Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عزت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ان مشرکوں کی باتوں کا کوئی رنج و غم نہ کر ۔ اللہ تعالیٰ سے ان پر مدد طلب کر اس پر بھروسہ رکھ ، ساری عزتیں اسی کے ہاتھ میں ، وہ اپنے رسول کو اور مومنوں کو عزت دے گا ۔ وہ بندوں کی باتوں کو خوب سنتا ہے وہ ان کی حالتوں سے پورا خبردار ہے ۔ آسمان و زمین کا وہی مالک ہے ۔ اس کے سوا جن جن کو تم پوجتے ہو ان میں سے کوئی کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا کوئی نفع نقصان ان کے بس کا نہیں ۔ پھر ان کے عبادت بھی محض بےدلیل ہے ۔ صرف گمان ، اٹکل ، جھوٹ اور افترا ہے ۔ حرکت ، رنج و تعب ، تکلیف اور کام کاج سے راحت و آرام سکون و اطمینان حاصل کرنے کے لیے اللہ نے رات بنا دی ہے ۔ دن کو اس سے روشن اور اجالے والا بنا دیا ہے تاکہ تم اس میں کام کاج کرو ۔ معاش اور روزی کی فکر ، سفر تجارت ، کاروبار کر سکو ، ان دلیلوں میں بہت کچھ عبرت ہے لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو ان آیتوں کو دیکھ کر ان خالق کی عظمت و جبروت کا تصور باندھتے اور اس خالق و مالک کی قدر عزت کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] اولیاء اللہ کے بعد اب ساتھ ہی اعداء اللہ کا ذکر فرمایا جو حق کا انکار کرتے تھے پیغمبر اسلام اور مسلمانوں پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے اور انھیں تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے اس آیت میں پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر تسلی دی جارہی ہے کہ غلبہ، قوت، اقتدار اور عزت تو سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تمہیں کبھی اس حال میں نہ رہنے دے گا بلکہ ایسے حالات پیدا کردے گا کہ منکرین حق ذلیل اور رسوا ہوں اور عزت اور غلبہ اہل حق کو نصیب ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کی دنیا اور آخرت کی سعادت بیان کرنے کے بعد اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ دشمنوں کی باتوں، مثلاً جادوگر، دیوانہ اور کذاب وغیرہ کہنے سے آپ کو جو تکلیف پہنچی ہے اس سے آپ غم زدہ نہ ہوں۔ غم اگرچہ ایک طبعی چیز ہے مگر آپ نہ بددل ہوں نہ مایوس، کیونکہ عزت یعنی غلبہ، اقتدار اور فتح تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہی جسے چاہے غالب اور جسے چاہے مغلوب کرتا ہے، لہٰذا آپ کو ان کافروں کی دھمکیوں، ان کے کفر و شرک اور طعن و تشنیع سے رنجیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں، آپ اللہ کے رسول ہیں، آخر کار غلبہ اور اقتدار آپ کو اور آپ کے پیش کردہ دین ہی کو حاصل ہوگا۔ نیز دیکھیے سورة مجادلہ (٢١) اور منافقون (٨) ۔- ھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ : وہ ان کی فضول باتیں سن رہا ہے اور آپ کے ساتھ ان کا سلوک بھی خوب جانتا ہے، وہ جلد ہی آپ کے مخالفین سے نپٹ لے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ کو ان کی باتیں غم میں نہ ڈالیں (یعنی ان کے کفریات سے مغموم ہوں کیونکہ علم و حفاظت مذکورہ کے علاوہ) تمام تر غلبہ ( اور قدرت بھی) خدا ہی کے لئے ( ثابت) ہے ( وہ اپنی قدرت سے حسب وعدہ آپ کی حفاظت کرے گا) وہ ( ان کی باتیں) سنتا ہے ( اور ان کی حالت) جانتا ہے ( وہ آپ کا بدلہ ان سے خود لے لے گا) یاد رکھو کہ جتنے کچھ آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں ( یعنی فرشتے اور جن و انس) یہ سب اللہ ہی کے ( مملوک) ہیں ( اس کی حفاظت یا مکافات کو کوئی روک نہیں سکتا پس باہمہ وجوہ تسلی رکھنا چاہئے) اور ( اگر کسی کو شبہ ہو کہ شاید شرکاء مزاحمت کرسکیں تو اس کی حقیقت سن لو کہ) جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کی عبادت کر رہے ہیں ( خدا جانے) کس چیز کا اتباع کر رہے ہیں ( یعنی ان کے اس عقیدہ کی کیا دلیل ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ بھی دلیل نہیں) محض بےسند خیال کا اتباع کر رہے ہیں اور محض خیالی باتیں کر رہے ہیں ( پس واقع میں ان میں صفات الوہیت کے مثل علم وقدرت وغیرہ نہیں ہیں پھر ان میں احتمال مزاحمت کی کب گنجائش ہے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ۝ ٠ ۘ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝ ٠ ۭ ھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٦٥- عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاص طور پر آپ کو ان لوگوں کا جھٹلانا غم میں نہ ڈالے، ان کو ہلاک کرنے کی تمام تر قدرت اور غلبہ اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے، وہ ان کی باتیں سنتا اور ان کی حالت اور ان کے انجام کو جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani