Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 جب فرعون غرق ہوگیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا، کہ اس نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا، جس کا مشاہدہ پھر سب نے کیا۔ مشہور ہے کہ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالصَّوَابِ ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] فرعون کی لاش کی حفاظت کا مطلب :۔ یعنی تیری لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوجائے گی اور نہ مچھلیوں کی خوراک بنے گی، چونکہ فرعون کے ڈوب کر مرجانے کے بعد ایک لہر اٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ جو بادشاہ اتنا طاقتور اور زور آور تھا اور خود خدائی کا دعویدار تھا بالآخر اس کا انجام کیا ہوا ؟ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نشانیاں دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاش مدتوں اسی حالت میں پڑی رہی اور گلنے سڑنے سے بچی رہی اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔- جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاش آج تک محفوظ ہے جس پر سمندر کے پانی کے نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جو اسے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کا ایک سبب بن گئی ہے اور یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش تاقیامت محفوظ ہی رہے۔- عاشورہ کا روزہ :۔ فرعون کی غرقابی کا واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا اسی لیے یہود فرعون سے نجات کی خوشی کے طور پر روزہ رکھتے تھے چناچہ آپ نے بھی مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہود کی مخالفت کے لیے ساتھ ٩ محرم یا ١١ محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزہ کی حیثیت نفلی روزہ کی سی رہ گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ ۔۔ : ” نُنَجِّیْ “ ” نَجَا یَنْجُوْ “ سے باب تفعیل ہے۔ ” نَجَّاہ اللّٰہُ “ اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا۔ ” اَلنَّجْوَۃُ “ یا ” اَلنَّجَا “ اونچی جگہ یا ٹیلے کو بھی کہتے ہیں۔ ” نَجَّاہُ “ کا معنی اس صورت میں یہ ہوگا کہ اس نے اسے اونچی جگہ پھینک دیا، یعنی آج ہم تمہارے بےجان لاشے کو سمندر سے بچا لیں گے، یا اونچی جگہ پھینک دیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے ایک عظیم نشانی بنے۔ ” اٰیۃً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی فرعون اور اس کی ساری فوج کے غرق ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش سمندر کے کنارے پر باہر نکال پھینکی، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے عظیم نشانی بنے اور بنی اسرائیل کے کمزور عقیدے والوں کو بھی خدائی کے دعوے دار کی حقیقت اور انجام آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل جائے اور فرعون اور اس کا سمندر میں غرق ہونے کا واقعہ بعد میں ہر اس شخص کے لیے قدرت کی عظیم نشانی بن جائے جو اس کو سنے یا پڑھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ فرعون کی لاش مصر کے عجائب گھر میں اب تک محفوظ ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی لاش محفوظ نہ بھی رہے تو تاریخ اور قرآن میں اس واقعہ کا ذکر ہی بعد والوں کے لیے بطور عبرت اور نشانی کافی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب سبت کو بندر بنانے کے متعلق فرمایا : (فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٦٦ ] ” تو ہم نے اسے (یعنی اس واقعہ کو) ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے تھے اور جو اس کے پیچھے تھے ایک عبرت اور ایک نصیحت بنادیا۔ “ حالانکہ ان میں سے کسی مسخ شدہ بندر کی کوئی ممی کہیں موجود نہیں۔ الغرض یہ اس فرعون کی لاش نہ ہو تب بھی بعد والوں کے لیے اس واقعہ کے نشان عظیم ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ - 3 ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشان دہی کی جاتی ہے، جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمامہ فرعون کہا جاتا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فرعونوں کی لاشیں موجود ہیں ان میں سے ایک فرعون کی لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ ١٩٠٧ ء میں جب فرعونوں کی لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ “- شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جیسا وہ بیوقوف ایمان لایا بےفائدہ ویسا ہی اللہ نے مرنے کے بعد اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے پر ڈال دیا، تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن بچنے سے کیا فائدہ ؟ “ (موضح)- وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ : یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے، اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - سو ( بجائے نجات مطلوبہ کے) آج ہم تیری لاش کو ( پانی میں تہ نشین ہونے سے) نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے موجب عبرت ہو جو تیرے بعد ( موجود) ہیں ( کہ تیری بدحالی اور تباہی دیکھ کر مخالفت احکام الہٰیہ سے بچیں) اور حقیقت یہ ہے کہ ( پھر بھی) بہت سے آدمی ہماری ( ایسی ایسی) عبرتوں سے غافل ہیں ( اور مخالفت احکام سے نہیں ڈرتے) اور ہم نے ( غرق فرعون کے بعد) بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا ( کہ اس وقت تو مصر کے مالک ہوگئے اور ان کی اول ہی نسل کو بیت المقدس اور ملک شام عمالقہ پر فتح دے کر عطا فرمایا) اور ہم نے ان کو نفیس چیزیں کھانے کو دیں ( مصر میں بھی جنت و عیون تھے اور شام کی نسبت بٰرَکنَا فیھَا آیا ہے) سو ( چاہئے تھا کہ ہماری اطاعت میں زیادہ سرگرم رہتے لیکن انہوں نے الٹا دین میں اختلاف کرنا شروع کیا اور غضب یہ کہ) انہوں نے ( جہل کی وجہ آگے اس سے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ( احکام کا) علم پہنچ گیا ( تھا اور پھر اختلاف کیا آگے اس اختلاف پر وعید ہے کہ) یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان ( اختلاف کرنے والوں) کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ (عملی) کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، پھر ( اثبات حقیقت دین محمدی کے واسطے ہم ایک ایسا کافی طریقہ بتلاتے ہیں کہ غیر صاحب وحی کے لئے تو کیسے کافی نہ ہوگا وہ ایسا ہے کہ آپ صاحب وحی ہیں مگر آپ سے بھی اگر اس کا خطاب بطور قضیہ شرطیہ کے کیا جاوے تو ممکن ہے اس طرح سے کہ) اگر ( بالفرض) آپ اس ( کتاب) کی طرف سے شک ( و شبہ) میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو ( اس شک کے دفع کا ایک سہل طریقہ یہ بھی ہے کہ) آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھتے جو آپ سے پہلے کی کتابوں کو پڑھتے ہیں ( مراد توریت و انجیل ہیں وہ من حیث القراءة اس کی پیشین گوئیوں کی بناء پر اس قرآن کے صدق کو بتلا دیں گے) بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں اور نہ ( شک کرنے والوں سے بڑھ کر) ان لوگوں میں ہوں جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ ( نعوذ باللہ) تباہ نہ ہوجاویں یقینا جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی ( یہ ازلی) بات ( کہ یہ ایمان نہ لاویں گے) ثابت ہوچکی ہے وہ ( کبھی) ایمان نہ لاویں گے گو ان کے پاس تمام دلائل ثبوت حق کے) پہنچ جاویں، جب تک کہ عذاب دردناک کو نہ دیکھ لیں ( مگر اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا) چناچہ (جن بستیوں پر عذاب آچکا ہے ان میں سے) کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا ( کیونکہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی) ہاں مگر یونس ( علیہ السلام) کی قوم ( کہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی، اس لئے وہ عذاب موعود کے آثار ابتدائیہ کو دیکھ کر ایمان لے آئے اور) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت خاص ( یعنی وقت موت) تک ( خیر خوبی کے ساتھ) عیش دیا ( پس اور قریوں کا ایمان نہ لانا اور قوم یونس (علیہ السلام) کا ایمان لانا دونوں مشیت سے ہوئے۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں فرعون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی سے نکال دیں گے، تاکہ تیرا یہ بدن پچھلے لوگوں کے لئے قدرت خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔- اس کا واقعہ یہ ہے کہ دریا سے عبور کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو وہ لوگ فرعون سے کچھ اس قدر مرعوب و مغلوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فرعون ہلاک نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی اور دوسروں کی عبرت کے لئے دریا کی ایک موج کے ذریعہ فرعون کی مردہ لاش کو ساحل پر ڈال دیا جس کو سب نے دیکھا اور اس کے ہلاک ہونے کا یقین آیا، اور اس کی یہ لاش سب کے لئے نمونہ عبرت بن گئی، پھر معلوم نہیں کہ اس لاش کا کیا انجام ہوا، جس جگہ فرعون کی لاش پائی گئی تھی آج تک وہ جگہ جبل فرعون کے نام سے معروف ہے۔- کچھ عرصہ ہوا اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ فرعون کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی اور عام لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا، اور وہ آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے کیونکہ لفظ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں، اس زمانے میں مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا۔- مگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں سے غافل ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے ورنہ عالم کے ہر ذرہ ذرہ میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو اور اس کی قدرت کاملہ کو پہچانا جاسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝ ٠ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝ ٩٢ ۧ- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- بدن - البَدَنُ : الجسدلکن البدن يقال اعتبارا بعظم الجثة، والجسد يقال اعتبارا باللون، وقوله تعالی: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ [يونس 92] أي : بجسدک۔- ( ب دن ) البدن - یہ جسد کے ہم معنی ہے لیکن بدن باعتبار عظمت جثہ کے بولا جاتا ہے اور جسد باعتبار رنگ کے ، اور آیت کریمہ ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ [يونس 92] تو آج ہم تیرے بدن کو ( دریا سے ) نکلال لیں گے ۔ میں بدن بمعنی جسد ہے - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٢) سو آج ہم تیری لاش کو تیری مرصع زر کے ساتھ زمین پر پھینک کر نجات دین گے تاکہ بعد میں آنے والے کفار کے لیے نشان عبرت ہو کہ پھر وہ تیری باتوں پر عمل نہ کریں اور قطعی طور پر یہ جان لیں کہ تو خدا نہیں ہے اور بہت سے کفار ہماری کتاب اور ہمارے رسول کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) - یعنی تمہارے جسم کو محفوظ رکھا جائے گا ‘ اس کو گلنے سڑنے نہیں دیا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرسکیں۔ چناچہ غرق ہونے کے کچھ عرصہ بعد فرعون کی لاش کنارے پر پائی گئی تھی ‘ صرف اس کے ناک کو کسی مچھلی وغیرہ نے کاٹا تھا ‘ باقی لاش صحیح سلامت تھی اور آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :92 آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیری ہوئی پائی گئی تھی ۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے ۔ اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے ، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی ۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسی قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے ۔ سن ۱۹۰۷ میں سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :93 یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: قانونِ قدرت یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا عذاب سر پر آکر آنکھوں سے نظر آنے لگے، یا جب کسی پر نزع کی حا لت طاری ہوجائے، تو توبہ کادروازہ بند ہوجاتا ہے، اور اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوتا۔ اس لئے اب فرعون کے عذاب سے نجات پانے کی تو کوئی صورت نہیں تھی، لیکن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھا۔ وہ لاش سمندر کی تہہ میں جانے کے بجائے پانی کی سطح پر تیرتی رہی، تاکہ سب دیکھنے والے اُسے دیکھ سکیں۔ اتنی بات تو اس آیت سے واضح ہے۔ اب آخری زمانے کے مورخین نے یہ تحقیق کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا، اُس کا نام منفتاح تھا اور اُس کی لاش صحیح سلامت دریافت ہوگئی ہے۔ اب تک یہ لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، اور سامان عبرت بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ تحقیق درست ہے تو یہ آیتِ کریمہ قرآنِ کریم کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے۔ سائنسی طور پر انکشاف بہت بعد میں ہوا۔