Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ٨- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اُولٰٓءِکَ مَاْوٰٹہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ” یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ آگ ہے ‘ اپنی اس کمائی کے سبب جو وہ کر رہے ہیں۔ “- جس شخص نے اپنی پوری دنیوی زندگی میں نہ اللہ کی طرف رجوع کیا اور نہ آخرت ہی کی کچھ فکر کی ‘ ساری عمر ’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ جیسے نعرے کو اپنا ماٹو بنائے رکھا ‘ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی قیود سے بےنیاز ہو کر جھوٹی مسرتیں اور عارضی خوشیاں جہاں سے ملیں ‘ جس قیمت پر ملیں حاصل کرلیں ‘ تو ایسے شخص کا آخری ٹھکانہ آگ کے سوا بھلا اور کہاں ہوسکتا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :12 یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃ بیان کر دی گئی ہے ۔ دعوی یہ ہے کہ عقیدہ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے ، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان ان برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویے کا تجربہ اس پر شاہد ہے ۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنےآپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے ، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخرکار خدا کو اپنے پورے کارنامہ حیات کا حساب دینا ہے ، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی ، آسائش ، شہرت اور طاقت حاصل کی ، اور جو اپنے انہی مادہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں ، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے ۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں ، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں ، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں ، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ یہ عقیدہ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے ۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں ، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے ۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے ، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے ۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے ۔ اگر عقیدہ آخرت حقیقت نفس الامری کے مطابق نہ ہو اور اس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے ۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے ۔ اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ اخلاق اور دستور عمل سراسر دہریت و مادہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں ۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنی تامل واضح ہو جاتی ہے ۔ تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے ۔ کہیں ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین ان ” نیکوکار“ دہریوں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبط نفس ، عفت ، حق شناسی ، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں ۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت ( ) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے ۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی ۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے ، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں اس کی ذات کی طرف ، یا اس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے ، پلٹ کر آنے کی توقع ہو ۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ ، امانت اور خیانت ، ایمانداری اور بے ایمانی ، وفا اور غدر ، انصاف اور ظلم ، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب موقع ارتکاب کرا سکتی ہے ۔ ان اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادہ پرستانہ نظریہ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سےزیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے ۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی ، انصاف پسندی ، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ ، بدعہدی ، ظلم ، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟ تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیز گاری اس کے مادہ پرستانہ نظریہ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں ۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادہ پرستی کے خزانے میں اس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani