[١١] چاند اور سورج کی گردش کے صرف وہی فوائد نہیں جو اوپر مذکور ہوئے بلکہ انہی کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں اور انہی سے ہمیں دن اور رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے انہی سے موسم بنتے ہیں فصلیں پکتی ہیں۔ چاند جن دنوں میں زائد النور ہوتا ہے، پھلوں میں رس تیزی سے بڑھتا ہے اور جب ناقص النور ہوتا ہے تو یہ رفتار سست پڑجاتی ہے وغیرہ وغیرہ، ان سب امور میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کی بیشمار نشانیاں ہیں اور جو لوگ ان میں غور و فکر کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ لہذا وہ اللہ کی نافرمانی سے خوف کھانے لگتے ہیں۔
اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔۔ : سورج روزانہ نئی جگہ سے طلوع اور نئی جگہ غروب ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رب المشارق (بہت سے مشرقوں کا رب) ہے۔ اسی سے دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا، موسموں کا بدلنا، ٹھیک وقت پر شمسی سال کے لحاظ سے سال کے بعد وہی موسم دوبارہ آجانا اور زمین و آسمان میں موجود اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بیشمار چیزوں میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں ہیں، مگر ان کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور برے انجام سے بچتے ہیں۔ ان نشانیوں کی تفصیل چاہو تو ہر قدم پر اور ہر لمحہ تمہارے سامنے ہیں، مگر جو منہ ہی موڑ لے اس کا کیا علاج ؟ دیکھیے سورة یوسف (١٠٥) موٹی موٹی نشانیوں کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤) ۔
اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے ( توحید و آخرت کے) دلائل ہیں جو خدا تعالیٰ کا ڈر مانتے ہیں۔- توحید کے دلائل تو قدرت و صنعت کی یکتائی اور بغیر کسی امداد کے ان تمام چیزوں کو پیدا کرنا اور ایسے نظام کے ساتھ چلانا ہے جو نہ کبھی ٹوٹتا ہے نہ بدلتا ہے۔- اور آخرت کے دلائل اس لئے ہیں کہ جس ذات حکیم نے ان تمام چیزوں کو انسانوں کے فائدہ کے لئے بنایا اور ایک محکم نظام کا پابند کیا، اس سے یہ ممکن نہیں کہ اس مخدوم کائنات کو اس نے بےفائدہ محض کھانے پینے کے لئے پیدا کیا ہو، اس کے ذمہ کچھ فرائض نہ لگائے ہوں، اور جب یہ لازم ہوا کہ اس مخدوم کائنات پر بھی کچھ پابندیاں ہونا ضروری ہے تو یہ بھی لازم ہوا کہ ان پابندیوں کو پورا کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کا کبھی کہیں حساب ہو، کرنے والوں کو اچھا بدلہ ملے اور نہ کرنے والوں کو سزا، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس دنیا میں تو جزا و سزا کا یہ دستور نہیں، یہاں تو مجرم بسا اوقات متقی پارسا سے زیادہ اچھی زندگی گزارتا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ حساب اور جزاء و سزا کا کوئی دن مقرر ہو، اسی کا نام قیامت اور آخرت ہے۔
اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ ٦- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(٦) بلاشبہ دن اور رات کی تبدیلی اور ان کی کمی بیشی اور ان کے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں چاند سورج اور ستارے وغیرہ اور جو کچھ زمین میں درخت، جانور، پہاڑ اور دریا پیدا کیے ان سب میں وحدانیت خداوندی کے دلائل ہیں ان لوگوں کے واسطے جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔
آیت ٦ (اِنَّ فِی اخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ) ان نشانیوں سے وہی لوگ سبق حاصل کرکے مستفیض ہوسکتے ہیں جن کے اندر خوف خدا ہے اور ان کی اخلاقی حس بیدار ہوتی ہے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :11 یہ عقیدہ آخرت کی تیسری دلیل ہے ۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طر ف نظر آرہے ہیں ، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند ، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں ، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے ۔ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے ، حکمت ہے ، مصلحتیں ہیں ، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں ، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازما پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا ۔ اس طرح ان آیات میں عقیدہ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں: اول یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے ۔ دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے ۔ سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقینا پوری کی جائےگی ، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے ۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کر نے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں ۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے ، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے ، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے ۔ لیکن یہ کسر بہرحال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی ، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے ۔ فرمایا کہ ” اللہ کی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں“ اور” اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں“ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں ۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں: ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کر نے کے ان ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں ۔