جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے بیان ہو رہا ہے کہ وہ وقت بھی آرہا ہے جب قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے اٹھا کر میدان قیامت میں جمع کرے گا ۔ اس وقت انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ گویا گھڑی بھر دن ہم رہے تھے ۔ صبح یا شام ہی تک ہمارا رہنا ہوا تھا ۔ کہیں گے کہ دس روز دنیا میں گزارے ہوں گے ۔ تو بڑے بڑے حافظے والے کہیں گے کہاں کے دس دن تم تو ایک ہی دن رہے ۔ قیامت کے دن یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی رہے وغیرہ ۔ ایسی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی ۔ سوال ہوگا کہ کتنے سال دنیا میں گزارے ، جواب دیں گے کہ ایک دن بلکہ اسے بھی کم شمار والوں سے پوچھ لو ۔ جواب ملے گا کہ واقعہ میں دار دنیا دار آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور فی الحقیقت وہاں کی زندگی بہت ہی تھوڑی تھی لیکن تم نے اس کا خیال زندگی بھر نہ کیا ۔ اس وقت بھی ہر ایک دوسرے کو پہچانتا ہوگا جیسے دنیا میں تھے ویسے ہی وہاں بھی ہوں گے رشتے کنبے کو ، باپ بیٹوں الگ الگ پہچان لیں گے ۔ لیکن ہر ایک نفسا نفسی میں مشغول ہوگا ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے کہ صور کے پھونکتے ہی حسب و نسب فنا ہو جائیں گے ۔ کوئی دوست اپنے کسی دوست سے کچھ سوال تک نہ کرے گا ۔ جو اس دن کو جھٹلاتے رہے وہ آج گھاٹے میں رہیں گے ان کے لیے ہلاکت ہوگی انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا ۔ اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوگا کہ ایک دوسرے سے دور ہے دوستوں کے درمیان تفریق ہے ، حسرت و ندامت کا دن ہے ۔
45۔ 1 یعنی محشر کی سختیاں دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری لذتیں بھول جائیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے معلوم ہوگی گویا وہ دنیا میں ایک آدھ گھڑی ہی رہے ہیں۔ لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحھا۔ 45۔ 2 محشر میں مختلف حالتیں ہونگی، جنہیں قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی ہوگا، جب ایک دوسرے کو پہچانیں گے، بعض مواقع ایسے آئیں گے کہ آپس میں ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام دھریں گے، اور بعض موقعوں پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ آپس میں ایک دوسرے کی رشتہ داریوں کا پتہ ہوگا اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔
[٦٠] قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہے اس کے مقابلہ میں انہیں اپنی دنیا کی زندگی یوں محسوس ہوگی کہ بس چند گھنٹے ہی دنیا میں گزارے تھے اس دن وہ ایک دوسرے کو ایسے ہی پہچانتے ہوں گے جیسے دنیا میں پہچانتے تھے مگر کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ہر ایک کو بس اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی بلکہ ایک دوسرے سے اپنے کسی دکھ سکھ اور ہمدردی کی بات چیت کے بھی روادار نہ ہوں گے اور اگر اپنا کوئی رشتہ دار نظر آئے گا تو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کریں گے بعض علماء نے (يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ 45) 10 ۔ یونس :45) کو دنیوی زندگی سے متعلق کرکے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں بس چند گھنٹے ایک دوسرے کی جان پہچان کے لیے ٹھہرے تھے اور حقیقی زندگی کا آغاز تو اب ہو رہا ہے۔- [٦١] اس لیے کہ نتیجہ ان کی توقع کے خلاف نکلا اور اس دن کے لیے کچھ تیاری نہ کی تھی اور ساری زندگی دنیا کی دلچسپیوں میں گزار دی تھی ان لوگوں کو اس دن واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں غلط راستے پر پڑے ہوئے تھے اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجہ نے انہیں راہ راست پر آنے ہی نہ دیا۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا ۔۔ : سَاعَۃً ایک گھڑی، عرب نہایت کم مدت کے لیے یہ لفظ بولتے ہیں۔ قیامت بھی چونکہ ایک لمحے میں قائم ہوجائے گی، اس لیے اس پر بھی ” اَلسَّاعَۃُ “ کا لفظ بولا جاتا ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ ان حق سے اندھے اور بہرے لوگوں کو حساب کے لیے اکٹھا کرے گا تو انھیں دنیا میں گزری ہوئی راحت و لذت والی لمبی مدت اور طویل ماہ و سال ایک گھڑی محسوس ہوں گے اور انھیں وہ سب لذتیں بھول جائیں گی، جیسا کہ سورة احقاف (٣٥) اور سورة روم (٥٥) میں ہے کہ مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک ساعت (لمحے) کے سوا دنیا میں نہیں رہے۔ - سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ : دن کی گھڑی چونکہ رات کی بہ نسبت زیادہ یاد رہتی ہے، اس لیے ” سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ “ فرمایا۔ - يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا میں ان کی وہ گھڑی بھی ایک دوسرے کی جان پہچان کرتے گزر گئی اور دوسری یہ کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو گمراہ کرنے پر ملامت اور گلے شکوے کریں گے۔- قرآن مجید کی بعض آیات میں ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم تو محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ دنیا میں رہے ہیں، جیسا کہ سورة مومنون (١١٢، ١١٣) میں ہے، یا یہ کہ ہم ایک سہ پہر یا دو پہر وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورة نازعات (٤٦) یا یہ کہ ہم تو صرف دس راتیں وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٣) اب ایک گھڑی رہنے اور ان آیات میں کیا تطبیق ہوگی، جواب یہ ہے کہ مجرموں کے درجات اور احوال مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے اندازے بھی مختلف ہوں گے۔ اسی طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کی انتہائی لمبی مدت کا دن ہے (دیکھیے معارج : ٤) جس میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، اس میں ہونے والی ان کی باہمی بحثوں کا نتیجہ وہ کبھی کچھ نکالیں گے اور کبھی کچھ نکالیں گے۔ یہ بھی ان کی بدحالی کا ایک اظہار ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ) [ سبا : ٣١] ” اور کاش تو دیکھے جب یہ ظالم اپنے رب کے پاس کھڑے کیے ہوئے ہوں گے، ان میں سے ایک دوسرے کی بات رد کر رہا ہوگا۔ “ - قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا ۔۔ : اللہ کی ملاقات جھٹلانے کا مطلب قیامت اور حساب کتاب کا انکار ہے اور خسارا یہ کہ دنیا میں بھی حیوانوں کی سی بےاصولی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے۔
خلاصہ تفسیر - اور ان کو وہ دن یاد دلایئے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو اس کیفیت سے جمع کرے گا کہ ( وہ سمجھیں گے کہ) یا وہ ( دنیا یا برزخ میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے ( چونکہ وہ دن مدید بھی ہوگا اور شدید بھی ہوگا، اس لئے دنیا اور برزخ کی مدت اور تکلیف سب بھول کر ایسا سمجھیں گے کہ وہ زمانہ بہت جلد گزر گیا) اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے ( بھی لیکن ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکیں گے، اس اور رنج و صدمہ ہوگا، کیونکہ شناسا لوگوں سے توقع نفع کی ہوا کرتی ہے) واقعی ( اس وقت سخت) خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ( دنیا میں بھی) ہدایت پانے والے نہ تھے ( اس لئے آج خسارہ میں پڑے، پس ان کے عذاب کا اصلی وقت تو یہ دن ہے کہ) جس ( عذاب) کا ان سے ہم وعدہ کر رہے ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا ( عذاب) اگر ہم آپ کو دکھلا دیں (یعنی آپ کی حیات میں ان پر اس کا نزول ہوجاوے) یا ( اس کے نزول کے قبل ہی) ہم آپ کو وفات دے دیں ( پھر خواہ بعد میں نزول ہو یا نہ ہو) سو ( احتمال ہیں کوئی شق ضروری نہیں لیکن ہر حال اور ہر احتمال پر) ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے پھر ( سب کو معلوم ہے کہ) اللہ ان کے سب افعال کی اطلاع رکھتا ہی ہے ( پس ان پر سزا دے گا، عرض یہ کہ دنیا میں خواہ سزا ہو یا نہ ہو مگر اصلی موقعہ پر ضرور ہوگی) اور ( یہ سزا جو ان کے لئے تجویز ہوئی ہے، تو اتمام حجت و ازالہ عذر کے بعد ہوئی ہے، اور ان کی کیا تخصیص ہے بلکہ ہمیشہ سے ہماری عادت رہی ہے کہ جن امتوں کو ہم نے مکلف بنانا چاہا ہے ان میں سے) ہر ہر امت کے لئے ایک حکم پہنچانے والا ( ہوا) ہے سو جب ان کا وہ رسول ( ان کے پاس) آچکتا ہے ( اور احکام پہنچا دیتا ہے اس کے بعد) ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ( وہ فیصلہ یہی ہے کہ نہ ماننے والوں کو عذاب ابدی میں مبتلا کیا جاتا ہے) اور ان پر ( ذرا) ظلم نہیں کیا جاتا ( کیونکہ اتمام حجت کے بعد سزا دینا خلاف انصاف نہیں ہے) اور یہ لوگ ( عذاب کی وعیدیں سن کر بقصد تکذیب یوں) کہتے ہیں کہ ( اے نبی اور اے مسلمانوں) یہ وعدہ ( عذاب کا) کب ( واقع) ہوگا، اگر تم سچے ہو ( تو واقع کیوں نہیں کرا دیتے) آپ سب کی طرف سے جواب میں) فرما دیجئے کہ میں ( خود) اپنی ذات خاص کے لئے تو کسی نفع ( کے حاصل کرنے) کا اور کسی ضرر ( کے دفع کرنے) کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا ( اختیار) خدا کو منظور ہو ( اتنا اختیار البتہ حاصل ہے، پس جب خاص اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں تو دوسرے کو نفع و نقصان کا تو کیونکر مالک ہوں گا، پس عذاب واقع کرنا میرے اختیار میں نہیں، رہا یہ کہ کب واقع ہوگا، سو بات یہ ہے کہ) ہر امت کے ( عذاب کے) لئے ( اللہ کے نزدیک) ایک معین وقت ہے ( خواہ دنیا میں یا آخرت میں سو) جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ( اس وقت) ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں ( بلکہ فوراً عذاب واقع ہوجاتا ہے اسی طرح تمہارے عذاب کا بھی وقت معین ہے، اس وقت اس کا وقوع ہوجاوے گا اور وہ جو فرمائش کرتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے جلدی ہوجاوے جیسا کہ آیت (آیت) مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اور رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا، میں ان کی اس جلد بازی کا ذکر ہے، تو) آپ ( اس کے متعلق ان سے) فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ اگر تم پر خدا کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو ( آپڑے) تو ( یہ تو بتلاؤ کہ) عذاب میں کون چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی ما نگ رہے ہیں ( یعنی عذاب تو سخت چیز اور پناہ مانگنے کی چیز ہے نہ جلدی مانگنے کی چیز ہے نہ جلدی مانگنے کی اور چونکہ جلد بازی سے مقصود ان کا تکذیب ہے اس لئے فرماتے ہیں کہ) کیا ( اب تو تکذیب کر رہے ہو جو کہ وقت ہے تصدیق کے نافع ہونے کا) پھر جب وہ ( اصلی موعود) آہی پڑے گا ( اس وقت) اس کی تصدیق کرو گے ( جس وقت کہ تصدیق نافع نہ ہوگی اور اس وقت کہا جائے گا کہ) ہاں اب مانا حالانکہ پہلے سے) تو ( ہمیشہ کا عذاب چکھو، تم کو تمہارے ہی کئے کا بدلہ ملا ہے اور وہ ( غایت تعجب و انکار سے) آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا عذاب واقعی امر ہے ؟ آپ فرما دیجئے ( کہ ہاں قسم میرے رب کی کہ وہ واقعی امر ہے، اور تم کسی طرح خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ( کہ وہ عذاب دینا چاہے اور تم بچ جاؤ اور ( اس عذاب کی یہ شدت ہوگی کہ) اگر ہر ہر مشرک شخص کے پاس اتنا ( مال) ہو کہ ساری زمین میں بھر جاوے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچانا چاہیں گے ( اگرچہ نہ خزانہ ہوگا اور نہ لیا جاوے گا لیکن شدت اس درجہ کی ہوگی کہ مال ہونے کی تقدیر پر ( اگرچہ نہ خزانہ ہوگا اور نہ لیا جاوے گا لیکن شدت اس درجہ کی ہوگی کہ مال ہونے کی تقدیر پر سب دینے پر راضی ہوجاویں گے) اور جب عذاب دیکھیں گے تو ( مزید فضیحت کے خوف سے پشیمانی کو ( اپنے دل ہی دل میں) پوشیدہ رکھیں گے ( یعنی اس کے آثار قولیہ و فعلیہ کو ظاہر نہ ہونے دیں گے، تاکہ دیکھنے والے زیادہ نہ ہنسیں لیکن آخر میں یہ ضبط و تحمل بھی اس کی شدت کے سامنے نہ چلے گا) اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا اور ان پر ( ذرا) ظلم نہ ہوگا، یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کی ملک ہیں ( ان میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور ان میں یہ مجرم بھی داخل ہیں ان کا فیصلہ بھی بطریق مذکور کرسکتا ہے) یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ( پس قیامت ضرور آوے گی) لیکن بہت سے آدمی یقین ہی نہیں کرتے، وہی جانا ڈالتا ہے، وہی جان نکالتا ہے، پس دوبارہ پیدا کرنا اس کو کیا مشکل ہے) اور تم سب اسی کے پاس لائے جاؤ گے ( اور حساب و کتاب اور پھر اس پر ثواب و عذاب ہوگا ) ۔- معارف و مسائل - (آیت) يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ : یعنی جب قیامت میں مردے قبروں سے اٹھائے جاویں گے تو ایک دوسرے کو پہچانیں گے جیسے کوئی طویل مدت ملے ہوئے نہ گزری ہو۔- امام بغوی نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ پہچان شروع میں ہوگی بعد میں قیامت کے ہولناک واقعات سامنے آجائیں گے تو یہ پہچان منقطع ہوجائے گی اور بعض روایات میں ہے کہ پہچان تو پھر رہے گی مگر ہیبت کے مارے بات نہ کرسکیں گے ( مظہری )
وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ ٠ ۭ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ ٤٥- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- تعارف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ،- وتَعَارَفُوا : عَرَفَ بعضهم بعضا . قال : لِتَعارَفُوا[ الحجرات 13] ،- ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ، قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے - تعارفوا انہوں نے باہم ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ قرآن میں ہے : لِتَعارَفُوا[ الحجرات 13] تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
(٤٥) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان یہود و نصاری اور مشرکین کو اس کیفیت سے جمع کرے گا کہ وہ قبروں میں سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور بعض مقامات میں آپس میں ایک دوسرے کو پہچان بھی رہے ہوں گے، گھاٹے میں وہ لوگ رہے جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا کہ دنیا و آخرت سب ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور یہ کفر وضلالت سے ہدایت پانے والے نہ تھے۔
آیت ٤٥ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا الاَّ سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ ط) - انہیں دنیا اور عالم برزخ میں گزرا ہوا وقت ایسے محسوس ہوگا جیسے کہ وہ ایک دن کا کچھ حصہ تھا۔- (قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ )- آگے عذاب کی اس دھمکی کا ذکر آ رہا ہے جس کے بارے میں آیت ٣٩ میں فرمایا گیا تھا : (وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط) کہ اس کی تاویل ابھی ان کے پاس نہیں آئی۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :53 یعنی جب ایک طرف آخرت کی بے پایاں زندگی ان کے سامنے ہو گی اور دوسری طرف یہ پلٹ کر اپنی دنیا کی زندگی پر نگاہ ڈالیں گے تو انہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنا یہ ماضی نہایت حقیر محسوس ہوگا ۔ اس وقت ان کو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی میں تھوڑی سی لذتوں اور منفعتوں کی خاطر اپنے اس ابدی مستقبل کو خراب کر کے کتنی بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :54 یعنی اس بات کو کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔
24: یعنی دنیوی زندگی انہیں اتنی قریب معلوم ہوگی کہ انہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں وہ دشواری پیش نہیں آئے گی جو کسی کو عرصہ دراز کے بعد دیکھنے کی وجہ سے عموماً پیش آیا کرتی ہے۔