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی جو لوگ سنت کے ذریعے نسخ قرآن کے جواز کے قائل ہوں گے وہ آیت کی رو سے اس امر کے جواز کے قائل بن جائیں گے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی کرسکتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح ان حضرات نے سوچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس بات کی ہرگز گنجائش نہیں تھی کہ آپ موجودہ قرآن کو اس جیسے کسی اور قرآن سے تبدیل کردیتے یا اس کی جگہ کوئی اور قرآن لے آتے۔ مشرکین نے آپ سے اسی کا سوال کیا تھا۔ انہوں نے آپ سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ قرآن کے الفاظ کی بجائے اس کے احکام کو بدل دیں۔ اس لیے زیر بحث مسئلے میں اس آیت سے استدلال کرنے والا شخص دراصل غفلت کا شکار ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے۔ ہمارے نزدیک قرآن کا نسخ صرف سنت کا ذریعے جائز ہے جسے وحی من اللہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔ ارشاد باری ہے وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحی اور نہ وہ اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں ان کا کلام تو تمام تر وحی ہی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ اس لیے سنت کے ذریعے قرآن کے حکم کا نسخ دراصل اللہ کی وحی کے ذریعے نسخ ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نسخ نہیں ہے۔
(١٥) اور جب ان ٹھٹھہ کرنے والوں یعنی ولید بن مغیرہ اور اس کی جماعت کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں جو بالکل واضح طور پر اوامرو نواہی کو بیان کرنے والی ہیں۔- تو یہ لوگ جن کو مرنے کے بعد کا خوف ہی نہیں اور وہ اسکا مذاق اڑاتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تو اس کے سوا کوئی پورا دوسرا قرآن ہی لے آؤ یا کم سے کم اسی میں کچھ ترمیم کردو، یعنی آیت رحمت کو آیت عذاب اور آیت عذاب کو آیت رحمت سے بدل دیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے یوں فرما دیجیے کہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنے پاس سے اس میں کچھ ترمیم کروں، میں تو وہی کہوں گا اور اسی پر عمل کروں گا جو قرآن حکیم بذریعہ وحی میرے پاس پہنچتا ہے اگر میں اس میں تبدیلی کردوں تو میں ایک بڑے بھاری دن کے عذاب کا خود رکھتا ہوں۔
آیت ١٥ (وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍلا قالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا اءْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ ط) ” اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں ہماری روشن آیات تو کہتے ہیں وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں کہ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی اور قرآن پیش کریں یا اس میں کوئی ترمیم کریں۔ “- یہاں وہی الفاظ پھر دہرائے جا رہے ہیں ‘ یعنی جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ ہمارے کلام کو سنجیدگی سے سنتے ہی نہیں اور کبھی سن بھی لیتے ہیں تو استہزائیہ انداز میں جواب دیتے ہیں کہ یہ قرآن بہت سخت ( ) ہے ‘ اس کے احکام ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ اس میں کچھ مداہنت ( ) کا انداز ہونا چاہیے ‘ کچھ دو اور کچھ لو ( ) کے اصول پر بات ہونی چاہیے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب میں کچھ کمی بیشی کریں تو پھر اس کی کچھ باتیں ہم بھی مان لیں گے۔- (قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآیئ نَفْسِیْج اِنْ اَ تَّبِعُ الاَّ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ج) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کہہ دیجیے کہ میرے لیے ہرگز یہ ممکن نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرلوں ‘ میں تو پیروی کرتا ہوں اسی کی جو میری طرف وحی کیا جا رہا ہے۔ “- میں تو خود وحی الٰہی کا پابند ہوں۔ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی ‘ کوئی ترمیم وتنسیخ کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔- (اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) ” میں ڈرتا ہوں بڑے دن کے عذاب سے ‘ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں۔ “
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :19 ان کا یہ قول اول تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے ، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے ۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اور آخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی ، اگر رہنمائی کے لیے اٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اور اس کی دنیا بنتی نظر آئے ۔ تا ہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم از کم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے ۔ کچھ ہم تمہاری مانیں ، کچھ تم ہماری مان لو ۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے ، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہارے عقیدہ آخرت میں کچھ ہماری ان امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں ، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے ۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں ۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے ، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے ، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے ، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے ، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں ۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں ۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید و آخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :20 یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے ۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی ردوبدل کا مجھے اختیار نہیں ۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے ، قبول کرنا ہو تو اس پورے دین کو جوں کا توں قبول کرو ورنہ پورے کو رد کر دو ۔