91۔ 1 اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ اب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا، اس وقت تو نافرمانیوں اور فساد انگیزیوں میں مبتلا رہا۔
[١٠١] فرعون کا غرقابی کے وقت ایمان لانا :۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس اقرار کے جواب میں فرمایا کہ جیسا اقرار تم اب کر رہے ہو ویسا اقرار پہلے بھی کئی دفعہ کرچکے ہو پھر بعد میں عہد شکنی کرکے بغاوت ہی کرتے رہے ہو لہذا تمہارا اب کا یہ اقرار قطعاً ناقابل اعتبار ہے اگر تمہیں اب بھی ہم نجات دے دیں تو پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو اور اس مطلب پر دلیل درج ذیل حدیث ہے۔- سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب فرعون نے یہ کلمات کہے تھے تو جبریل نے مجھے کہا کہ : کاش اے محمد آپ دیکھتے میں نے اس وقت دریا سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دیا کہ مبادا اب بھی کہیں اللہ کی رحمت اسے نہ آلے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب تمہارے اس اقرار کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ تمہاری موت آچکی اور امتحان اور توبہ کا وقت گذر چکا ہے لہذا اب ایسا اقرار بےکار ہے اس مطلب پر بھی بیشمار آیات و احادیث شاہد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو بھی نہیں بتلایا، ایک یہ کہ کسی قوم پر عذاب کب آئے گا، دوسرے یہ کہ کسی کی موت کا وقت کب ہے ؟ اور تیسرے یہ کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور فرعون کے معاملہ میں تو دو باتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ ایک عذاب دوسرے موت۔ لہذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا تھا ؟
اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ ۔۔ : کیا اب ؟ یہ اللہ کی طرف سے ڈانٹ تھی اور بتانا تھا کہ عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کرنے اور ایمان لانے سے کوئی فائدہ نہیں، فرمایا : (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ) [ المؤمن : ٨٥ ] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ “ اور دیکھیے سورة یونس (٥١) اور نساء (١٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر۔۔ : ٣٥٣٧، عن ابن عمر ]” بیشک اللہ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، جب تک اس کا غرغرہ (جان نکلنے کی حالت) نہ ہو۔ “ - 3 فرعون کی سرکشی پر اللہ کے فرشتوں کو بھی اس قدر غصہ تھا کہ ابن عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا : ( قَالَ لِیْ جِبْرِیْلُ لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَأَنَا آخِذٌ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأُدُسُّہٗ فِيْ فَمِ فِرْعَوْنَ مَخَافَۃَ أَنْ تُدْرِکَہُ الرَّحْمَۃُ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ٥؍٢٦، ح : ٢٠١٥۔ مسند طیالسی : ٢٦١٨۔ ترمذی : ٣١٠٨ ] ” مجھ سے جبریل (علیہ السلام) نے کہا، کاش آپ مجھے دیکھتے کہ میں سمندر کا سیاہ کیچڑ اٹھا کر فرعون کے منہ میں ٹھونس رہا تھا، اس خوف سے کہ کہیں اس کو رحمت نہ آپہنچے۔ “ - 3 یہ واقعہ دس محرم (عاشوراء) کو پیش آیا۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے، آپ نے فرمایا : ( مَا ھٰذَا ؟ قَالُوْا ھٰذَا یَوْمٌ صَالِحٌ، ھٰذَا یَوْمٌ نَجَّی اللّٰہُ بَنِيْ إِسْرَاءِیْلَ مِنْ عَدُوِّھِمْ ، فَصَامَہٗ مُوْسٰی قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوْسَی مِنْکُمْ ، فَصَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ ) [ بخاری، الصوم، باب صوم یوم عاشوراء : ٢٠٠٤ ] ” یہ کیا ہے ؟ “ انھوں نے کہا : ” یہ ایک صالح دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا روزہ رکھا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” پھر میں تم سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) پر حق رکھنے والا ہوں۔ “ چناچہ آپ نے اس (دن) کا روزہ رکھا اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ “ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے : ( ھٰذَا یَوْمٌ ظَھَرَ فِیْہِ مُوْسَی عَلٰی فِرْعَوْنَ. فَقَال النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوْسَی مِنْھُمْ فَصُوْمُوْا ) [ بخاری، التفسیر، باب : (وجاوزنا ببني إسرائیل البحر ) : ٤٦٨٠ ] ” اس دن موسیٰ (علیہ السلام) فرعون پر غالب آئے تھے، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا :” تم ان (یہود) سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) پر حق رکھتے ہو، پس روزہ رکھو۔ “
پانچویں آیت میں خود حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اس کا یہ جواب آیا ہے (آیت) اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ، یعنی کیا اب تم مسلمان ہوتے ہو جب کہ ایمان و اسلام کا وقت گزر چکا۔- اس سے ثابت ہوا کہ عین موت کے وقت کا ایمان لانا شرعاً معتبر نہیں، اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول فرماتے رہتے ہیں جب تک غرغرہ موت کا وقت نہ آجائے ( ترمذی ) ۔- غرغرہ موت سے مراد وہ وقت ہے جب نزع روح کے وقت فرشتے سامنے آجاتے ہیں اس وقت دارالعمل دنیا کی زندگی ختم ہو کر آخرت کے احکام شروع ہوجاتے ہیں، اس لئے اس وقت کا کوئی عمل قابل قبول نہیں، نہ ایمان نہ کفر، ایسے وقت جو ایمان لاتا ہے اس کو بھی مومن نہیں کہا جائے گا اور اس کے ساتھ کفن دفن میں مسلمانوں کا سا معاملہ نہ کیا جائے گا، جیسا کہ فرعون کے اس واقعہ سے ثابت ہے کہ بالاجماع فرعون کی موت کفر پر قرار دی گئی ہے نصوص قرآن سے بھی یہی واضح ہے اور جس کسی نے فرعون کے اس ایمان کو معتبر کہا ہے یا تو اس کی کوئی تاویل کی جائے ورنہ اسے غلط کہا جائے گا ( روح ) ۔- اس طرح اگر خدانخواستہ ایسی ہی نزع روح کی حالت میں کسی شخص کی زبان سے کلمہ کفر نکل جائے تو اس کو کافر بھی نہ کہا جائے گا بلکہ اس کے جنازہ کی نماز پڑھ کر مسلمانوں کی طرح دفن کیا جائے گا اور اس کے کلمہ کفر کی تاویل کی جائے گی جیسا کہ بعض اولیاء اللہ کے حالات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو کلمہ ان کی زبان سے نکل رہا تھا لوگ اس کو کلمہ کفر سمجھ کر پریشان تھے بعد میں کچھ ہوش آیا اور اپنا مطلب بتلایا تو سب کو اطمینان ہوگیا کہ وہ عین ایمان کا کلمہ تھا۔- خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت روح نکل رہی ہو اور نزع کا عالم ہو وہ وقت دنیا کی زندگی میں شمار نہیں، اس وقت کا کوئی عمل بھی شرعا معتبر نہیں، اس سے پہلے پہلے ہر عمل معتبر ہے، مگر دیکھنے والوں کو اس میں بڑی احتیاط لازم ہے کیونکہ اس کا صحیح اندازہ کرنے میں غلطی ہوسکتی کہ یہ وقت نزع روح کا اور غرغرہ موت کا ہے یا اس سے پہلے کا۔
اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ٩١- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔
(٩١) تب حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اب غرق ہونے کے وقت ایمان لاتا ہے (جب کہ اس کا اعتبار نہیں) اور غرق ہونے سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا رہا اور ارض مصر میں قتل وشرک اور غیر اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دے کر فساد پھیلاتا رہا۔