Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ عزوجل کی عظمت و قدرت کے ثبوت مظاہر کائنات اس کی کمال قدرت ، اس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ چمکیلا آفتاب ہے اور یہ روشن ماہتاب ہے ۔ یہ اور ہی فن ہے اور وہ اور ہی کمال ہے ۔ اس میں بڑا ہی فرق ہے ۔ اس کی شعاعیں جگمگا دیں اور اس کی شعاعیں خود منور رہیں ۔ دن کو آفتاب کی سلطنت رہتی ہے ، رات کو ماہتاب کی جگمگاہٹ رہتی ہے ، ان کی منزلیں اس نے مقرر کر رکھی ہیں ۔ چاند شروع میں چھوٹا ہوتا ہے ۔ چمک کم ہوتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور روشن بھی ہوتا ہے پھر اپنے کمال کو پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتا ہے واپسی اگلی حالت پر آجاتا ہے ۔ ہر مہینے میں اس کا یہ ایک دور ختم ہوتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑلے ، نہ چاند سورج کی راہ روکے ، نہ دن رات پر سبقت کرے نہ رات دن سے آگے بڑھے ۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پابندی سے چل پھر رہا رہے ۔ دور ختم کر رہا ہے ۔ دونوں کی گنتی سورج کی چال پر اور مہینوں کی گنتی چاند پر ہے ۔ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ بحکمت ہے ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزیں باطل پیدا شدہ نہیں ۔ یہ خیال تو کافروں کا ہے ۔ جن کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں یونہی پیدا کر دیا ہے اور اب تم ہمارے قبضے سے باہر ہو ۔ یاد رکھو میں اللہ ہوں ، میں مالک ہوں ، میں حق ہوں ، میرے سوا کسی کی کچھ چلتی نہیں ۔ عرش کریم بھی منجملہ مخلوق کے میری ادنیٰ مخلوق ہے ۔ حجتیں اور دلیلیں ہم کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں کہ اہل علم لوگ سمجھ لیں ۔ رات دن کے رد و بدل میں ، ان کے برابر جانے آنے میں رات پر دن کا آنا ، دن پر رات کا چھا جانا ، ایک دوسرے کے پیچھے برابر لگا تار آنا جانا اور زمین و آسمان کا پیدا ہونا اور ان کی مخلوق کا رچایا جانا یہ سب عظمت رب کی بولتی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ ان سے منہ پھیر لینا کوئی عقلمندی کی دلیل نہیں یہ نشانات بھی جنہیں فائدہ نہ دیں انہیں ایمان کیسے نصیب ہوگا ؟ تم اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہو ۔ عقلمندوں کے لیے یہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ کہ وہ سوچ سمجھ کر اللہ کے عذابوں سے بچ سکیں اور اس کی رحمت حاصل کر سکیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذانور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکما کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر) 5۔ 2 یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ 28 منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریخ بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہوجاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہر چیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال 12 مہینے کا، مہینہ 29، 30 دن کا ایک دن 24 گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں 12، 12 گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دینوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] ضیاء اور نور کا فرق :۔ ضیاء اور نور میں فرق یہ ہے کہ نور کا لفظ عام ہے اور ضیاء کا خاص۔ گویا ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے نور میں روشنی اور چمک ہوتی ہے جبکہ ضیاء میں روشنی اور چمک کے علاوہ حرارت، تپش اور رنگ میں سرخی بھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے عموماً ضیاء کا لفظ سورج کی روشنی کے لیے اور نور کا لفظ چاند کی روشنی کے لیے استعمال فرمایا ہے۔- [٨] چاند کی منزلیں :۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق ہئیت دانوں نے آسمان پر چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر کر رکھی ہیں دور نبوی میں یہی نظریہ ہیئت مقبول عام تھا اور درس گاہوں میں اسی نظریہ کی درس و تدریس ہوتی تھی۔ لہذا اس آیت میں اگر وہی ٢٨ منزلیں مراد لی جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء منازل قمر سے اشکال قمر مراد لیتے ہیں اور ان کی یہ دلیل ایک دوسری آیت ( وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ 39؀) 36 ۔ يس :39) سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں ہلال (نئے یا پہلی رات کے چاند) کا ذکر کیا گیا ہے۔- [٩] قمری تقویم اور اس کی خصوصیات :۔ اس سے معلوم ہوا کہ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے شمسی نہیں۔ لہذا جہاں بھی ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا شمار ہوگا شرعی نقطہ نگاہ سے وہ قمری تقویم کے مطابق ہی ہوگا جیسے ایام عدت و رضاعت، معاہدات میں مدت کی تعیین وغیرہ نیز احکام اسلام مثلاً حج، روزہ، حرمت والے مہینے، عیدین سب کا تعلق قمری تقویم سے ہے قمری تقویم کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ سادہ اور فطری تقویم ہے جو انسانی دستبرد (مثلاً کبیسہ اور اس کی اقسام مختلف) سے پاک ہے اس میں مہینہ کے دنوں کی تعداد کو بدلا نہیں جاسکتا اس میں سال ہمیشہ بارہ ہی ماہ کا ہوگا اور اس میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے مساوات اور ہمہ گیری کا اصول کار فرما ہے، اور اس پر دنیوی رسم و رواج اور اغراض اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف الشمس والقمر بحسبان ملاحظہ فرمائیے)- [١٠] سورج اور چاند کی کی گردش کے فوائد :۔ یعنی سورج اور چاند کی مقررہ حساب کے مطابق گردش بلامعنی نہیں بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات اور کاروبار کے اوقات سورج کی گردش سے متعین کرسکتے ہو، اور جب مدت کا شمار صرف ایک ماہ سے کم ہوگا تو یہ مدت سورج سے متعین ہوسکتی ہے اور چاند سے بھی، مگر جب یہ مدت ایک ماہ سے زائد ہوگی تو اس کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا جس کی تقسیم انسانی دستبرد سے محفوظ ہے اس طرح تم مدت کا صدیوں تک کا حساب رکھ سکتے ہو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سورج، چاند اور دیگر ستاروں کی گردش کا نظام اس قدر مربوط، منظم اور فرمان الٰہی کا پابند ہے کہ اس میں ایک لمحہ کی تقدیم و تاخیر ناممکن ہے۔ اور اس طرح تم آئندہ بھی صدیوں تک کے لیے تقویم تیار کرسکتے ہو اور تیسرا سب سے اہم اور حقیقی فائدہ یہ ہے کہ تم ان چیزوں کو پیدا کرنے والی انہیں اپنی گردش میں اس طرح جکڑ بند کرنے والی ہستی کے تصرف اور اختیار پر غور کرو اور دیکھو جو ہستی اتنے اتنے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے سکتی ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی، یہ گویا معاد پر دوسری دلیل ہوئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً ۔۔ : ” ضِيَاۗءً “ ” ضَاءَ یَضُوْءُ ضَوْءً ا وَ ضِیَاءً “ سے ہے اور ” قِیَامًا “ کی طرح مصدر ہے، بعض کہتے ہیں یہ ” ضَوْءٌ“ کی جمع ہے، جیسا کہ ” سَوْطٌ۔ “ کی جمع ” سِیَاطٌ“ یعنی سورج کو ” ذَاتَ ضِیَاءٍ “ تیز روشنی والا اور چاند کو ” ذَا نُوْرٍ “ نور والا بنایا، پھر ” ذَاتَ “ اور ” ذَا “ کو حذف کرکے مبالغہ کے لیے سورج کو سراپا ضیاء اور چاند کو سراپا نور قرار دیا۔ ضیاء اور نور میں وہی فرق ہے جو سورج کی تیز اور گرم روشنی اور چاند کی پر سکون روشنی میں ہوتا ہے۔ انسان اور کائنات کی حرکت و سکون کے لیے دن اور رات کی طرح سورج اور چاند بھی ضروری ہیں۔ - وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ ۔۔ : یعنی چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں کہ ہر روز گھٹتا اور بڑھتا ہے، اگرچہ سورج کی بھی منزلیں مقرر ہیں، جس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے، مگر چاند کا اٹھائیس منزلوں میں روزانہ شکل بدل کر آنا، پھر ایک یا دو دن چھپ کرنئے سرے سے طلوع ہونا تاریخ اور ماہ و سال کی تعیین کے لیے زیادہ آسان اور قابل عمل ہے۔ اس لیے شریعت کے تمام احکام مثلاً حج، روزہ اور کفارہ وغیرہ بھی اسی سے متعلق ہیں۔ دیکھیے (یَسْئَلٗوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃ) [ البقرۃ : ١٨٩ ] کی تفسیر۔- مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بالْحَقِّ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بےفائدہ اور بےمقصد پیدا نہیں فرمایا۔ یہ تفصیل علم و فہم رکھنے والوں کے لیے ہے، کیونکہ بےعلم اور بےسمجھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کے بیان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو ( بھی) نورانی بنایا اور اس ( کی چال) کے لئے منزلیں مقرر کیں (کہ ہر روز ایک منزل قطع کرتا ہے) تاکہ ( ان اجرام کے ذریعہ سے) تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بےفائدہ نہیں پیدا کیں، وہ یہ دلائل ان لوگوں کو صاف بتلا رہے ہیں جو دانش رکھتے ہں، بلاشبہ رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے ( توحید کے) دلائل ہیں جو ( خدا کا) ڈر مانتے ہیں۔- معارف و مسائل - ان آیتوں میں کائنات عالم کی بہت سی نشانیاں مذکور ہیں جو اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر شاہد اور اس کے دلائل ہیں کہ رب العزت اس پر پوری طرح قادر ہے کہ اس عالم کو فنا کرنے اور ذرہ ذرہ کردینے کے بعد پھر ان ذرات کو جمع کردے اور از سرنو ان سب کو زندہ کردے اور حساب و کتاب کے بعد جزاء و سزاء کا قانون نافذ کردے اور یہ کہ یہی عقل و حکمت کا مقتضی ہے اس طرح یہ آیتیں اس اجمال کی تفصیل ہیں جو گذشتہ تیسری آیت میں آسمان و زمین کی چھ دن میں پیدائش اور پھر اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ کے بعد يُدَبِّرُ الْاَمْرَ کے الفاظ میں بیان کیا تھا کہ اس نے عالم کو صرف پیدا کرکے نہیں چھوڑ دیا بلکہ ہر وقت ہر آن میں ہر چیز کا نظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔- اسی نظام و انتظام کا ایک جزء یہ ہے (آیت) ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا، ضیاء اور نور دونوں کے معنی چمک اور روشنی کے ہیں اسی لئے بہت سے ائمہ لغت نے ان دونوں لفظوں کو مرادف کہا ہے، علامہ زمخشری اور طیبی وغیرہ نے فرمایا کہ اگرچہ روشنی کے معنی ان دونوں لفظوں میں مشترک ہیں مگر لفظ نور عام ہے، ہر قوی و ضعیف ہلکی اور تیز روشنی کو نور کہا جاتا ہے اور ضوء و ضیاء قوی اور تیز روشنی کو کہتے ہیں، انسان کو دونوں قسم کی روشنیوں کی ضرورت پڑتی ہے، عام کاروبار کے لئے دن کو بھی صرف چاند کی پھیکی روشنی رہے تو کاروبار میں خلل آئے اور رات کو بھی آفتاب چمکتا رہے تو نیند اور رات کے مناسب کاموں میں خلل آئے، اس لئے قدرت نے دونوں طرح کی روشنی کا انتظام اس طرح فرمایا کہ آفتاب کی روشنی کو ضوء و ضیاء کا درجہ دیا اور کاروبار کے وقت اس کا ظہور فرمایا اور چاند کی روشنی کو ہلکی اور پھیکی روشنی بنایا اور رات کو اس کا محل ظہور بنایا۔- قرآن کریم نے شمس و قمر کی روشنیوں میں فرق و امتیاز کو متعدد جگہ مختلف عنوانات سے بیان فرمایا ہے، سورة نوح میں ہے (آیت) وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا، سورة فرقان میں فرمایا (آیت) وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا، سراج کے معنی چراغ کے ہیں اور چونکہ چراغ کا نور ذاتی ہوتا ہے کسی دوسری چیز سے حاصل کردہ نہیں ہوتا اس لئے بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ضیاء کسی چیز کی ذاتی روشنی کو کہتے ہیں اور نور اس کو جو دوسرے سے مستفاد اور حاصل کردہ ہو، مگر یہ بظاہر یونانی فلسفہ سے متاثر ہو کر کہا گیا ہے ورنہ لغت میں اس کی کوئی اصل نہیں، اور قرآن کریم نے بھی اس کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا۔- زجاج نے لفظ ضیاء کو ضوء کی جمع قرار دیا ہے، اس کی رو سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ روشنی کے ساتھ مشہور رنگ اور قسمیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں آفتاب ان تمام اقسام کا جامع ہے جو بارش کے بعد قوس قزح میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ( منار) ۔- نظام شمس و قمر میں آیات قدرت کا ایک دوسرا مظاہرہ یہ ہے (آیت) وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ، قدر لفظ تقدیر سے بنا ہے، تقدیر کے معنٰی کسی چیز کو زمانہ یا مکان یا صفات کے اعتبار سے ایک مخصوص مقدار اور پیمانہ پر رکھنے کے ہیں، رات اور دن کے اوقات کو ایک خاص پیمانہ پر رکھنے کے لئے قرآن کریم نے فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ يُقَدِّرُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ، مکانی فاصلے اور مسافت کو ایک خاص پیمانہ پر رکھنے کے لئے دوسری جگہ ملک شام اور سباء کی درمیانی بستیوں کے متعلق فرمایا (آیت) وَّقَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَ ، اور عام مقادیر کے متعلق فرمایا (آیت) وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا۔- لفظ منازل منزل کی جمع ہے جس کے اصلی معنی جائے نزول کے ہیں، اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر دونوں کی رفتار کے لئے خاص حدود مقرر فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک کو منزل کہا جاتا ہے، چاند چونکہ اپنا دورہ ہر مہینہ میں پورا کرلیتا ہے اس لئے اس کی منزلیں تیس (٣٠) یا انتیس (٢٩) ہوتی ہیں مگر چونکہ ہر مہینہ میں چاند کم ازکم ایک دن غائب رہتا ہے اس لئے عموما چاند کی منزلیں اٹھائیس کہی جاتی ہیں، اور آفتاب کا دورہ سال بھر میں پورا ہوتا ہے اس کی منزلیں تین سو ساٹھ یا پینسٹھ ہوتی ہیں، قدیم جاہلیت عرب میں بھی اور اہل ہیئت و ریاضی کے نزدیک بھی ان منزلوں کے خاص خاص نام ان ستاروں کی مناسبت سے رکھ دیئے گئے ہیں جو ان منازل کی محاذات میں پائے جاتے ہیں، قرآن کریم ان اصطلاحی ناموں سے بالاتر ہے، اس کی مراد صرف وہ فاصلے ہیں جن کو شمس و قمر خاص خاص دنوں میں طے کرتے ہیں۔- آیت مذکورہ میں قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ بضمیر مفرد استعمال کیا ہے، حالانکہ منزلیں شمس و قمر دونوں کی ہیں، اس لئے بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اگرچہ ذکر مفرد کا ہے مگر مراد ہر ہر واحد کے اعتبار سے دونوں ہیں جس کی نظائر قرآن اور عربی محاورات میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اگرچہ منزلیں اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر دونوں ہی کے لئے قائم فرما دی ہیں مگر اس جگہ بیان صرف چاند کی منازل کا مقصود ہے اس لئے قَدَّرَهٗ کی ضمیر قمر کی طرف راجع ہے، وجہ تخصیص کی یہ ہے کہ آفتاب کی منزلیں تو آلات رصدیہ اور حسابات کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتیں اس کا طلوع و غروب ایک ہی ہیئت میں سال کے تمام ایام میں ہوتا رہتا ہے، مشاہدہ سے کسی کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ آج آفتاب کون سی منزل میں ہے، بخلاف چاند کے کہ اس کے حالات ہر روز مختلف ہوتے ہیں آخر ماہ میں با لکل نظر نہیں آتا، اس طرح کے تغیرات کے مشاہدہ سے بےعلم لوگ بھی تاریخوں کا پتہ چلا سکتے ہیں، مثلاً آج مارچ کی آٹھ تاریخ ہے کوئی شخص آفتاب کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ آٹھ ہے یا اکیس بخلاف چاند کے کہ اس کو دیکھ کر بھی تاریخ کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔- آیت مذکورہ میں چونکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نشانیوں سے انسان کا یہ فائدہ بھی وابستہ ہے کہ ان کے ذریعہ وہ سال اور مہینہ اور اس کی تاریخوں کا حساب معلوم کرے اور یہ حساب بھی اگرچہ شمس و قمر دونوں ہی سے معلوم ہوسکتا ہے اور دنیا میں دونوں طرح کے سال اور مہینے شمسی اور قمری قدیم زمانہ سے معروف بھی ہیں، اور قرآن کریم نے بھی سورة اسراء کی آیت ١٢ میں فرمایا (آیت) وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ، اس میں اٰيَةَ الَّيْلِ سے مراد چاند اور اٰيَةَ النَّهَارِ سے مراد آفتاب ہے، اور دونوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان سے تم سالوں کا عدد اور مہینوں کی تاریخوں کا حساب معلوم کرسکتے ہیں، اور سورة رحمن میں فرمایا (آیت) اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ ، جس میں بتلایا گیا ہے کہ شمس و قمر دونوں کے ذریعہ تاریخ مہینہ اور سال کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے۔- لیکن قمر کے ذریعہ مہینہ اور تاریخ کا حساب مشاہدہ اور تجربہ سے معلوم ہے بخلاف شمس کے کہ اس کے حسابات سوائے ریاضی والوں کے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، اس لئے اس آیت میں شمس و قمر دونوں کا ذکر کرنے کے بعد جب ان کی منازل مقرر کرنے کا ذکر فرمایا تو بضمیر مفرد قدرہ ارشاد فرما کر منازل صرف قمر کی بیان فرمائی گئیں۔- اور چونکہ احکام اسلام میں ہر جگہ ہر موقع پر اس کی رعایت رکھی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی شخص کے لئے آسان ہو خواہ وہ کوئی لکھا پڑھا آدمی ہو یا ان پڑھ شہری ہو یا دیہاتی، اسی لئے عموماً احکام اسلامیہ میں قمری سن اور مہینہ اور تاریخوں کا اعتبار کیا گیا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، اور عدت وغیرہ اسلامی فرائض و احکام میں قمری حساب ہی رکھا گیا ہے۔- اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے مگر اپنے کاروبار، تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے، شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے تاکہ رمضان اور حج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری وغیرہ کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں، فقہاء رحمہم اللہ نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔- اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ سنت انبیاء اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین میں قمری ہی حساب استعمال کیا گیا ہے اس کا اتباع موجب برکت وثواب ہے۔- غرض آیت مذکورہ میں اللہ جل شانہ کی قدرت اور حکمت کاملہ کا بیان ہے کہ اس نے روشنی کے دو عظیم الشان خزانے مناسب حال پیدا فرمائے اور پھر ہر ایک کی رفتار کے لئے ایسے پیمانے مقرر فرما دیئے جن سے سال مہینہ تاریخ اور اوقات کے ایک ایک منٹ کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے، نہ کبھی ان کی رفتار میں فرق آتا ہے نہ کبھی آگے پیچھے ہوتے ہیں، نہ ان خدا ساز مشینوں میں کبھی مرمت کا وقفہ ہوتا ہے نہ ان کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، نہ وہ کبھی گھستی ٹوٹتی ہیں، جس شان سے ازل میں چلا دیا تھا چل رہی ہیں۔- اس کے بعد آخر آیت میں اسی پر مزید تنبیہ کے لئے فرمایا (آیت) مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، یعنی ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے بےفائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان میں بڑی بڑی حکمتیں اور انسان کے لئے بیشمار فوائد مضمر ہیں، وہ یہ دلائل ان لوگوں کو صاف صاف بتلا رہے ہیں جو عقل و دانش رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ۝ ٠ ۭ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ۝ ٠ ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝ ٥- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- ضوأ - الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ- [ الأنبیاء 48] .- ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- ( منازل)- ، جمع منزل، اسم مکان من نزل ينزل باب ضرب وزنه فعل بکسر العین لأن مضارعه مکسور العین .- ( عدد) ، الاسم من عدّ يعدّ باب نصر وزنه فعل بفتحتین، جمعه أعداد زنة أفعال .- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) تاکہ اس طرح لوگوں کو جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور حقوق اللہ انصاف کے ساتھ ادا کیے ایسے لوگوں کو بدلہ میں جنت دے اور جن لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا ان کو کھولتا ہوا پانی ملے گا اور ایسا دردناک عذاب ہوگا جس کی شدت ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی کیوں کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتے تھے۔- وہ اللہ ایسا ہے جس نے تمام جہانوں کو دن میں روشنی کے لیے سورج اور ررات کو روشنی کے لیے چاند دیا اور ان کی چال کے لیے منزلیں رکھیں تاکہ تم برسوں مہینوں اور دونوں کی گنتی اور حساب رکھ سکو۔- یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے بیان کرنے کے لیے پیدا کی ہیں اور یہ دلائل قرآنیہ ان لوگوں کو جو کہ تصدیق کرتے ہیں، واضح علامات توحید بیان کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا) ” وہی ہے جس نے بنایا سورج کو چمکدار اور چاند کو نور “- یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ سورج کے اندر جاری احتراق یعنی جلنے ( ) کے عمل کی وجہ سے جو روشنی پیدا ( ) ہو رہی ہے اس کے لیے ” ضیاء “ جبکہ منعکس ( ) ہو کر آنے والی روشنی کے لیے ” نور “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورج اور چاند کی روشنی کے لیے قرآن حکیم نے دو مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں ‘ اس لیے کہ سورج کی اپنی چمک ہے اور چاند کی روشنی ایک انعکاس ہے۔- (وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط) ” اور اس نے اس (چاند) کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تمہیں معلوم ہو گنتی برسوں کی اور تم (معاملات زندگی میں) حساب کرسکو۔ “- (مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ الاَّ بالْحَقِّج یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) ” اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ ‘ اور وہ تفصیل بیان کرتا ہے اپنی آیات کی ان لوگوں کے لیے جو علم حاصل کرنا چاہیں۔ “- یعنی یہ کائنات ایک بےمقصد تخلیق نہیں بلکہ ایک سنجیدہ ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: اس کائنات کے جن حقائق کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے اس سے دو باتیں ثابت کرنی مقصود ہوتی ہیں، ایک یہ کہ کائنات کا یہ محیر العقول نظام جس میں چاند سورج ایسے نپے تلے حساب کے پابند ہو کر اپنا کام کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی نشانی ہے، اس بات کو مشرکین عرب بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو ذات اتنے عظیم الشان کاموں پر قادر ہو اسے اپنی خدائی میں آخر کسی اور شریک کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے، لہذا یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی دیتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ساری کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی، اگر اس دنیوی زندگی کے بعد آخرت کی ابدی زندگی نہ ہو جس میں نیک لوگوں کو اچھا صلہ اور برے لوگوں کو برائی کا بدلہ نہ ملے تو اس کائنات کی پیدائش بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے، لہذا یہی کائنات توحید کے ساتھ ساتھ آخرت کی ضرورت بھی ثابت کرتی ہے۔