43۔ 1 اسی طرح بعض لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن مقصد ان کا بھی چونکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے انہیں بھی اس طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک اندھے کو نہیں ہوتا۔ بالخصوص وہ اندھا جو بصارت کے ساتھ بصیرت سے بھی محروم ہو۔ لیکن ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اندھا جو دل کی بصیرت سے بھی محروم ہو مقصد ان باتوں سے نبی کی تسلی ہے۔ جس طرح ایک حکیم اور طبیب کو جب معلوم ہوجائے کہ مریض علاج کروانے میں سنجیدہ نہیں اور میری ہدایت اور علاج کی پرواہ نہیں کرتا، تو وہ اسے نظر انداز کردیتا ہے اور وہ اس پر اپنا وقت صرف کرنا پسند نہیں کرتا۔
[٥٨] دل بینا اور ظاہری بینائی :۔ یعنی جو لوگ دل کے بہرے ہیں وہ اگر آپ کی باتیں سن بھی لیں تو ان کے دل پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ بےعقل بھی ہوں کہ اگر وہ سن نہیں سکتے تو کم از کم اشاروں سے ہی کچھ سمجھ جائیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہیں جو دل کے اندھے ہیں ان کا دل آپ کی باتوں کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ پھر اگر وہ آپ کی باتیں سننے کے لیے آپ کی طرف دیکھ بھی رہے ہوں تو اس دیکھنے کا انہیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے بالخصوص اس صورت میں کہ وہ بےبصیرت بھی ہوں کہ اگر کوئی بات ان کے کانوں میں پڑ بھی جائے تو اسے سمجھ ہی نہ سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ظاہری طور پر سننے اور دیکھنے سے آپ یہ توقع مت رکھیں کہ آپ کی باتوں کا ان پر کچھ اثر ہوگا اور وہ ایمان لے آئیں گے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں ایسے لوگوں کو چوپایوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کا سننا اور دیکھنا بالکل چوپایوں کی طرح ہے وہ بھی عقل و فہم سے کورے یہ بھی کورے۔ اور بدتر اس لحاظ سے کہ چوپایوں میں تو عقل و فہم کا ملکہ پیدا ہی نہیں کیا گیا، جبکہ ان میں ایسا ملکہ موجود ہونے کے باوجود اس سے کام نہیں لے رہے۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ ٠ ۭ اَفَاَنْتَ تَہْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ ٤٣- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
(٤٣) اور ان یہود اور مشرکین عرب میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ظاہرا آپ کو دیکھ رہے ہیں تو کیا آپ اندھوں کو ہدایت کا راستہ دکھلا رہے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہیں اور حق وہدایت کو دیکھنے کا وہ ارادہ بھی نہیں رکھتے۔
(اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لاَ یُبْصِرُوْنَ )- چنانچہ جب ان لوگوں کی نیت ہی ہدایت حاصل کرنے کی نہیں ہے ‘ جب ان کے دل ہی اندھے ہوچکے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آنا اور آپ کی صحبت میں بیٹھنا ‘ ان کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :51 یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے ۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں ، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے ۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے ۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا ۔ ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے ۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے ۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ ان کو ان کی اس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں ۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے ۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی ان خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو ۔ اس حالت میں عین اس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی ان سنی کیے جا رہے ہوں ، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو ، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ بات کہنے سے اس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے ۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے ۔
23: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت پر جو غیر معمولی شفقت تھی اس کی وجہ سے آپ اکثر اس بات سے غمگین رہتے تھے کہ یہ کافر لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، یہ آیت آپ کو تسلی دے رہی ہے کہ آپ اسی شخص کو راہ راستہ پر لا سکتے ہیں جو دل میں حق کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن جن لوگوں میں اس طلب کا فقدان ہے، ان کی مثال تو بہروں اور اندھوں کی سی ہے کہ آپ کتنا ہی چاہیں، نہ انہیں کوئی بات سنا سکتے ہیں، نہ کوئی راستہ دکھا سکتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری آپ پر نہیں، خود انہی پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں کہ دوزخ کا راستہ اپنا رکھا ہے۔