Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اولیاء اللہ کا تعارف اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو ، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو ، جتنا تقویٰ ہوگا ، اتنی ہی ولایت ہوگی ۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بےخوف ہیں قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے ، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے ۔ دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے ۔ بزار کی مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ وہ حدیث مرسلا بھی مروی ہے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں ۔ صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ سب کو ڈر خوف ہوگا لیکن یہ بالکل بےخوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بےغم ہوں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت منقطع سند سے ابو داؤد میں بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ دور دراز کے رہنے والے خاندانوں اور برادریوں سے الگ شدہ لوگ جن میں کوئی رشتہ کنبہ قوم برادری نہیں وہ محض توحید و سنت کی وجہ سے اللہ کی رضامندی کے حاصل کرنے کے لیے آپس میں ایک ہوگئے ہوں گے اور آپس میں میل ملاپ ، محبت ، مودت ، دوستی اور بھائی چارہ رکھتے ہونگے ۔ دین میں سب ایک ہوں گے ۔ ان کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نورانی منبر بچھا دے گا جن پر وہ عزت سے تشریف رکھیں گے ۔ لوگ پریشان ہوں گے لیکن یہ باطمینان ہوں گے ۔ یہ ہیں وہ اللہ کے اولیا جن پر کوئی خوف غم نہیں ۔ خوابوں کے بارے میں مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارتوں کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیک خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دکھائے جائیں ۔ حضرت ابو الدرداء سے جب اس کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے آج مجھ سے وہ باپ پوچھی جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی سوائے اس شخص کے جس نے یہی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کے دینے سے پہلے نہیں فرمایا تھا کہ تجھ سے پہلے میرے کسی امتی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا ۔ خود انہی صحابی سے جب سائل نے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے بھی یہ فرما کر پھر تفسیر مرفوع حدیث سے بیان فرمائی ۔ اور روایت میں ہے حضرت عبادہ نے سوال کیا کہ آخرت کی بشارت تو جنت ہے دنیا کی بشارت کیا ہے ۔ فرمایا نیک خواب جسے بندہ دیکھے یا اس کے لیے اوروں کو دکھائے جائیں ۔ یہ نبوت کا چوالیسواں یا سترواں جز ہے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا کہ یارسول اللہ انسان نیکیاں کرتا ہے پھر لوگوں میں اس کی تعریف ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی دنیوی بشارت ہے ۔ ( مسلم ) فرماتے ہیں کہ دنیا کی بشارت نیک خواب ہیں جن سے مومن کو خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔ یہ نبوت کا انچاسواں حصہ ہے اس کے دیکھنے والے کو اسے بیان کرنا چاہیے اور جو اس کے سوا دیکھے وہ شیطانی خواب ہیں تاکہ اسے غم زدہ کر دے ۔ چاہیے کہ ایسے موقعہ پر تین دفعہ بائیں جانب تھتکار دے ۔ اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے اس خواب کو بیان نہ کرے ۔ ( مسند احمد ) اور روایت میں ہے کہ نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ اور حدیث میں ہے دنیوی بشارت نیک خواب ۔ اور اُخروی بشارت جنت ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبوت جاتی رہی خوشخبریاں رہ گئیں ۔ بشریٰ کی یہی تفسیر ابن مسعود ، ابو ہریرہ ، ابن عباس مجاہد ، عروہ ، ابن زبیر ، یحییٰ بن ابی کثیر ، ابراہیم نخعی ، عطا بن ابی رباح ، وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے وہ خوشخبری ہے جو مومن کو اس کی موت کے وقت فرشتے دیتے ہیں جس کا ذکر ( آیت ان الذین قالوا ربنا اللہ الخ ) میں ہے کہ سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو ، تم غم نہ کرو ، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں ۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے ، جو مانگو گے ملے گا ۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت ترو تازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل ۔ تیرے اس پالنہار کی طرف جو تجھ سے کبھی خفا نہیں ہو نے کا ۔ پس اس کی روح اس بشارت کو سن کر اس کے منہ سے اتنی آسانی اور شوق سے نکلتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا کوئی قطرہ چھو جائے ۔ اور آخرت کی بشارت کا ذکر ( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ١٠٣؁ ) 21- الأنبياء:103 ) میں ہے یعنی انہیں اس دن کی زبردست پریشانی بالکل ہی نہ گھبرائے گی ادھر ادھر سے ان کے پاس فرشتے آئے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا ۔ ایک آیت میں ہے ( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 12۝ۚ ) 57- الحديد:12 ) جس دن تو مومن مردوں عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف چل رہا ہوگا ۔ لو تم خوشخبری سن لو کہ آج تمہیں وہ جنتیں ملیں گی ۔ جن کے نیچے نہیرں لہریں لے رہی ہیں ۔ جہاں کی رہائش ہمیشہ کی ہوگی ۔ یہی زبردست کامیابی ہے ۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا ۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ، اس نے جو فرما دیا سچ ہے ، ثابت ہے ، اٹل ہے یقینی اور ضروری ہے ۔ یہ ہے پوری مقصد آوری ، یہ ہے زبردست کامیابی ، یہ ہے مراد کا ملنا اور یہ ہے گود کا بھرنا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 نافرمانوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرماں برداروں کا ذکر فرما رہا ہے اور وہ ہیں اولیاء اللہ۔ اولیاء ولی کی جمع ہے، جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں۔ اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے، وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا۔ اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ اور ایمان وتقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین ذریعہ ہے، اس لغت سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہار کرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط۔ یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہوجائے تو اللہ کی مشیت ہے، اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے۔ لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو، اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم (حزن) کا ماضی سے، مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی خدا خوفی کے ساتھ گزاری ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا، جس طرح دوسروں کو ہوگا۔ بلکہ وہ اپنے ایمان وتقوی کی وجہ سے اللہ کی رحمت وفضل خاص کے امیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں وہ جو کچھ چھوڑ گئے ہوں گے یا دنیا کی لذتیں انھیں حاصل نہ ہوسکی ہوں گی، ان پر انھیں کوئی حزن وملال نہیں ہوگا۔ ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انھیں نہ ملیں، اس پر وہ غم وحزن کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضا و تقدیر ہے۔ جس سے ان ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دل قضائے الہی پر مسرور و مطمئن رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٧] اولیاء اللہ کی پہچان :۔ اولیاء اللہ کی تعریف اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اللہ سے ڈرتے رہیں اور متقین کی صفات جو سورة بقرہ کی ابتداء میں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اس کتاب یعنی قرآن اور سابقہ کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ گویا جن ایمان لانے والوں میں مذکورہ صفات پائی جائیں وہ سب اولیاء اللہ ہیں پھر چونکہ ایمان اور اتقاء کے بھی کئی درجے ہیں اس لحاظ سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہوئے اور عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان وتقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پچاس سو روپیہ بھی مال و دولت ہے لیکن مالدار اسی شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ہزاروں اور لاکھوں روپے اپنی ضروریات زندگی سے زائد موجود ہوں اسی لحاظ سے بعض صحابہ سے ولی کی یہ صفت منقول ہے کہ ولی وہ مسلمان ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے اور مخلوق خدا سے انھیں بےلوث محبت ہو۔ - موجودہ دور میں اولیاء اللہ کا مفہوم :۔ قرن اول میں بھی کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جن کی طبائع زہد وتقویٰ اور عبادت کی طرف زیادہ مائل ہوگئیں پہلی صدی اور دوسری صدی ہجری میں انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفہ کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا اور اولیاء اللہ کا مفہوم یکسر بدل گیا اور یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیا جو ریاضتیں اور چلہ کشیاں کریں اور باقاعدہ کسی شیخ یا ولی کی بیعت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور ان سے کرامات کا ظہور ہو۔ پھر اس طبقہ میں وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول جیسے غیر اسلامی عقائد داخل ہوگئے اور ولی کی ولایت کا معیار یہ قرار پایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجہ کا ولی ہے پھر ان لوگوں میں بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمیں براہ راست اللہ سے خبریں ملتی ہیں اور ہمیں رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض نے شریعت کو ہڈیاں اور اپنے دین طریقت کو اصل مغز قرار دیا اور ولایت کے ایک باقاعدہ باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی۔ ان میں پیری مریدی لازمی قرار دی گئی اور یہ لوگ اپنے اس مخصوص طبقہ کو ہی برتر اور اولیاء اللہ قرار دینے لگے اور ان اولیاء اللہ کے علم غیب، تصرف اور ہیبت سے لوگوں کو ڈرایا جانے لگا اور ایسے نظریات مسلمانوں میں خوب شائع و ذائع کیے گئے۔ شرعی نقطہ نظر سے ایسے نظریات بالکل بےبنیاد ہیں۔- [٧٨] اولیاء اللہ کے لئے بشارت :۔ خوف کا لفظ کسی پیش آنے والے خطرہ کے لیے اور غم کا لفظ ماضی میں کسی چھن جانے والی نعمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس بشارت کا اطلاق دونوں جہانوں میں ہوتا ہے یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان اولیاء اللہ کا اپنے پروردگار پر اس قدر بھروسہ ہوتا ہے کہ انھیں نہ تو کسی چیز کا خوف خوفزدہ کرسکتا ہے اور نہ ہی انھیں ایسا غم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی اللہ سے غفلت اور بیکار کاموں میں گذاری ہے یہی صورت آخرت میں بھی ہوگی انھیں نہ اس دن کی ہیبت، ہیبت زدہ کرے گی نہ پیاس ستائے گی اور نہ ہی اور کسی قسم کے دکھ یا عذاب کا خطرہ ہوگا اور نہ دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کے متعلق کچھ حسرت اور ندامت ہوگی نہ کسی مطلوب چیز کے چھن جانے کا افسوس ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ ۔۔ : ” اَلَا “ حرف تنبیہ کہلاتا ہے، یعنی خوب سن لو، آگاہ ہوجاؤ، بہت اہم بات ہونے والی ہے۔ حافظ ابن حزم اندلسی (رض) نے ایک رسالہ لکھا ہے ” اَلْاَخْلَاقُ وَ السِّیَرُ “ جس میں اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان فرمایا ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں : ” میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا میں جو شخص کوئی بھی محنت کرتا ہے اس کے پیش نظر خوشی کا حصول اور خوف (و غم) سے بچنا ہوتا ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوشی کے حصول اور خوف و غم سے بچنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی کا حصول۔ چناچہ فرمایا : ” سن لو بیشک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ یعنی آخرت میں یا دنیا اور آخرت دونوں میں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ خوف (ڈر) آنے والی چیز کا ہوتا ہے اور غم گزری ہوئی مصیبت کا۔ اللہ تعالیٰ کے اولیاء (دوستوں) کو مستقبل کا کوئی خوف نہیں، کیونکہ آخرت میں وہ ہر خوف سے آزاد ہوں گے۔ وہاں انھیں نہ کسی مصیبت کے آنے یا نعمت کے چھن جانے کا خوف ہوگا، نہ کسی گزشتہ چیز کا غم۔ اس کے برعکس چونکہ اللہ کے دشمنوں کا نہ آخرت پر ایمان ہے نہ اس کی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ، فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ ہود : ١٦ ] ” یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس دنیا میں کیا اور بےکار ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔ “ اس لیے ان کا ایک ایک لمحہ خوف میں گزرتا ہے، جو نعمت انھیں حاصل ہے اس کے چھن جانے کا خوف اور جو حاصل نہیں اس کے حاصل نہ ہوسکنے کا غم، پھر موت کا خوف، پھر بعد میں کیا ہوگا، کچھ خبر ہی نہیں، غرض خوف ہی خوف۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال و اولاد کو بھی حیات دنیا میں انھیں عذاب دینے کا ذریعہ بتایا۔ اللہ کے اولیاء کو آخرت میں کوئی غم نہیں ہوگا، کیونکہ ان پر دنیا میں گزری ہوئی ہر تکلیف جنت کی ایک ڈبکی سے کافور ہوجائے گی، پھر غم کیسا ؟ دنیا میں آنے والی مصیبتیں دنیا میں بھی ان کے لیے کفار کی طرح غم کا باعث نہیں بنتیں، کیونکہ ایک تو انھیں ہر مصیبت پر اجر کی امید ہوتی ہے، دوسرے تقدیر پر ان کا ایمان انھیں کفار جیسے غم سے بچاتا ہے کہ اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی کوئی مصیبت ہماری کسی تدبیر سے نہ ٹل سکتی تھی، نہ ٹل سکتی ہے، پھر غم سے کیا حاصل، فرمایا : (لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ ) [ الحدید : ٢٣ ] ” تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا کرے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( یہ تو علم الہٰی کا بیان ہوا آگے مخلصین و مطیعین کی محفوظیت کا بیان ہے کہ) یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ( ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ ( کسی مطلب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں ( یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے اور) وہ ( اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور ( معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں ( یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور خوف و حزن سے ان کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ( من جانب اللہ خوف و حزن سے بچنے کی) خوش خبری ہے ( اور) اللہ کی باتوں میں ( یعنی وعدوں میں) کچھ فرق ہوا نہیں کرتا ( پس جب بشارت میں ان سے وعدہ کیا گیا اور وعدہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے اس لئے عدم خوف و عدم حزن لازم ہے اور) یہ ( بشارت جو مذکور ہوئی) بڑی کامیابی ہے۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں اولیاء اللہ کے مخصوص فضائل اور ان کی تعریف اور پہچان پھر دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت کا ذکر ہے، فرمایا کہ اولیاء اللہ کو نہ کسی ناگوار چیز کے پیش آنے کا خطرہ ہوگا اور نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم، اور اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی و پرہیزگاری اختیار کی، ان کے لئے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی۔- اس میں چند باتیں قابل غور ہیں : اول یہ کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونے کے کیا معنی ہیں ؟- دوسرے یہ کہ اولیاء اللہ کی تعریف کیا ہے اور ان کی علامات کیا ہیں ؟ تیسرے یہ کہ دنیا و آخرت میں ان کی بشارت سے کیا مراد ہے ؟ - پہلی بات کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہیں ہوتا، اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آخرت میں حساب کتاب کے بعد جب ان کو ان کے مقام جنت میں داخل کردیا جائے گا تو خوف و غم سے ان کو ہمیشہ کے لئے نجات ہوجائے گی، نہ کسی تکلیف و پریشانی کا خطرہ رہے گا نہ کسی محبوب و مطلوب چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہوگا، بلکہ جنت کی نعمتیں دائمی اور لازوال ہوں گی، اس معنی کے اعتبار سے تو مضمون آیت پر کوئی اشکال نہیں لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اولیاء اللہ کی کوئی خصوصیت نہ رہی بلکہ تمام اہل جنت جن کو جہنم سے نجات مل گئی ہو اسی حال میں ہوں گے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ انجام کار جنت میں پہنچ گئے وہ سب اولیاء اللہ ہی کہلائیں گے، دنیا میں ان کے اعمال کتنے ہی مختلف رہے ہوں مگر دخول جنت کے بعد سب کے سب اولیاء اللہ کی ہی فہرست میں شمار ہوں گے۔- لیکن بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونا دنیا و آخرت دونوں کے لئے عام ہے اور اولیاء اللہ کی خصوصیت یہی ہے کہ دنیا میں بھی وہ خوف و غم سے محفوظ ہیں اور آخرت میں ان پر خوف و غم نہ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، اور اس میں سب اہل جنت داخل ہیں۔- مگر اس پر حالات و واقعات کے اعتبار سے یہ اشکال ہے کہ دنیا میں تو یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ اولیاء اللہ تو کیا انبیاء (علیہم السلام) بھی اس دنیا میں خوف و غم سے محفوظ نہیں بلکہ ان کا خوف و خشیت اوروں سے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤ ُ ا، یعنی اللہ تعالیٰ سے پوری طرح علماء ہی ڈرتے ہیں، اور دوسری جگہ میں اولیاء اللہ ہی کا یہ حال بیان فرمایا ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ ، اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی یہ لوگ اللہ کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں جس سے کوئی بےفکر ہو کر بیٹھ سکے۔- صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت صدیق و فاروق (رض) اور تمام صحابہ وتابعین اور اولیاء اللہ کی گریہ وزاری اور خوف آخرت کے واقعات بیشمار ہیں۔- اس لئے روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ فرمایا کہ حضرات اولیاء اللہ کا دنیا میں خوف و غم سے محفوظ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ جن چیزوں کے خوف و غم میں عام طور سے اہل دنیا مبتلا رہتے ہیں کہ دنیوی مقاصد آرام و راحت عزت و دولت میں ذرا سی کمی ہوجانے پر مرنے لگتے ہیں اور ذرا ذرا سی تکلیف و پریشانی کے خوف سے ان سے بچنے کی تدبیروں میں رات دن کھوئے رہتے ہیں، اولیاء اللہ کا مقام ان سب سے بالا و بلند ہوتا ہے، ان کی نظر میں نہ دنیا کی فانی عزت و دولت، راحت و آرام کوئی چیز ہے جس کے حاصل کرنے میں سرگرداں ہوں، اور نہ یہاں کی محنت و کلفت اور رنج کچھ قابل التفات ہے جس کی مدافعت میں پریشان ہوں بلکہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ :- نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بہ پیش ہمت ماہرچہ آمد بود مہمانے - اللہ جل شانہ کی عظمت و محبت اور خوف و خشیت ان حضرات پر ایسی چھائی ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی رنج و راحت، سود و زیاں پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے بقول بعض :- یہ ننگ عاشقی ہیں سود و حاصل دیکھنے والے - یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے - دوسری بات اولیاء اللہ کی تعریف اور ان کی علامات سے متعلق ہے، اولیاء ولی کی جمع ہے، لفظ ولی عربی زبان میں قریب کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوست و محب کے معنی میں بھی، اللہ تعالیٰ کے قرب و محبت کا ایک عام درجہ تو ایسا ہے کہ اس سے دنیا کا کوئی انسان و حیوان بلکہ کوئی چیز بھی مستثنی نہیں، اگر یہ قرب نہ ہو تو سارے عالم میں کوئی چیز وجود ہی میں آسکتی، تمام عالم کے وجود کی اصلی علت وہی خاص رابطہ ہے جو اس کو حق تعالیٰ شانہ سے حاصل ہے گو اس رابطہ کی حقیقت کو نہ کسی نے سمجھا اور نہ سمجھ سکتا ہے مگر ایک بےکیف رابطہ کا ہونا یقینی ہے، مگر لفظ اولیاء اللہ میں یہ درجہ ولایت کا مراد نہیں بلکہ ولایت و محبت اور قرب کا ایک دوسرا درجہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں کے ساتھ خاص ہے یہ قرب محبت کہلاتا ہے جن لوگوں کو یہ قرب خاص حاصل ہو وہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے، میں ہی اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، وہ جو کچھ دیکھتا ہے مجھ سے دیکھتا ہے میں ہی اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جو کچھ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کی کوئی حرکت و سکون اور کوئی کام میری رضاء کے خلاف نہیں ہوتا۔- اور اس ولایت خاصہ کے درجات بیشمار اور غیر متناہی ہیں، اس کا اعلی درجہ انبیاء (علیہم السلام) کا حصہ ہے، کیونکہ ہر نبی کا ولی اللہ ہونا لازمی ہے، اور اس میں سب سے اونچا مقام سید الانبیاء نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے، اور ادنی درجہ اس ولایت کا وہ ہے جس کو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں درجہ فنا کہا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کا قلب اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایسا مستغرق ہو کہ دنیا میں کسی کی محبت اس پر غالب نہ آئے وہ جس سے محبت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، جس سے نفرت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، اس کے حب و بغض اور محبت و عداوت میں اپنی ذات کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مشغول رہتا ہے اور وہ ہر ایسی چیز سے پرہیز کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہو، اسی حالت کی علامت ہے کثرت ذکر اور دوام طاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا اور ہمیشہ ہر حال میں اس کے احکام کی اطاعت کرنا، یہ دو وصف جس شخص میں موجود ہوں وہ ولی اللہ کہلاتا ہے جس میں ان دونوں میں سے کوئی ایک نہ ہو وہ اس فہرست میں داخل نہیں، پھر جس میں یہ دونوں موجود ہوں اس کے درجات ادنی و اعلی کی کوئی حد نہیں، انہیں درجات کے اعتبار سے اولیاء اللہ کے درجات متفاضل اور کم و بیش ہوتے ہیں۔- ایک حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوال کیا گیا کہ اس آیت میں اولیاء اللہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو خالص اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، کوئی دنیاوی غرض درمیان میں نہیں ہوتی ( مظہری از ابن مردویہ) اور ظاہر ہے کہ یہ حالت انہیں لوگوں کی ہو سکتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔- یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس درجہ ولایت کے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟- حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ امت کے افراد کو یہ درجہ ولایت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے فیض صحبت سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی سے تعلق مع اللہ کا وہ رنگ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل تھا اپنے حوصلہ کے مطابق اس کا کوئی حصہ امت کے اولیاء کو ملتا ہے، پھر یہ فیض صحبت صحابہ کرام کو بلا واسطہ حاصل تھا، اسی وجہ سے ان کا درجہ ولایت تمام امت کے اولیاء و اقطاب سے بالاتر تھا بعد کے لوگوں کو یہی فیض ایک واسطہ یا چند واسطوں سے حاصل ہوتا ہے جتنے وسائط بڑھتے جاتے ہیں اتنا ہی اس میں فرق پڑجاتا ہے، یہ واسطہ صرف وہی لوگ بن سکتے ہیں جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رنگ میں رنگے ہوئے آپ کی سنت کے پیرو ہیں ایسے لوگوں کی کثرت سے مجالست اور صحبت جبکہ اس کے ساتھ ان کے ارشادات کی پیروی اور اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو، یہی نسخہ ہے درجہ ولایت حاصل کرنے کا جو تین جزء سے مرکب ہے۔ کسی ولی اللہ کی صحبت، اس کی اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت، بشرطیکہ یہ کثرت ذکر مسنون طریقہ پر ہو، کیونکہ کثرت ذکر سے آئینہ قلب کو جلا ہوتی ہے تو وہ نور ولایت کے انعکاس کے قابل بن جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ ہر چیز کے لئے صیقل اور صفائی کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، قلب کی صیقل ذکر اللہ سے ہوتی ہے، اس کو بیہقی نے بروایت ابن عمر نقل فرمایا ہے۔ (مظہری ) ۔- اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی بزرگ سے محبت کرتا ہے مگر عمل کے اعتبار سے ان کے درجہ تک نہیں پہنچتا ؟ آپ نے فرمایا المرء مع من احب یعنی ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت و صحبت انسان کے لئے حصول ولایت کا ذریعہ ہے، اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت رزین کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت رزین سے فرمایا کہ میں تمہیں دین کا ایسا اصول بتلاتا ہوں جس سے تم دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی حاصل کرسکتے ہو، وہ یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلس و صحبت کو لازم پکڑو اور جب تنہائی میں جاؤ تو جتنا زیادہ ہوسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دو ، جس سے محبت کرو اللہ کے لئے کرو جس سے نفرت کرو اللہ کے لئے کرو۔ ( مظہری ) ۔- مگر یہ صحبت و مجالست انہیں لوگوں کی مفید ہے جو خود ولی اللہ متبع سنت ہوں اور جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے تابع نہیں وہ خود درجہ ولایت سے محروم ہیں، چاہے کشف و کرامات ان سے کتنے ہی صادر ہوں۔ اور جو شخص مذکورہ صفات کے اعتبار سے ولی ہو اگرچہ اس سے کبھی کوئی کشف و کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو وہ اللہ کا ولی ہے۔ ( مظہری )- اولیاء اللہ کی علامت اور پہچان تفسیر مظہری میں ایک حدیث قدسی کے حوالہ سے یہ نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اولیاء میرے بندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو میری یاد کے ساتھ یاد آویں اور جن کی یاد کے ساتھ میں یاد آؤ ں، اور ابن ماجہ میں بروایت حضرت اسماء بنت یزید مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولیاء اللہ کی یہ پہچان بتلائی الذین اذا رء وا ذکر اللہ، یعنی جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔- خلا صہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کو اللہ کے ذکر کی توفیق اور دنیاوی فکروں کی کمی محسوس ہو، یہ علامت اس کے ولی اللہ ہونے کی ہے۔- تفسیر مظہری میں فرمایا کہ عوام نے جو اولیاء اللہ کی علامت کشف و کرامت یا غیب کی چیزیں معلوم ہونے کو سجھ رکھا ہے یہ غلط اور دھوکہ ہے، ہزاروں اولیاء اللہ ہیں جن سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں اور اس کے خلاف ایسے لوگوں سے کشف اور غیب کی خبریں منقول ہیں جن کا ایمان بھی درست ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٦٢ ۚۖ- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢۔ ٦٣) یہ بات یاد رکھو کہ مومنین کی جماعت کو نہ کسی عذاب کے آنے کا خطرہ ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر غمگین ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ )- یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں ؟ یہ کوئی علیحدہ نوع ( ) نہیں ہے ‘ اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص لباس زیب تن کرنے یا کوئی مخصوص حلیہ بنانے کی ضرورت ہے ‘ بلکہ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان حقیقی سے بہرہ مند ہوں ‘ ان کے دلوں میں یقین پیدا ہوچکا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے درجہ ” احسان “ پر فائز ہوچکے ہوں ‘ جس کا ذکر ” حدیث جبریل “ میں ہوا ہے : (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) (١) اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کی جس طرح پذیرائی فرماتا ہے اس کا ایک انداز سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٧ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) ” اللہ ولی ہے اہل ایمان کا ‘ انہیں نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی جانب “۔ آیت زیر نظر میں بھی انہیں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ ایسے لوگ خوف اور حزن سے بالکل بےنیاز ہوں گے۔ بہر حال اس سلسلے میں ایک بہت اہم نکتہ لائق توجہ ہے کہ جو اللہ کا دوست ہوگا اس کے اندر اللہ کی غیرت و حمیت بھی ہوگی۔ وہ اللہ کے دین کو پامال ہوتے دیکھ کر تڑپ اٹھے گا۔ وہ اللہ کے شعائر کی بےحرمتی کو کبھی برداشت نہیں کرسکے گا۔ وہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دے گا۔ گویا دنیوی زندگی میں یہ معیار اور طرز عمل اولیاء اللہ کی پہچان ہے۔ اگلی آیت میں مزید وضاحت فرما دی گئی کہ یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: اللہ کے دوست کی تشریح اگلی آیت میں کردی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات رکھتے ہوں۔ ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا، اور نہ ماضی کی کسی بات کا کوئی غم ہوگا۔ کہنے کو یہ مختصر سی بات ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ دنیا میں ہر انسان کو، خواہ وہ کتنا خوشحال ہو، ہر وقت مستقل کا کوئی نہ کوئی خوف اور ماضی کا کوئی نہ کوئی رنج پریشان کرتا ہی رہتا ہے۔ یہ نعمت صرف جنت ہی میں حاصل ہوگی کہ انسان ہر طرح کے خوف اور صدمے سے بالکل آزاد ہوجائے گا۔