اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کے تمام احوال ہر وقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کے کل کام اس کے علم میں ہیں ۔ اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ۔ سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59 ) 6- الانعام:59 ) غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ وہ خشکی و تری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ہر پتے کے جھڑنے کی اسے خبر ہے ۔ زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہو ، جو تر و خشک چیز ہو ، سب کتاب مبین میں موجود ہے ۔ الغرض درختوں کا ہلنا ۔ جمادات کا ادھر ادھر ہونا ، جانداروں کا حرکت کرنا ، کوئی چیز روئے زمین کی اور تمام آسمانوں کی ایسی نہیں ، جس سے علیم و خبیر اللہ بےخبر ہو ۔ فرمان ہے ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38 ) 6- الانعام:38 ) ایک اور آیت میں ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے ۔ جب کہ درختوں ، ذروں جانوروں اور تمام تر و خشک چیزوں کے حال سے اللہ عزوجل واقف ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بندوں کے اعمال سے وہ بےخبر ہو ۔ جنہیں عبادت رب کی بجا آوری کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے اس ذی عزت بڑے رحم وکرم والے اللہ پر تو بھروسہ رکھ جو تیرے قیام کی حالت میں تجھے دیکھتا رہتا ہے سجدہ کرنے والوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھ رہا ہے ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ تم سب ہماری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو ۔ حضرت جبرائیل نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے یقیناً دیکھ ہی رہا ہے
61۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور لحاظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورة انعام، آیت 59 میں گزر چکا ہے اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہ جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات و اعمال سے کیوں کر بیخبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں ؟
[٧٦] آپ کی اور مشرکوں کی سرگرمیوں کا تقابل :۔ اس آیت میں بیک وقت رسول اللہ کو بھی مخاطب بنایا گیا ہے اور مشرکین مکہ کو بھی۔ اور ان دونوں کی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے یعنی ایک طرف تو آپ کی ذات مبارک ہے جنہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کردیا تھا اور اسی مقصد کے لیے اپنی جان تک کھپا رہے ہیں لوگوں کو جا جا کر قرآن سنا رہے ہیں اور اس کے ذریعہ جہاد کر رہے ہیں اور جب لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو انتہائی صدمہ ہوتا ہے دوسری طرف آپ کے مخالفین ہیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دکھ دینے اور تکلیفیں پہنچانے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کی ہر راہ کو روکنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی گویا اس آیت میں کافروں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جو کرتوتیں بھی تم کرتے ہو یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں پہلے سے ہی موجود ہے پھر وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو دیکھ بھی رہا ہے اور وہ ریکارڈ بھی ہوتی جارہی ہے لہذا اپنی ان سرگرمیوں کے انجام کی ابھی سے فکر کرلو اور نبی کو یہی بات کہہ کر تسلی دی جارہی ہے اور صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔
وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ ۔۔ : اس آیت کے شرو ع میں دو صیغے ” تَكُوْنُ “ اور ” تَتْلُوْا “ واحد مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ” تو “ ہے اور دو صیغے ” تَعْمَلُوْنَ “ اور ” تُفِيْضُوْنَ “ جمع مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ” تم “ ہے۔ مفسرین نے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ پہلے دونوں الفاظ کے مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور بعد والے دونوں الفاظ کے مخاطب تمام لوگ ہیں۔ متن میں آیت کا ترجمہ لفظوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے دونوں الفاظ میں خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر اس میں بھی تمام لوگ شامل ہیں، اس لیے بعد والے صیغے جمع لائے گئے ہیں، مراد ہر مخاطب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ) [ الطلاق : ١ ] ” اے نبی جب تم (لوگ) عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ۔ “ اس میں ابتدا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے تمام امت کو شامل کرلیا ہے۔ یعنی لوگوں میں سے کوئی بھی کسی حال میں ہو، قرآن پڑھ رہا ہو یا کوئی اور عمل کر رہا ہو اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہوتا ہے۔ یہ تفسیر بھی صحیح ہے۔- ” شَاْنٍ “ کا معنی حال ہے، مگر ایسا حال جو اہمیت رکھتا ہو، جیسے فرمایا : (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ یہ لفظ معمولی اور حقیر کام پر نہیں بولا جاتا۔ - وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ : ” مِنْهُ “ کی ضمیر کے متعلق مفسرین نے بہت سے احتمال ذکر فرمائے ہیں کہ یہ کس کی طرف لوٹتی ہے، وہ سب درست ہیں، مگر میری دانست میں ان میں سب سے آسان اور واضح وہ ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہو رہا ہے، یعنی یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے، کیونکہ قرآن اسی کی طرف سے آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف ضمیر لوٹانے کے لیے اس کا پہلے ذکر ہونا ضروری نہیں، کیونکہ وہ ہر وقت ہر ذہن میں موجود ہے۔ - وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ ۔۔ : اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے تسلی کا پیغام ہے کہ آپ کی بندگی کی ہر ہر ادا اور عمل ہمارے سامنے ہے اور مخالفین کے لیے وعید ہے کہ تم جو عمل کرتے ہو، تمہارے اس کام میں مشغول ہوتے ہی ہم بھی گواہ ہوتے ہیں، نہ ہم اس سے بیخبر ہیں، نہ تم اس کی سزا سے بچ سکو گے۔ - وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ ۔۔ : یہ بعض جاہل فلسفیوں کی اس بات کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ کلیات کو جانتا ہے جزئیات کو نہیں جانتا، بڑی بڑی باتیں اس کے علم میں آتی ہیں، چھوٹی باتیں نہیں۔ ” ذَرَّةٍ “ سب سے چھوٹی چیونٹی کو بھی کہتے ہیں اور روشن دان وغیرہ سے آنے والی روشنی کے اندر بکھرے ہوئے باریک ذروں کو بھی۔ فرمایا کہ زمین ہو یا آسمان اس میں نہ ایک ذرہ برابر چیز اس سے غائب ہے، نہ اس سے بھی چھوٹی یا بڑی کوئی چیز، بلکہ وہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ کتاب مبین کا معنی لوح محفوظ بھی کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم بھی۔ اسی آیت کی ہم معنی سورة انعام کی آیات (٥٩، ٦٠) ہیں۔
چوتھی آیت میں اللہ جل شانہ کے علم محیط اور اس کی بےمثال وسعت کا ذکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے کیا گیا ہے کہ آپ جس کام اور جس حال میں ہمیشہ ہوتے ہیں یا قرآن پڑھتے ہیں اس کا کوئی جزء ہم سے مخفی نہیں اسی طرح تمام انسان جو کچھ عمل کرتے ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں اور آسمان و زمین میں کوئی ایک ذرہ بھی ہم سے چھپا ہوا نہیں ہے بلکہ ہر چیز کتب مبین یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے۔- بطاہر اس جگہ علم الہٰی کی وسعت اور ہر چیز کو محیط ہونے کے بیان میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جائے کہ اگرچہ مخالف اور دشمن آپ کے بہت ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی حفاظت آپ کے ساتھ ہے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔
وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْہِ ٠ ۭ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٦١- شأن - الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان .- ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - فيض - فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] - ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ - عزب - العَازِبُ : المتباعد في طلب الکلإ عن أهله، يقال : عَزَبَ يَعْزُبُ ويَعْزِبُ «3» . قال تعالی: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] ،- ( ع ز ب ) عزب - العازب وہ آدمی جو گھاس کی تلاش میں اپنے اہل عیال سے دور نکل جائے عزب یعزب ویعزب ( ض ن ) دور نکل جانا پوشیدہ ہوجا نا ۔ قرآن میں ہے : ۔- وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔- مِثْقَال - : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات .- والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين :- أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا .- والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] .- المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔- ذرة- الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] ، وقال : وَمِنْ ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ [ البقرة 128] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقالَ ذَرَّةٍ [ النساء 40] ، وقد قيل : أصله الهمز، وقد تذکر بعد في بابه . ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی وَمِنْ ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ [ البقرة 128] اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہیو ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقالَ ذَرَّةٍ [ النساء 40] خدا کسی کو ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا ۔ اور کہا گیا ہے کہ ذریۃ آصل میں مہموز اللام ہے اور ( ذرء ) میں اس پر بحث آرہی ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - كبير - الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان،- ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو
(٦١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خواہ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن کریم کی سورت یا آیت پڑھتے ہوں اور اسی طرح اور لوگ بھی جو نیکیاں اور برائیاں کرتے ہیں۔- ہمیں تمہاری سب حالتوں اور تمہاری تلاوت اور تمہارے سب کاموں کی خبر رہتی ہے، جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور قرآن کریم کی تکذیب میں لگتے ہو اور بندوں کے اعمال میں سے آپ کے رب کے علم سے کوئی چیز بھی ذرہ برابر غائب نہیں اور نہ کوئی چیز اس مقدار مذکور سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی چیز اس سے بڑی اور بھاری ہے مگر یہ سب بوجہ احاطہ علم الہی کے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔
(اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط) - اس انداز تخاطب میں ایک خاص کیف ہے۔ پہلے واحد کے صیغے میں حضور اکرم سے خطاب ہے اور آپ کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ آپ جس کیفیت میں بھی ہوں ‘ قرآن پڑھ رہے ہوں یا پڑھ کر سنا رہے ہوں ‘ ہم بذات خود آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کی آواز سن رہے ہوتے ہیں۔ پھر اسی خوشخبری کو جمع کے صیغے میں تمام مسلمانوں کے لیے عام کردیا گیا ہے کہ تم لوگ جو بھی بھلائی کماتے ہو ‘ قربانیاں دیتے ہو ایثار کرتے ہو ‘ ہم خود اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم تمہارے ایک ایک عمل کے گواہ اور قدردان ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے بندوں کے بارے میں تغافل یا ناقدری نہیں ہے۔- (وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ وََلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرَ الاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ )- کوئی ذرہ برابر چیز یا اس سے چھوٹی یا بڑی آسمانوں اور زمین میں ایسی نہیں ہے جو کبھی رب ذوالجلال کی نظر سے پوشیدہ ہوگئی ہو اور وہ ایک روشن کتاب میں درج نہ ہو۔ یہ روشن کتاب اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :64 یہاں اس بات کا ذکر کرنے سے مقصود نبی کو تسکین دینا اور نبی کے مخالفین کو متنبہ کرنا ہے ۔ ایک طرف نبی سے ارشاد ہو رہا ہے کہ پیغام حق کی تبلیغ اور خلق اللہ کی اصلاح میں جس تن دہی و جاں فشانی اور جس صبر و تحمل سے تم کام کر رہے ہو وہ ہماری نظر میں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پُرخطر کام پر مامور کر کے ہم نے تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہو ۔ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں ۔ دوسری طرف نبی کے مخالفین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ایک داعی حق اور خیر خواہ خلق کی اصلاحی کوششوں میں روڑے اٹکا کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کوئی تمہاری ان حرکتوں کو دیکھنے والا نہیں ہے اور کبھی تمہارے ان کرتوتوں کی باز پرس نہ ہوگی ۔ خبردار رہو ، وہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو ، خدا کے دفتر میں ثبت ہو رہا ہے ۔
27: قیامت میں انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو مشرکین عرب اس وجہ سے ناممکن سمجھتے تھے کہ اربوں انسان جب مر کر مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوچکے ہوں گے، اس کے بعد ان سب کو اکٹھا کر کے دوبارہ زندگی کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ مٹی کا کونسا ذرہ اصل کس انسان کے جسم کا حصہ تھا۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم کو اپنے اوپر قیاس مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔