Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نادان و محروم لوگ جو لوگ قیامت کے منکر ہیں ، جو اللہ کی ملاقات کے امیدوار نہیں ۔ جو اس دنیا پر خوش ہوگئے ہیں ، اسی پر دل لگا لیا ہے ، نہ اس زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، نہ اس زندگی کو سود مند بناتے ہیں اور اس پر مطمئن ہیں ۔ اللہ کی پیدا کردہ نشانیوں سے غافل ہیں ۔ اللہ کی نازل کردہ آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ، ان کی آخری جگہ جہنم ہے ۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے جو ان کے کفر و شرک کی جزا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] روز آخرت پر ایمان نہ ہونے سے اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں :۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ آیات میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارہ نہ کریں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کریں بس دنیا کی زندگی پر ہی مست رہیں اور اپنی ساری زندگی اسی دنیا کے کاروبار میں منہمک ہو کر گزار دیں تو ایسے لوگوں کو بھلا اخروی زندگی کا یقین کیسے آئے اور چونکہ اللہ نے انسان کو قوت تمیز، عقل اور ارادہ و تصرف کا اختیار عطا کیا ہے لہذا جو لوگ عقل کو کام میں نہ لاتے ہوئے بس دنیا میں مگن اور دنیوی مفادات کے لیے ہی سب کچھ کرتے ہیں انہیں اس غفلت کا بدلہ جہنم کی صورت میں مل کر رہے گا۔- اس آیت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ نیک اعمال صرف وہی لوگ بجالاسکتے ہیں، جو روز آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہی کے نظریہ پر یقین رکھتے ہوں گویا روز آخرت پر ایمان ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسان کی صالح طرز زندگی کی عمارت اٹھائی جاسکتی ہے اگر یہ بنیاد کمزور ہو یا موجود ہی نہ ہو تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو انسان کو بےراہروی سے محفوظ رکھ سکے۔ اندریں صورت انسان کے اچھے اخلاق یا اعمال کی پہچان صرف یہ رہ جاتی ہے کہ صرف وہ کام اچھا ہے جس کا فائدہ اس کی اپنی ذات کو، اس کی قوم کو یا معاشرہ کو اس دنیا میں پہنچ سکتا ہے غیروں کے لیے ان کے اخلاق و اعمال کی قدریں ہی بدل جاتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔۔ : آخرت کے ذکر کے بعد دو آیتوں میں اس کے منکرین اور پھر اس پر ایمان والوں کا ذکر فرمایا، آخرت کے منکروں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں، پہلی صفت ” لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا “ ” رَجَاءٌ“ کا لفظ طمع اور خوف دونوں معنوں میں آتا ہے، اس لیے ” لَا يَرْجُوْنَ “ کا مطلب ہے کہ وہ اللہ سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے، یا اس سے نہیں ڈرتے، نہ ہی آخرت میں ہونے والے حشر و نشر پر ان کا ایمان ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر وہی خوش ہوتا ہے جو پورے کا پورا جسمانی لذات و خواہشات کا اسیر ہوجائے۔ تیسری یہ کہ وہ اس پر مطمئن ہوگئے، مطمئن وہی ہوتا ہے جو اسے اپنی آخری پناہ سمجھ لے، سعادت مند لوگوں کو تو اللہ کے ذکر سے اطمینان ہوتا ہے، کیونکہ ان کی آخری پناہ گاہ وہی ہے، حیات دنیا کے فانی ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اس پر مطمئن نہیں ہوتے۔ - وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ : چوتھی یہ کہ وہ آسمان و زمین میں موجود بیشمار نشانیوں سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے، نہ ان پر کچھ غورو فکر کرتے ہیں۔ اگر ان آیات سے مراد آیات قرآنی ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ ہمارے احکام سے غفلت برتتے ہیں، نہ ان پر غور کرتے ہیں اور نہ انھیں بجا لاتے ہیں۔ (ابن کثیر) ٹھکانا ان کا ان کے اعمال بد کی وجہ سے آگ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے اور وہ دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں ( آخرت کی طلب اصلاً نہیں کرتے) اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں ( آئندہ کی کچھ خبر نہیں) اور جو لوگ ہماری آیتوں سے ( جو کہ بعثت پر دلالت کرتی ہیں) بالکل غافل ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ان کے ( ان) اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے ( اور) یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو بوجہ ان کے مومن ہونے کے ان کے مقصد ( یعنی جنت تک پہنچا دے گا، ان کے ( مسکن کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی جن کے باغوں میں ( اور جس وقت وہ جنت میں جاویں گے اور عجائبات کا دفعةً معائنہ کریں گے تو اس وقت) ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی کہ سبحان اللہ اور ( پھر جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو) ان کا باہمی سلام یہ ہوگا اسلام علیکم اور ( جب اطمینان سے وہاں جا بیٹھیں گے اور اپنے پرانے مصائب اور متاعب اور اس وقت کے غیر مکدر دائمی عیش کا موازنہ کریں گے تو) ان کی ( اس وقت کی باتوں میں) اخیر بات یہ ہوگی الحمد اللہ رب العلمین ( جیسا دوسری آیت میں ہے الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ اور حکمت کے خاص خاص مظاہر آسمان اور زمین شمس و قمر وغیرہ کی تخلیق کا ذکر کرکے عقیدہ توحید و آخرت کو ایک بلیغ انداز میں ثابت کیا گیا تھا، مذکور الصدر آیات میں سے پہلی تین آیتوں میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کائنات عالم کی ایسی کھلی کھلی نشانیوں اور شہادتوں کے باوجود، انسانوں کے دو طبقے ہوگئے، ایک وہ جس نے ان آیات قدرت کی طرف ذرا دھیان نہ دیا، نہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو پہچانا اور نہ اس پر غور کیا کہ ہم دنیا کے عام جانوروں کی طرح ایک جانور نہیں، رب العزت نے ہمیں ادراک و شعوری عقل و ہوش تمام جانوروں سے زیادہ دیا ہے اور ساری مخلوقات کو ہمارا خادم بنادیا ہے تو ہمارے ذمہ بھی کوئی کام لگایا ہوگا اور اس کا ہمیں بھی حساب دینا ہوگا جس کے لئے ضرورت ہے کہ کوئی روز حساب اور روز جزاء مقرر ہو جس کو قرآن کی اصطلاح میں قیامت اور حشر و نشر سے تعبیر کیا جاتا ہے، بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کو عام جانوروں کی سطح پر رکھا، پہلی دو آیتوں میں ان لوگوں کی خاص علامات بتلا کر ان کی سزائے آخرت کا ذکر کیا گیا ہے، فرمایا کہ جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی اور اس کی راحت و تکلیف کو بھلا کر صرف دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے۔- دوسرے یہ کہ اس دنیا میں ایسے مطمئن ہو کر بیٹھے ہیں کہ گویا یہاں سے کہیں جانا ہی نہیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں رہنا ہے، ان کو کبھی یہ دھیان نہیں آتا کہ اس دنیا سے ہر شخص کو رخصت ہونا تو ایسا بدیہی مسئلہ ہے جس میں کبھی کسی کو شبہ ہی نہیں ہوسکتا ہے، اور جب یہاں سے جانا یقینی ہے تو جہاں جانا ہے وہاں کی کچھ تیاری ہونا چاہئے “۔- تیسرے یہ کہ یہ لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں سے مسلسل غفلت ہی غفلت میں ہیں، اگر وہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی عام مخلوقات میں اور خود اپنے نفس میں ذرا بھی غور کرتے تو حقیقت حال کا سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوتا اور وہ اس احمقانہ غفلت سے نکل سکتے تھے۔- ایسے لوگ جن کی یہ علامات بتلائی گئیں ان کی سزا آخرت میں یہ ہے کہ ان کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے اور یہ سزا خود ان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے۔- افسوس ہے کہ قرآن کریم نے جو علامات کفار و منکرین کی بتلائی ہیں آج ہم مسلمانوں کا حال ان سے کچھ ممتاز نہیں، ہماری زندگی اور ہمارے شب و روز کے اشغال و افکار کو دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ ہمیں اس دنیا کے سوا اور بھی کوئی فکر لگی ہوئی ہے اور اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو پکا اور سچا مسلمان باور کئے ہوئے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ سچے اور پکے مسلمان جیسے کہ ہمارے اسلاف تھے ان کے چہرے دیکھ کر خدا یاد آتا اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی ہستی کا خوف اور کسی حساب کی فکر دل میں رکھتے ہیں، اور تو اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی باوجود گناہوں سے معصوم ہونے کے یہی حال تھا، شمائل ترمذی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اوقات غمگین اور متفکر نظر آتے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۝ ٧ ۙ- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، - اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧۔ ٨) جن لوگوں کو مرنے کے بعد کا ڈر نہیں اور مرنے کے بعد کا وہ اقرار نہیں کرتے اور آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کو انہوں نے اختیار کررکھا ہے اور اس پر وہ خوش ہوگئے اور جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر ہیں اور اس سے روگردانی کر رہے ہیں، ان لوگوں کا ٹھکانا انکے اقوال اور اعمال شرکیہ کی وجہ سے جہنم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا) ” بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں “- یہاں پر یہ نکتہ نوٹ کریں کہ یہ الفاظ اس سورت میں باربار دہرائے جائیں گے۔ اصل میں یہ ایسی انسانی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ یہ انسانی زندگی جو ہم اس دنیا میں گزار رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے اسے محاورۃً ” چار دن کی زندگی “ قرار دیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔ نے بھی کہا ہے ؂- عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن - دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں - اگر انسان اس دنیا میں طویل طبعی عمر بھی پائے تو اس کا ایک حصہ بچپن کی ناسمجھی اور کھیل کود میں ضائع ہوجاتا ہے۔ شعور اور جوانی کی عمر کا تھوڑا سا وقفہ اس کے لیے کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی بڑھاپا اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے (لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا ط) (النحل : ٧٠) کی جیتی جاگتی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا انسانی زندگی کی حقیقت بس یہی ہے ؟ اور کیا اتنی سی زندگی کے لیے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا جاتا ہے ؟ انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے کے چند ماہ وسال کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ علامہ اقبالؔ کے بقول : ؂- تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ - جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی - اوراقبالؔ ہی نے اس سلسلے میں انسانی ناسمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے : ؂- تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا - ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے - اس لامتناہی سلسلۂ زندگی میں سے ایک انتہائی مختصر اور عارضی وقفہ یہ دنیوی زندگی ہے جو اللہ نے انسان کو آزمانے اور جانچنے کے لیے عطا کی ہے : (اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط) (الملک : ٢) ۔ جبکہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور وہ بہت طویل ہے۔ جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ ٧ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) ” اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے ‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا “ مگر وہ لوگ جن کا ذہنی افق تنگ اور سوچ محدود ہے ‘ وہ اسی عارضی اور مختصر وقفۂ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؔ :- کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے - مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق - اصل اور دائمی زندگی کی عظمت اور حقیقت ایسے لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ - (وَرَضُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَ نُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ) ” اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں ‘ اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ “- انسانوں کے اندر اور باہر اللہ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں اور ان کی فطرت انہیں بار بار دعوت فکر بھی دیتی ہے : ؂- کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ - مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ - مگر وہ لوگ شہوات نفسانی کے چکروں میں اس حدتک غلطاں و پیچاں ہیں کہ انہیں آنکھ کھول کر انفس و آفاق میں بکھری ہوئی ان لاتعداد آیات الٰہی کو ایک نظر دیکھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani