Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہوجائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کرلی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے ؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چناچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت و راہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔ 98۔ 2 یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ یعتزرون 11 یونس 10 ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٩] کامیابی کے لئے صبرو استقلال کی اہمیت :۔ پیغمبروں کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اور مسلمانوں کی جماعت کو صبر، استقلال اور ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود صرف دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں ان کی طرف مطلقاً التفات نہ کرو کیونکہ ان کا یہ نظریہ محض جہالت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہیں ان لوگوں سے نجات دے دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا : یعنی یقیناً تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہارون (علیہ السلام) بھی اس دعا میں شریک تھے۔ بعض اہل علم کے اقوال ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے، مگر یہ بات قرآن مجید سے یا حدیث سے مجھے نہیں ملی۔ - فَاسْتَــقِيْمَا : اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ دعوت پر ثابت قدم رہو، بیشک تمہاری دعا قبول ہے، مگر قبولیت ظاہر ہونے میں دیر ہوسکتی ہے، اس لیے دیر کی وجہ سے دعوت میں کوتاہی نہ کرنا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے کہ قبولیت کا اثر کب ظاہر ہوگا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اب اپنی اس بد دعا پر قائم رہنا، ایسا نہ ہو کہ میرا عذاب آنے پر ان کی سفارش کرنے لگو۔ یہ ایسے ہی ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ سارے کافر غرق ہوں گے، مگر اب مجھ سے ان ظالموں کے (حق میں) بات نہ کرنا۔ (دیکھیے ہود : ٣٧) اللہ تعالیٰ کو نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی بددعا کے باوجود ان کے دل کی نرمی کا علم تھا، اس لیے انھیں پہلے ہی اپنی بددعا پر ثابت رہنے کی تاکید فرما دی۔ مگر نوح (علیہ السلام) پھر بھی بیٹے کے لیے سفارش کر بیٹھے اور انھیں اللہ تعالیٰ کا عتاب سننا پڑا، جس پر انھوں نے معافی مانگی۔ دیکھیے سورة ہود (٤٥ تا ٤٧) ۔- وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ : یعنی ان لوگوں کا راستہ اختیار نہ کرنا جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں، یا دعا کرتے ہی چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہیں کیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُسْتَجَابُ لِأَحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ ، یَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ ) [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : ٦٣٤٠۔ مسلم : ٢٧٣٥، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” تم میں سے کسی شخص کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا، یہ نہیں کہتا کہ میں نے دعا کی مگر میری دعا قبول نہیں کی گئی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کی قبولیت کو بیان فرمایا ہے مگر عنوان میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی شریک دعا قرار دے کر یہ خطاب کیا گیا (آیت) قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا : یعنی تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، وجہ یہ تھی کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ دعا کر رہے تھے تو حضرت ہارون آمین کہتے جاتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی دعا پر آمین کہنا بھی دعا ہی میں داخل ہے، اور چونکہ دعا کا مسنون طریقہ قرآن کریم میں آہستہ آواز سے کرنے کا بتلایا گیا ہے تو اس سے آمین کو بھی آہستہ کہنے کی ترجیح معلوم ہوتی ہے۔- اس آیت میں قبولیت دعا کی اطلاع ان دونوں پیغمبروں کو دے دیگئی، مگر تھوڑا سا امتحان ان کا بھی لیا گیا کہ قبولیت دعا کا اثر بقول بغوی چالیس سال بعد ظاہر ہوا، اسی لئے اس آیت میں قبولیت دعا کے ذکر کے ساتھ ان دونوں حضرات کو یہ بھی ہدایت کردی گئی کی (آیت) فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ ، یعنی پنے کار منصبی دعوت و تبلیغ میں لگے رہیں، قبولیت دعا کا اثر دیر میں ظاہر ہو تو جاہلوں کی طرح جلد بازی نہ کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٨٩- جوب - الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56]- والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح مین گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔- جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے قد اجیبت دعوتکما تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ۔ دعا کی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) دونوں کی طرف سے کی گئی ہے ۔ ابو العالیہ ، عکرمہ ، محمد بن کعب اور ربیع بن موسیٰ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا مانگتے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو دعا مانگنے والے قرار دیا ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ آمین بھی دعا ہے اور جب اس کا دعا ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اس کا اخفاء اس کے جہر سے افضل ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے ادعوا ربکم تضرعا ً و خفیۃ ۔ اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٩) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی سو تم ایمان، اطاعت خداوندی اور تیلغ رسالت پر قائم رہو اور ان لوگوں کے طریقہ کو مت اختیار کرنا، جو توحید خداوندی کو نہیں سمجھتے اور ان اس کی تصدیق کرتے یعنی فرعون اور اس کی قوم۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا) - ایسا نہ ہو کہ وقت آنے پر تمہارا دل پسیج جائے اور پھر دعا کرنے لگو کہ اے اللہ اب ان کو معاف فرما دے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :90 جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالی کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالی کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ۔ پھر وہ نادان لوگ آخرکار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفروفسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو اور ان کے پیرؤوں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہوجائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عموما لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani