Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوم فرعون سے بنی اسرائی کی نجات بنی اسرائیل کی فرعون اور فرعون کی قوم سے نجات پانا ، اس کی کیفیت بیان ہو رہی ہے دونوں نبیوں کو اللہ کی وحی ہوئی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بنالو ۔ اور اپنے گھروں کو مسجدیں مقرر کر لو ۔ اور خوف کے وقت گھروں میں نماز ادا کر لیا کرو ۔ چنانچہ فرعون کی سختی بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس لیے انہیں کثرت سے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا ۔ یہی حکم اس امت کو ہے کہ ایمان دار و صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی فوراً نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ۔ یہاں بھی حکم ہوتا ہے کہ اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مومنوں کو تم بشارت دو انہیں دار آخرت میں ثواب ملے گا اور دنیا میں ان کی تائید و نصرت ہوگی ۔ اسرائیلیوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ فرعونیوں کے سامنے ہم اپنی نماز اعلان سے نہیں پڑھ سکتے تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھر قبلہ رو ہو کر وہیں نماز ادا کر سکتے ہو اپنے گھر آمنے سامنے بنانے کا حکم ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو ہی مسجدیں بنا لو اور ان کا رخ اپنے قبلے (بیت المقدس) کی طرف کرلو تاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے باہر عبادت خانوں غیرہ میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم و ستم کا ڈر رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] دین کی سربلندی کے لئے جماعتی نظم ونسق اور جماعتی نظم ونسق کے لئے مساجد اور اقامت الصلوٰۃ دونوں ضروری ہیں :۔ طاغوتی اور لادینی حکومتوں میں بھی ان کی رعایا کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق مراسم و عبادات بجا لانے کی اجازت ہوا کرتی ہے اور ایسی عبادت کو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک ذاتی معاملہ کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے ایسی آزادی سے حکومتوں کو کچھ نقصان بھی نہیں ہوتا اور اگر وہ اتنی آزادی بھی نہ دیں تو حکومتیں چل بھی نہیں سکتیں حکومتوں کو اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ مذہبی لوگ سیاست میں دخل دینے لگیں اور انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں سے ٹکر لینے کے لیے مسلمانوں میں جماعتی نظام پیدا کرتے ہیں اور اس تنظیم کا اولین مرکز مسجد ہوتی ہے فرعون کے زمانہ میں بھی سیدنا موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے نوجوان اور کمزور ہمت بوڑھے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے جب ان لوگوں نے کافروں سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پیغمبروں کی طرف وحی کی کہ اگر اللہ کی مدد چاہتے ہو تو جماعتی نظم و نسق قائم کرو، چند گھروں کو مسجد کے طور پر منتخب کرلو اور نماز باجماعت کا اہتمام کرو یہی مساجد تمہاری عبادت، تمہاری معاشرت، تمہاری معیشت اور تمہاری سیاست کے بھی مرکز ہوں گے اس طرح جب تم ایک دوسرے کے معاون و رفیق بن جاؤ گے اور خود کو ایک جماعتی نظم میں منسلک کرلو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہاری دعاؤں کو ضرور قبول فرمائے گا اور اسی صورت میں تم کامیاب ہوسکو گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ ۔۔ : ہماری امت کی خصوصیت ہے کہ اس کے لیے پوری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ مسلمان کو جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ سہولت نہ تھی، بلکہ عبادت کے لیے مقررہ مقامات ہی میں نماز پڑھنا ضروری تھا، خواہ آپ اسے مسجد کہہ لیں یا کنیسہ۔ فرعون کو بنی اسرائیل کا جمع ہونا کسی طرح برداشت نہ تھا، خصوصاً جو مقام فرعون کی ربوبیت کے انکار کا اور اکیلے اللہ کی ربوبیت اور عبادت کا نشان ہو اور ایک اللہ کے پرستار بنی اسرائیل روزانہ کئی مرتبہ وہاں جمع ہوتے ہوں۔ اس لیے ان آیات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون نے ان کے عبادت خانوں میں جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ مصر میں کچھ گھروں کو اپنی نماز کی جگہ مقرر کرلو اور اپنے گھر قبلہ رخ بنا لو۔ اس سے کسی حد تک اجتماع کا موقع بھی ملتا رہے گا، باہمی ملاقات سے محبت بھی بڑھتی رہے گی اور نماز باجماعت بھی ہوتی رہے گی اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل سے مسجدوں میں جانے کی پابندی اضطرار کی بنا پر ختم کردی گئی، البتہ نماز پھر بھی ہر جگہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملی، بلکہ اپنے گھر قبلہ رخ بنا کر ان میں چھپ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام گھر قبلہ رخ بنانے کا حکم ہوا مگر نماز کے لیے چند گھر مخصوص تھے، جن کا صرف مسلمانوں کو علم تھا، اگر کسی گھر کا راز فاش ہوجاتا تو دوسرا کوئی گھر مقرر کرلیا جاتا اور تمام گھروں کے قبلہ رخ ہونے کی وجہ سے کوئی دشواری پیش نہ آتی۔ دلیل اس کی ایک تو یہ ہے کہ فرمایا : (نْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا) ” بُیُوْتاً “ یعنی پوری قوم کے لیے چند گھروں کو ٹھکانا مقرر کرلو۔ دوسری یہ کہ حکم تھا : (وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ) اور اقامت صلوٰۃ صفوں کی درستگی کے بغیر نہیں ہوتی جو جماعت کی صورت ہی میں بنتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوْفِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلاَۃِ ) [ بخاری، الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ : ٧٢٣، عن أنس ] ” اپنی صفیں برابر کرو، کیونکہ صفیں برابر کرنا اقامت صلاۃ کا حصہ ہے “ تیسری یہ کہ بنی اسرائیل کو بھی ہماری امت کی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم تھا (جب کوئی عذر نہ ہو) فرمایا : (وَارْکَعُوْا) [ البقرۃ : ٤٣] ” اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ “- وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : ایسے مشکل حالات میں بھی بنی اسرائیل کو نماز کی معافی نہیں ملی، بلکہ اسے خاص طور پر قائم کرنے کا حکم ہوا، کیونکہ صبر اور نماز ہی مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، فرمایا : (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭ ) [ البقرۃ : ٤٥ ] ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “ اور نماز ہی روزانہ کئی مرتبہ بندے کا تعلق اپنے رب سے جوڑتی اور اس سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زکوٰۃ مال ہونے کی صورت میں سال میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، روزے بھی سال میں کچھ دن فرض ہیں، حج استطاعت کی صورت میں عمر بھر میں ایک دفعہ فرض ہے، یہ نماز ہی ہے کہ آدمی کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو وہ اس کے ذریعے سے اپنے رب سے تار جوڑ سکتا ہے اور اس کے ساتھ آدمی کو پانچ دفعہ تو ضرور ہی اپنے مالک کے حضور پیش ہو کر فریاد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ - وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی اہل ایمان کو خوش خبری دو ، اس خوش خبری کا ذکر سورة اعراف (١٢٩) میں ہے کہ تمہارے دشمنوں کی ہلاکت اور تمہاری آزادی کے دن قریب ہی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے ( اس دعا کے قبول کرنے کا سامان کیا کہ) موسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کے بھائی ( ہارون (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے ( بدستور) مصر میں گھر برقرار کرو ( یعنی وہ ڈر کر گھر نہ چھوڑیں ہم ان کے محافظ ہیں) اور ( نماز کے اوقات میں) تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو ( مساجد کی حاضری خوف کی وجہ سے معاف ہے) اور ( یہ ضروری ہے کہ) نماز کے پابند رہو ( تاکہ نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ جلدی اس مصیبت سے چھڑا دے) اور (اے موسی) آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں (کہ اب جلدی یہ مصیبت ختم ہوجاوے گی) اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے ( دعا میں) عرض کیا کہ اے ہمارے رب ( ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ) آپ نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان تجمل اور طرح طرح کے مال دنیوی زندگی میں اے ہماے رب اسی واسطے دیئے ہیں کہ وہ آپ کی راہ سے ( لوگوں کو) گمراہ کریں ( پس جب ہدایت ان کے مقدر میں ہے نہیں اور جو حکمت تھی وہ حاصل ہوچکی تو اب ان کے اموال اور نفوس کو کیوں باقی رکھا جاوے پس) اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست نابود کر دیجئے اور ( ان کے نفوس کی ہلاکت کا سامان کردیجئے اس طرح کہ) ان کے دلوں کو ( زیادہ) سخت کردیجئے ( جس سے ہلاکت کے مستحق ہوجاویں) سو یہ ایمان نہ لانے پاویں ( بلکہ روز بروز ان کا کفر ہی بڑھتا رہے) یہاں تک کہ عذاب الیم ( کے مستحق ہو کر اس) کو دیکھ لیں ( سو اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا کی اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے رہے۔ کذا فی الدر المنثور) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ( کیونکہ آمین کہنا بھی دعا میں شریک ہونا ہے یعنی ہم ان کے اموال و نفوس اب ہلاک کرنے والے ہیں) سو تم ( اپنے منصبی کام یعنی تبلیغ پر) مستقیم رہو ( یعنی گو ہدایت ان کی تقدیر میں نہ ہو مگر تبلیغ میں تمہارا فائدہ ہے) اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو ( ہمارے وعدے کے سچے ہونے کا یا توقف میں حکمت ہونے کا یا تبلیغ کے ضروری ہونے کا) علم نہیں ( یعنی ہمارے وعدہ کو سچا سمجھو اور اگر ہلاکت میں دیر ہوجاوے اس میں حکمت سمجھو اور اپنے منصبی کام میں لگے رہو) اور ( جب ہم نے فرعون کو ہلاک کرنا چاہا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے باہر نکال لے جائے چناچہ وہ سب کو لے کر چلے اور رستہ میں دریائے شور حائل ہوا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اس میں راستہ ہوگیا اور) ہم نے بنی اسرائیل کو ( اس) دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون مع اپنے لشکر کے ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے ( دریا میں) چلا ( کہ دریا سے نکل کر ان سے قتل و قتال کرے لیکن وہ دریا سے پار نہ ہوسکا) یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا ( اور ملائکہ عذاب کے نظر آنے لگے) تو ( سراسیمہ ہوکر) کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ بجز اس کے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں داخل ہوتا ہوں ( سو مجھ کو اس غرق سے اور عذاب آخرت سے نجات دی جاوے فرشتہ کے ذریعہ سے) جواب دیا گیا کہ اب ایمان لاتا ہے ( جبکہ معائنہ آخرت کا شروع ہوگیا) اور ( معائنہ آخرت کے) پہلے سے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا ( اب نجات چاہتا ہے ) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور بنی اسرائیل و قوم فرعون کے کچھ حالات اور ان سے متعلقہ احکام مذکور ہیں پہلی آیت میں ایک خاص واقعہ سے متعلق حکم ہے وہ یہ کہ بنی اسرائیل جو دین موسوی پر عامل تھے یہ سب عام عادت کے مطابق نمازیں صرف اپنے صومعوں ( عبادت گاہوں) میں ادا کرتے تھے، اور پچھلی امتوں کے لئے حکم بھی یہی تھا کہ ان کی نماز اپنے گھروں میں ادا نہیں ہوتی تھی، یہ خصوصی سہولت امت محمدیہ کو عطا ہوئی کہ ہر جگہ جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں، صحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چھ (6) خصوصیات میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے کہ نماز ہر جگہ ادا ہوجاتی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ فرض نمازوں کا مسجدوں میں ہی ادا کرنا جماعت کے ساتھ سنت مؤ کدہ قرار دیا گیا، اور نفلی نمازوں کا گھروں میں ادا کرنا افضل ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اسی پر تھا کہ مسجد میں صرف فرض نماز پڑھتے تھے، سنن اور نوافل گھر میں جا کر ادا فرماتے تھے۔ بنی اسرائیل اپنے مذہب کے مطابق اس کے پابند تھے کہ نماز صرف اپنے عبادت خانوں میں ادا کریں، فرعون جو ان کو طرح طرح کی ایذائیں دیتا اور ان پر ظلم ڈھاتا تھا، اس نے یہ دیکھ کر ان کے تمام عبادت خانوں کو مسمار کردیا تاکہ یہ اپنے مذہب کے مطابق نماز نہ پڑھ سکیں، اس پر حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے دونوں پیغمبروں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو وہ حکم دیا جو اس آیت میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کیلئے مصر میں مکان نئے بنائے جائیں اور ان مکانات کا رخ قبلہ کی طرف ہو، تاکہ وہ انہیں سکونتی مکانات میں نماز ادا کرسکیں۔- اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی امتوں میں اگرچہ عام حکم یہی تھا کہ نمازیں صرف عبادت خانوں میں پڑھی جائیں، لیکن اس خاص حادثہ کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لئے اس کی عارضی اجازت دے دی گئی کہ گھروں ہی میں نماز ادا کرلیا کریں اور اپنے گھروں کا رخ قبلہ کی طرف سیدھا رکھیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ضرورت کے وقت بھی ان کو مخصوص گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی جن کا رخ قبلہ کی طرف کیا گیا تھا، عام گھروں اور عام مقامات پر نماز کی اجازت اس وقت بھی نہیں تھی، جس طرح امت محمدیہ کو شہر اور جنگل کے ہر مقام پر نماز ادا کرنے کی سہولت حاصل ہے ( روح ) ۔- یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کو جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کون سا قبلہ ہے، کعبہ یا بیت المقدس ؟ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کعبہ ہے اور کعبہ ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کا قبلہ تھا۔ ( قرطبی و روح) بلکہ بعض علماء نے فرمایا کہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اصل میں کعبہ ہی تھا۔- اور جس حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ یہود اپنی نمازوں میں صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں اس کو اس زمانہ پر محمول کیا جائے گا جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے، یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ قیام مصر کے زمانہ میں آپ کا قبلہ بیت اللہ ہی ہو۔- اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے استقبال قبلہ کی شرط انبیاء سابقین کے زمانہ میں بھی تھی، اسی طرح طہارت اور ستر عورت کا تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں میں شرط نماز ہونا بھی معتبر روایات سے ثابت ہے۔- گھروں کو قبلہ رخ بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ان میں نمازیں ادا کی جائیں اس لئے اس کے بعد اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کا حکم دے کر یہ ہدایت کردی گئی کہ اگر فرعون عبادت گاہوں میں نماز ادا کرنے سے روکتا ہے تو اس سے نماز ساقط نہیں ہوتی اپنے گھروں میں ادا کرو۔ - آخر آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرکے حکم دیا گیا کہ مؤمنین کو آپ خوشخبری سنا دیں کہ ان کا مقصود پورا ہوگا، دشمن پر ان کو غلبہ نصیب ہوگا اور آخرت میں جنت ملے گی۔ ( روح ) ۔- آیت کے شروع میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو بصیغہ تثنیہ خطاب کیا گیا کیونکہ مکانات قبلہ رخ کرکے ان میں نماز پڑھنے کی اجازت انہیں کا کام تھا، اس کے بعد بصیغہ جمع سب بنی اسرائیل کو شامل کرکے اقامت نماز کا حکم دیا گیا کیونکہ اس حکم میں پیغمبر اور امت سب داخل ہیں، آخر میں بشارت دینے کا حکم خاص موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا کیونکہ اصل صاحب شریعت نبی آپ ہی تھے، بشارت جنت دینے کا آپ ہی کو حق تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٨٧- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس 93] - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - مصر - المِصْرُ اسم لكلّ بلد ممصور، أي : محدود، يقال : مَصَرْتُ مَصْراً. أي : بنیته، والمِصْرُ : الحدُّ ، - ( م ص ر ) المصر - ہر محدود شہر کو ( جس کے گرد فصیل ہو ) مصر کہتے ہیں ۔ اور مصرت مصرا دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - قِبْلَةً :- في الأصل اسم للحالة التي عليها الْمُقَابِلُ نحو : الجلسة والقعدة، وفي التّعارف صار اسما للمکان الْمُقَابَلِ المتوجّهِ إليه للصلاة . نحو : فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] - القبلۃ :- اصل میں بالمقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ وقعدۃ اور عرف میں اس جہت کو قبلہ کہا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة 144] سو ہم تم کو ایسے قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو متوجہ ہونے کا حکم دیں گے ۔ - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٧۔ ٨٨) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ اپنے گھروں کے اندر مسجدیں بنا لو اور اپنی مسجدوں کو قبلہ کی طرف کرو اور پانچوں نمازوں کی پابندی کرو اور آپ مسلمانوں کو مدد اور مصیبت سے نجات اور جنت کی بشارت دے دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (دعا میں عرض کیا) اے ہمارے پروردگار آپ نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان تجمل اور طرح طرح کے مال، اے ہمارے پروردگار اسی واسطے دیے ہیں کہ وہ اس مال سے آپ کے بندوں کو آپ کی اطاعت اور آپ کے دین سے گمراہ کردیں، سو ان کے مالوں کو نیست ونابود کردیجیے اور ان کے دلوں کو سخت کردیجیے تاکہ یہ ایمان نہ لانے پائیں تاوقتیکہ یہ غرق ہونے کے عذاب کو نہ دیکھ لیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا) - ان گھروں میں جمع ہو کر تم لوگ اللہ کی عبادت کیا کرو۔ اسی طرح کا انتظام حضور نے بھی اپنی دعوت کے ابتدائی زمانہ میں کیا تھا جب آپ نے دار ارقم کو دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے لیے مختص فرمایا تھا۔ - (وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً ) - فرعون کے ڈر سے وہ لوگ مسجد تو بنا نہیں سکتے تھے ‘ اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو تعمیر ہی قبلہ رخ کرو تاکہ وہاں تم نمازیں پڑھا کرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی قبلہ معینّ تھا جبکہ بیت المقدس تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ کے زمانے سے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان نے تعمیر فرمایا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا۔ تورات میں ان کی قربان گاہوں کے خیموں کے بارے میں تفصیل ملتی ہے کہ یہ خیمے اس طرح نصب کیے جاتے تھے کہ جب کوئی شخص قربانی پیش کرتا تھا تو اس کا رخ سیدھا قبلہ کی طرف ہوتا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :84 اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ غالبا مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز باجماعت کا نظام ختم ہوچکا تھا ۔ اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا ۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اس نظام کو از سر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یا تجویز کرلیں کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے ۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کرنے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اس کا پہلا قدم لازما یہی ہوگا کہ اس میں نماز باجماعت کا نظام قائم کیا جائے ۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز اور مرجع ٹھیرایا جائے ، اور اس کے بعد ہی نماز قائم کرو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں ، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں اقامت صلوۃ جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازما نماز باجماعت بھی شامل ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :85 یعنی اہل ایمان پر مایوسی ، مرعوبیت اور پژمردگی کی جو کیفیت اس وقت چھائی ہوئی ہے اسے دور کرو ۔ انہیں پرامید بناؤ اور ان کی ہمت بندھاؤ اور ان کا حوصلہ بڑھاؤ ، بشارت دینے کے لفظ میں یہ سب معنی شامل ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: اس آیت میں ایک تو بنو اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ابھی وہ مصر سے ہجرت نہ کریں، بلکہ اپنے گھروں میں ہی رہیں۔ دوسری طرف بنو اسرائیل کو اصل حکم یہ تھا کہ وہ نمازیں مسجد میں ادا کیا کریں۔ گھروں میں نماز پڑھنا ان کے لیے عام حالات میں جائز نہیں تھا، لیکن چونکہ اس وقت فرعون کی طرف سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے اس خاص مجبوری کی حالت میں اس حکم کے ذریعے انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی۔