Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ان نبیوں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا ۔ اپنی دلیلیں اور حجتیں عطا فرما کر بھیجا ۔ لیکن آل فرعون نے بھی اتباع حق سے تکبر کیا اور تھے بھی پکے مجرم اور قسمیں کھا کر کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ حالانکہ دل قائل تھے کہ یہ حق ہے لیکن صرف اپنی بڑھی چڑھی خود رائی اور ظلم کی عادت سے مجبور تھے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ اللہ کے سچے دین کو جادو کہہ کر کیوں اپنی ہلاکت کو بلا رہے ہو؟ کہیں جادوگر بھی کامیاب ہوتے ہیں؟ ان پر اس نصیحت نے بھی اُلٹا اثر کیا اور دو اعتراض اور جڑ دئیے کہ تم تو ہمیں اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹا رہے ہو ۔ اور اس سے نیت تمہاری یہی ہے کہ اس ملک کے مالک بن جاؤ ۔ سو بکتے رہو ہم تو تمہاری ماننے کے نہیں ۔ اس قصے کو قرآن کریم میں بار بار دہرایا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ عجیب و غریب قصہ ہے ۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بہت ڈرتا بچتا رہا ۔ لیکن قدرت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی کے ہاں پلوایا اور شاہزادوں کی طرح عزت کے گہوارے میں جھلایا ۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک ایسا سبب کھڑا کر دیا کہ یہاں سے آپ چلے گئے ۔ پھر جناب باری نے ان سے خود کلام کیا ۔ نبوت و رسالت دی اور اسی کے ہاں پھر بھیجا ۔ فقط ایک ہارون علیہ السلام کو ساتھ دے کر آپ نے یہاں آکے اس عظیم الشان سلطان کے رعب و دبدبے کی کوئی پرواہ نہ کر کے اسے دین حق کی دعوت دی ۔ اس سرکش نے اس پر بہت برا منایا اور کمینہ پن پر اتر آیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں رسولوں کی خود ہی حفاظت کی وہ وہ معجزات اپنے نبی کے ہاتھوں میں ظاہر کئے کہ ان کے دل ان کی نبوت مان گئے ۔ لیکن تاہم ان کا نفس ایمان پر آمادہ نہ ہوا اور یہ اپنے کفر سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوئے ۔ آخر اللہ کا عذاب آہی گیا اور ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں ۔ فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآنحالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لئے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔ 75۔ 2 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت 101 میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔ 75۔ 3 لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرّات پیدا کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] سیدنا موسیٰ کے فرعون سے مطالبات اور اس کا جواب :۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا قصہ پہلے سورة اعراف (آیت نمبر ١٠٣ تا ١٧١) میں پوری تفصیل سے گذر چکا ہے لہذا ان حواشی کو بھی مدنظر رکھا جائے جو پہلے پیش کیے جاچکے ہیں جب یہ دونوں پیغمبر، فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں پہنچے تو انھیں دو باتوں کی دعوت دی۔ ایک یہ کہ صرف ایک ہی سچے معبود پر ایمان لاؤ اور اسی کی عبادت کرو اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ ظاہر ہے کہ فرعون جیسے جابر اور خود خدائی کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو یہ دعوت کسی طرح بھی راس نہ آسکتی تھی لہذا اس نے فوراً یہ مطالبہ پیش کردیا کہ تم فی الواقع اللہ کے پیغمبر ہو تو اپنی نبوت کی تصدیق کے طور پر کوئی نشانی پیش کرو۔ اس پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر گیا اور دوڑنے لگا جس سے فرعون اور اس کے سب درباری ڈر کر موسیٰ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ آپ نے اس اژدہا کو پکڑ لیا اور وہ پھر سے عصا بن گیا پھر سیدنا موسیٰ نے دوسری نشانی بھی دکھلائی۔ اپنا داہنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھا پھر نکالا تو وہ چمک رہا تھا اور اس سے سفید رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ آپ نے پھر اسے اپنی بغل میں رکھا تو وہ اپنی اصل حالت پر آگیا۔ یہ دونوں نشانیاں اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی بےمثال جرأت دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری دل میں ڈر گئے۔ انھیں یہ یقین ہوگیا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی دونوں اللہ کے سچے پیامبر ہیں اور وہ ان خطرات کو بھی بھانپ رہے تھے جو ان کو پیش آنے والے تھے لیکن وہ اپنی صورت حال کو رعایا سے چھپانا بھی چاہتے تھے۔ لہذا ان معجزات کو جادو قرار دے دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر۔ اور اس سے ان کا مقصد صرف اپنی رعایا کو الو بنانا تھا اور انھیں یہ تاثر دینا تھا کہ جس طرح دوسرے جادوگر شعبدہ بازیاں دکھلاتے ہیں اسی طرح کے یہ بھی شعبدے ہیں لہذا ان سے ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ ۔۔ : یہ دوسرا قصہ موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کی قوم کا ہے جو غرق ہونے میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کی مثال ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ قریش آپ کو جادوگر کہہ رہے ہیں (یہ کوئی نئی بات نہیں، جو شخص یا قوم بھی دلیل سے لاجواب ہوجائے وہ اسے جادو کہہ کر جان چھڑاتے ہیں) مگر ان میں سے بعض تو ان جادوگروں کی طرح ایمان لے آئیں گے اور جو اپنے کفر پر اڑے رہے وہ فرعون اور اس کی قوم کی طرح تباہ و برباد ہوں گے۔ ” آیَاتٌ“ سے مراد وہ نو (٩) معجزے ہیں جو سورة بنی اسرائیل (١٠١) میں ذکر ہوئے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر ان (مذکور) پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنے معجزات (عصا اور ید بیضاء) دے کر بھیجا سو انہوں نے ( دعوے کے ساتھ ہی ان کی تصدیق کرنے سے) تکبر کیا ( اور طلب حق کے لئے غور بھی تو نہ کیا) اور وہ لوگ جرائم کے خوگر تھے ( اس لئے اطاعت نہ کی) پھر جب ( بعد دعوی کے) ان کو ہمارے پاس سے ( نبوت موسویہ پر) صحیح دلیل پہنچی ( مراد اس سے معجزہ ہے) تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یقینا یہ صریح جادو ہے، مو سیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کیا یہ جا دو ہے، حالانکہ جادوگر ( جب کہ دعوی نبوت کا کریں تو اظہار معجزہ میں) کامیاب نہیں ہوا کرتے ( اور میں کامیاب ہوا کہ اول دعوی کیا پھر معجزات ظاہر کردیئے) وہ لوگ ( اس تقریر کا کچھ جواب نہ دے سکے، ویسے ہی براہ جہالت) کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے اور ( اس لئے آئے ہو کہ) تم دونوں کو دنیا میں ریاست ( اور سرداری) مل جاوے اور ( تم خوب سمجھ لو کہ) ہم تو تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے، اور فرعون نے ( اپنے سرداروں سے) کہا کہ میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو ( جو ہمارے قلمرو میں ہیں) حاضر کرو ( چناچہ جمع کئے گئے) سو جب وہ آئے ( اور موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ ہوا تو) موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم کو ( میدان میں) ڈالنا ہے، سو جب انہوں نے ( اپنا جادو کا سامان) ڈالا تو موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو کچھ تم ( بنا کر) لائے ہو جادو یہ ہے ( نہ وہ جس کو فرعون والے جادو کہتے ہیں) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ( جادو) کو ابھی درہم برہم کئے دیتا ہے ( کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا ( جو معجزہ کے ساتھ مقابلہ سے پیش آویں) اور اللہ تعالیٰ ( جس طرح اہل باطل کے باطل کو بمقابلہ معجزات حقہ کے باطل کردیتا ہے اسی طرح) دلیل صحیح ( یعنی معجزہ) کو اپنے وعدوں کے موافق ( کہ اثبات نبوت انبیاء کے متعلق ہیں) ثابت کردیتا ہے گو مجرم ( اور کافر) لوگ کیسا ہی ناگوار سمجھیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ بِاٰيٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝ ٧٥- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥) پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی کتاب یا یہ کہ اپنے نو معجزات ید عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، سنین، نقص من الثمرات یا یہ کہ مالوں کو برباد کرنے کی دعا کا حق دے کر بھیجا، سو انھوں نے کتاب خداوندی رسول اور معجزات پر ایمان لانے سے انکار کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

عام طور پر قرآن حکیم میں انباء الرسل کے ضمن میں چھ رسولوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے ‘ لیکن یہاں اختصار کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کا صرف تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس ایک آیت (٧٤) میں باقی تمام رسولوں کا نام لیے بغیر صرف حوالہ دے دیا گیا ہے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :72 اس موقع پر ان حواشی کو پیش نظر رکھا جائے جو ہم نے سورہ اعراف ( رکوع ۱۳ تا ۲۱ ) میں قصہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون پر لکھے ہیں ۔ جن امور کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ان کا اعادہ یہاں نہ کیا جائے گا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :73 یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani