42۔ 1 یعنی ظاہری طور پر وہ قرآن سنتے ہیں، لیکن سننے کا مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے انہیں، اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب بہرا غیر عاقل بھی ہو، کیونکہ عقلمند بہرہ پھر بھی اشاروں سے کچھ سمجھ لیتا ہے۔ لیکن ان کی مثال تو غیر عاقل بہرے کی طرح ہے بالکل ہی بےبہرہ رہتا ہے۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ۔۔ : پچھلی آیت (٤٠) کی ایک تفسیر کے مطابق کفار کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو قرآن کے حق ہونے پر یقین رکھتے ہیں، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے اسے جھٹلا رہے ہیں اور ایک وہ جو عقل کے اندھے ہیں، جنھیں قرآن کے حق ہونے کا یقین ہی نہیں۔ دوسری تفسیر کے مطابق کچھ وہ کفار ہیں جو آئندہ ایمان لے آئیں گے، کچھ وہ جن کی قسمت میں یہ نعمت نہیں ہے۔ اس آیت میں کفار کی اس دوسری قسم کا ذکر ہے جن کی قسمت میں ایمان نہیں اور جنھوں نے ہر حال میں کفر پر اڑے رہنا ہے۔ فرمایا کہ ان میں سے کچھ لوگ آپ کی بات اور قرآن کی قراءت پر کان لگاتے ہیں مگر فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ حق سننے سے ان کے کان بہرے ہیں، پھر بہرے بھی اگر عقل رکھتے ہیں تو بات سمجھ جاتے ہیں مگر جو بہرے بھی ہوں اور عقل سے بھی خالی ہوں، آپ اپنی بات ان تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ ” الصُّمَّ “ جمع ہے ” اَصَمُّ “ کی، یعنی بہرے۔ اسی طرح کچھ لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں، اگر کوئی عبداللہ بن سلام (رض) جیسا سعادت مند ہو تو چہرہ دیکھ کر ہی پہچان لیتا ہے کہ یہ جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ [ ترمذی : ٢٤٨٥۔ ابن ماجہ : ١٣٣٤ ] مگر جو جان بوجھ کر اندھا بن جائے اور دل کا بھی اندھا ہو، کیا آپ اسے راہ راست پر لاسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ ” اَفَاَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ “ میں ” اَلْعُمْیُ “ ” اَعْمٰی “ کی جمع ہے، مراد آنکھوں کا اندھا ہونا اور ” لَایُبْصِرُوْن “ میں مراد بصارت نہیں بلکہ بصیرت کا نہ ہونا ہے، تاکہ تکرار لازم نہ آئے۔ ایسے لوگوں کو اندھے و بہرے کے علاوہ مردہ بھی کہا گیا ہے، فرمایا : (اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ) [ النمل : ٨٠ ] ” بیشک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ “ مقصد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ایسے لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ پریشان خاطر یا دل برداشتہ نہ ہوں۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ٠ ۭ اَفَاَنْتَ تُسْمِـــعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ ٤٢- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- اسمامع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٤٢) اور ان یہود میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ظاہرا آپ کے کلام اور گفتگو سنتے ہیں یا یہ کہ ان مشرکین عرب میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ظاہرا آپ کے کلام اور گفتگو کو سنتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں جو سمجھنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے۔
(اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوْا لاَ یَعْقِلُوْنَ )- یہ لوگ تو پہلے سے ہی نہ سننے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ‘ اس لیے ان کے کان حق کی طرف سے بہرے ہوچکے ہیں۔ ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو سننا صرف دکھاوے کا سننا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو بتاسکیں کہ ہاں جی ہم تو محمد کی محفل میں بھی جاتے ہیں ‘ ساری باتیں بھی سنتے ہیں مگر ان میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جسے ماناجائے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :50 ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں ۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہوگی تو اسے مان لیا جائے گا ۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں ، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات ، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو ، مان کر نہ دیں گے ، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کر تے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں ۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں ۔