موسیٰ علیہ السلام بمقابلہ فرعونی ساحرین سورہ اعراف ، سورہ طہ ، سورہ شعراء اور اس سورت میں بھی فرعونی جادو گروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ بیان فرمایا گیا ہے ۔ ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل سورہ اعراف کی تفسیر میں لکھ دی ہے ۔ فرعون نے جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ اس کے لیے انتظام کئے ۔ قدرت نے بھرے میدان میں اے شکست فاش دی اور خود جادوگر حق کو مان گئے وہ سجدے میں گر کر اللہ اور اس کے دونوں نبیوں پر وہیں ایمان لائے اور اپنے ایمان کا غیر مشتبہ الفاظ میں سب کے سامنے فرعون کی موجودگی میں اعلان کر دیا ۔ اس وقت فرعون کا منہ کالا ہو گیا اور اللہ کے دین کا بول بالا ہوا ۔ اس نے اپنی سپاہ اور جادوگروں کے جمع کرنے کا حکم دیا ۔ یہ آئے ، صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے ، فرعون نے ان کی کمر ٹھوکی انعام کے وعدے دیئے ، انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ بولو اب ہم پہلے اپنا کرتب دکھائیں یا تم پہل کرتے ہو ۔ آپ نے اسی بات کو بہتر سمجھا کہ ان کے دل کی بھڑاس پہلے نکل جائے ۔ لوگ ان کے تماشے اور بال کے ہتھکنڈے پہلے دیکھ لیں ۔ پھر حق آئے اور باطل کا صفایا کر جائے ۔ یہ اچھا اثر ڈالے گا ، اس لیے آپ نے انہیں فرمایا کہ تمہیں جو کچھ کرنا ہے شروع کر دو ۔ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں ہیبت زدہ کرنے کا زبردست مظاہر کیا ۔ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں بھی خطرہ پیدا ہوگیا فورا اللہ کی طرف سے وحی اتری کہ خبردار ڈرنا مت ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دے ۔ وہ ان کے سو ڈھکوسلے صاف کر دے گی ۔ یہ جادو کے مکر صفت ہے ۔ اس میں اصلیت کہاں انہیں فوج و فلاح کیسے نصیب ہو؟ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام سنبھل گئے اور زور دے کر پیشگوئی کی کہ تم تو یہ سب جادو کے کھلونے بنا لائے ہو دیکھنا اللہ تعالیٰ انہیں بھی درہم برہم کر دے گا ۔ تم فسادیوں کے اعمال دیر پا ہو ہی نہیں سکتے ۔ حضرت لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے حکم سے جادو کی شفا ہے ۔ ایک برتن میں پانی لے کر اس پر یہ آیتیں پڑھ کر دم کر دیں جائیں اور جس پر جادو کر دیا گیا ہو اس کے سر پر وہ پانی بہا دیا جائے ( آیت فلما القوا سے کرہ المجرمون ) تک یہ آیتیں اور ( فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١١٨ۚ ) 7- الاعراف:118 ) سے چار آیتوں تک اور ( اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69 ) 20-طه:69 ) ( ابن ابی حاتم )
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ ۔۔ : یہ قصہ تفصیل سے سورة اعراف میں گزر چکا ہے اور سورة طٰہٰ اور شعراء میں بھی آ رہا ہے۔ - مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ السِّحْرُ : یعنی جادو تو وہ ہے جو تم لائے ہو، نہ کہ وہ جو میں پیش کر رہا ہوں۔ ” المفسدین “ جادوگروں کو مفسد قرار دیا ہے جو ایک مشرک ظالم اور خدائی کے دعوے دار کی حمایت محض دنیا کے لالچ میں کر رہے تھے۔ - وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات (اپنی باتوں) کے ساتھ، یعنی ان وعدوں کے مطابق جو اس نے حق کو غالب کرنے کے متعلق کیے ہیں، حق کو سچا کردیتا ہے۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ چاہے تو اپنے کلمہ ” کُنْ “ کے ساتھ، یعنی اپنے کسی حکم کے ساتھ ظاہری اسباب کے بغیر بھی حق کو سچا کردیتا ہے، یا اپنے کلمات کی برکت سے حق کو سچا کردیتا ہے۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ ٧٩- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔