Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء و اجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انھیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوں گروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورت اعراف میں گزرا اور سورت طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩١] فرعون اور درباریوں کے اس جواب سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ سیدنا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) جادوگر نہیں ہیں۔ جادوگر کو تو معاشرہ کی ایک حقیر سی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بھلا بڑائی قائم ہوسکتی ہے ؟ اور اگر وہ حقیقت کا اعتراف کرلیتے تو اپنے تمام مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔ لہذا انہوں نے وہی جواب دیا جو دلیل سے عاجز اور ضدی لوگ دیا کرتے ہیں کہ تم تو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنے آئے ہو مگر ہم تمہارے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا۔۔ : فرعون اور اس کے ساتھی اپنے شرکیہ عقائد کی وجہ سے مذہبی برتری بھی جتاتے رہتے تھے اور سرزمین مصر کی حکومت پر قبضے کی وجہ سے تمام وسائل کے مالک بن کر سیاسی طور پر بھی سب سے بڑے بنے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے یہ دو الزام دھر دیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کی ہر تحریک، پرانی ہو یا نئی، وقت کے تمام فرعون اس پر یہی الزام رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کا مقصد اصلاح نہیں، بلکہ ہماری مذہبی سیادت اور سیاسی برتری کو ختم کرنا اور اپنی حکومت قائم کرنا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بھی کہا تھا کہ یہ شخص محض تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے، فرمایا : (يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ) [ المؤمنون : ٢٤ ] ” یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے۔ “ حالانکہ انبیاء اور مصلحین محض اصلاح کے لیے آتے ہیں، اگر حکمران اسلام قبول کرلیں اور خود ہی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیں تو ان کی حکومت سے تعرض نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اس دور میں محمد بن عبد الوہاب (رض) نے ابن سعود کے ذریعے سے توحید و سنت کی دعوت کو پھیلایا، خود حکومت طلب نہیں کی، نہ ان کی اولاد میں سے کسی نے یہ خواہش یا کوشش کی۔ ابن تیمیہ (رض) نے وقت کے حاکموں کو جہاد پر ابھار کر اور ان کا ساتھ دے کر تاتاریوں کو مار بھگایا، خود کوئی عہدہ نہ طلب کیا نہ قبول کیا۔ اس لیے ہرقل نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری حکومت قائم رہے تو اسلام قبول کرلو، مگر وہ بدنصیب نکلے اور ہرقل بھی ان کی بادشاہت کے طمع میں ایمان سے محروم رہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمان ہونے والے قبائل کے سرداروں کو اور مختلف علاقوں کے مسلمان ہونے والے بادشاہوں، مثلاً ثمامہ بن اثال (رض) وغیرہ کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا۔ آخر میں فرعون کے ساتھیوں نے نہایت ڈھٹائی سے کہا کہ ہم تم دونوں کو ہرگز ماننے والے نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٧٨- لفت - يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] أي : تصرفنا، - ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا - ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- كِبْريَاءُ- والْكِبْريَاءُ : الترفع عن الانقیاد، وذلک لا يستحقه غير الله، فقال : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية 37] ولما قلنا روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم يقول عن اللہ تعالی: «الکبریاء ردائي والعظمة إزاري فمن نازعني في واحد منهما قصمته» ، وقال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس 87] ،- الکبریاء ۔ اطاعت کیشی کے درجہ سے اپنے آپ کو بلند سمجھنے کا نام کبریاء ہے ۔ اور یہ استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی حاصل ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية 37] اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کیلئے بڑائی ہے اور اس کا ثبوت اسی حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (90) الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز عنی فی واحد منھما قصمتہ کہ کیریاء میری رواء ہے اور عظمت ازار ہے ۔ جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا ۔ تو میں اس کی گردن توڑ دالوں گا۔ اور قرآن پاک میں ہے ؛ قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس 87] وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس ( راہ ) پر ہم اپنے باپ دادوں کو پاتے رہیں ہیں اس سے ہم کو پھیر دو اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨۔ ٧٩) ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ان بتوں کی پوجا سے ہٹا دو اور تم دونوں کو سرزمین مصر میں ریاست اور بادشاہت مل جائے، ہم تو تم دونوں کی کبھی تصدیق نہ کریں گے اور فرعون کہنے لگا میرے سامنے تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِط وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ )- یعنی تم دونوں (حضرت موسیٰ اور ہارون) یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتے ہو۔ اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ اہل مصر کو بندگئ رب کی جو دعوت دے رہے تھے اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی ‘ اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :76 ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور اس کے درباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمین مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی ۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اہل مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، حاشیہ نمبر ٦٦ ۔ المومن ، حاشیہ نمبر ٤۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani