64۔ 1 دنیا میں خوشخبری سے مراد، رؤیائے صادقہ ہیں یا وہ خوشخبری ہے جو موت کے فرشتے ایک مومن کو دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
[٧٩] اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت ایسی ہے کہ جو حتمی، یقینی اور ناقابل تغیر و تبدل ہے بالفاظ دیگر جو اللہ کے دوست ہوں یا جن کا دوست اللہ تعالیٰ ہو وہ کہیں بھی اور کسی حال میں بھی پریشان نہ ہوں گے اور ان کے لیے یہی بات سب سے بڑی کامیابی ہے۔
لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔۔ : ” لھم “ پہلے آنے کی وجہ سے حصر کا معنی پیدا ہوگیا، یعنی دنیا کی زندگی میں خاص خوش خبری انھی کے لیے ہے۔ اس میں کئی چیزیں شامل ہیں : 1 پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی۔ “ 2 تقدیر پر ایمان کی وجہ سے کفار جیسی بےصبری اور خوف و غم سے محفوظ رہنا، جیسا کہ اوپر گزرا ہے اور فرمایا : (اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا 19ۙاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا 20ۙوَّاِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا 21ۙاِلَّا الْمُصَلِّيْنَ ) [ المعارج : ١٩ تا ٢٢ ] ” بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔ “ پھر ان نمازیوں کی چند صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ ) [ المعارج : ٣٥ ] ” یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔ “ 3 اچھے خواب، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں، میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : ( لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ ، قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟ قَال الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ ) [ بخاری، التعبیر، باب المبشرات : ٦٩٩٠ ] ” نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی مگر مبشرات (بشارت والی چیزیں) ۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” مبشرات کیا ہیں ؟ “ فرمایا : ” اچھے خواب۔ “ 4 وہ بشارت بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے جو دنیا کے آخری وقت میں فرشتے اسے موت کے وقت دیتے ہیں۔ عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں : ( اَلْمُؤْمِنُ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ فَلَیْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہُ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَہُ ) [ بخاری، الرقاق، باب من أحب لقاء اللہ۔۔ : ٦٥٠٧ ] ” مومن کے پاس جب موت حاضر ہوتی ہے تو اسے اللہ کی رضا اور اس کی طرف سے عزت عطا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (جنت اور اللہ کی رضا کی صورت میں) ہوتی ہے، تو وہ اللہ کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے (جبکہ کافر کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے) ۔ “ 5 لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت ہونا اور لوگوں کا اس کی تعریف اور مدح و ثنا کرنا، اگرچہ وہ عبادت اس لیے نہیں کرتا بلکہ محض اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، مگر اللہ نیک لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت رکھ دیتا ہے۔ دیکھیے سورة مریم (٩٦) ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا : ” یہ بتائیں کہ آدمی خیر کا کوئی عمل کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب إذا أثنی علی الصالح ۔۔ : ٢٦٤٢ ] ” یہ مومن کو جلد ملنے والی خوش خبری ہے۔ “ 6 دعاؤں کی قبولیت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ مَنْ لَّوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ ) [ بخاری، الصلح، باب الصلح في الدیۃ : ٢٧٠٣ ] ” اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ اگر اللہ پر قسم ڈال دیں تو وہ اسے پورا کر دے۔ “ - وَفِي الْاٰخِرَةِ : اس سے وہ تمام بشارتیں مراد ہیں جو مومنوں کو آخرت میں دی گئی ہیں۔ دیکھیے سورة زمر (٢٠) اور شوریٰ (٢٢، ٢٣) اور بہت ہی بڑی نعمتیں، مثلاً موت کا ذبح کردیا جانا، ہمیشہ جنت میں رہنا، اللہ تعالیٰ کا ان سے راضی ہونا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے۔ (آمین) یہ تمام چیزیں قرآن مجید اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ - لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ : لہٰذا اس کے وہ وعدے پورے ہو کر رہیں گے جو اس نے اہل ایمان سے کر رکھے ہیں۔ - ذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : ” ھُوَ “ ضمیر فصل کہلاتی ہے۔ اس کے تین فائدے ہوتے ہیں، ایک تاکید، دوسرا حصر اور تیسرا موصوف صفت اور مبتدا و خبر میں فرق۔ محلاً اس کا اعراب کچھ نہیں ہوتا، اس لیے ترجمہ ہے ” یہی بہت بڑی کامیابی ہے “ اس کے سوا اول تو کوئی کامیابی وجود ہی نہیں رکھتی، اگر مان بھی لی جائے تو وہ بےحیثیت ہے، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
آخر آیت میں جو یہ فرمایا گیا کہ اولیاء کے لئے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی، آخرت کی خوشخبری تو یہ ہے کہ موت کے وقت جب اس کی روح کو اللہ کے پاس لے جایا جائے گا اس وقت اس کو خوشخبری جنت کی ملے گی پھر قیامت کے روز قبر سے اٹھنے کے وقت جنت کی خوشخبری دی جائے گی جیسا کہ طبرانی نے بروایت ابن عمر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل لا الہ الا اللہ کو نہ موت کے وقت کوئی وحشت ہوگی نہ قبر میں اور نہ قبر سے اٹھنے کے وقت، گویا میری آنکھیں اس وقت کا حال دیکھ رہی ہیں جب یہ لوگ اپنی قبروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ، یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارا غم دور کردیا۔- اور دنیا کی بشارت کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سچی خوابیں جو انسان خود دیکھے یا اس کے لئے کوئی دوسرا دیکھے جن میں ان کے لئے خوشخبری ہو۔ ( رواہ البخاری عن ابی ہریرہ )- اور دنیا کی دوسری بشارت یہ ہے کہ عام مسلمان بغیر کسی غرض کے اس سے محبت کریں اور اچھا سمجھیں، اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تلک عاجل بشری المومن یعنی عام مسلمانوں کا اچھا سمجھنا اور تعریف کرنا مومن کے لئے نقد خوش خبری ہے ( مسلم و بغوی)
لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ ٠ ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ ٠ ۭ ذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٦٤ ۭ- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔
(٦٤) اور وہ کون لوگ ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کا بیان فرماتا ہے کہ جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور کفر وشرک اور فواحش سے بچتے ہیں، ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی کہ وہ رؤیائے صادقہ دیکھتے ہیں یا ان کو دکھلائے جاتے ہیں اور آخرت میں بھی کہ ان کو جنت ملے گی، خوشخبری ہے اور جنت کا جو وعدہ فرمایا ہے اس میں کچھ فرق ہوا نہیں کرتا اور یہ بشارت بہت بڑی کامیابی ہے جس کی بدولت جنت اور اس کی نعمتیں حاصل ہوں گی اور دوزخ اور اس کی سختیوں سے چھٹکارا ملے گا۔
آیت ٦٤ (لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ )- ان بشارتوں کے بارے میں ہم سورة التوبہ کی آیت ٥٢ میں پڑھ چکے ہیں : (ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ) یعنی ہمارے لیے تو دو اچھائیوں کے سوا کسی تیسری چیز کا تصور ہی نہیں ہے ‘ ہمارے لیے تو بشارت ہی بشارت ہے۔ اور اگر بالفرض دنیا میں کوئی تکلیف آ بھی جائے تو بھی کوئی غم نہیں ‘ کیونکہ ہمارے اوپر جو بھی تکلیف آتی ہے وہ ہمارے رب ہی کی طرف سے آتی ہے۔ جیسے سورة التوبہ آیت ٥١ میں فرمایا گیا : (قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا) چناچہ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ وہ ہمارا دوست ہے ‘ اور دوست کی طرف سے اگر کوئی تکلیف بھی آجائے تو سر آنکھوں پر۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس تکلیف میں بھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہی ہوگی۔