بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی ۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئ ۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی ۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کر دیا ۔ برکت والی زمین انکے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا ۔ فرعون ، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے ، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا ۔ اور بنی اسرائیل کے قبضے میں یہ سب کچھ کر دیا ۔ اور آیتوں میں ہے ( كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ 25ۙ ) 44- الدخان:25 ) باوجود اس کے خلیل الرحمن علیہ السلام کے شہر بیت المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی ۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ تھا انہیوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے درخواست کی ، انہیں جہاد کا حکم ہوا یہ نامردی کر گئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرنا پڑا ۔ وہیں حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ۔ ان کے بعد یہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ نکلے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر بیت المقدس کو فتح کیا ۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں قبضہ کیا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے ساز باز کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے کر نکلوا دیئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ السلام کو تو اپنی طرف چڑھا لیا اور آپ کے کسی حواری پر آپ کی شباہت ڈال دی انہوں نے آپ کے دھوکے میں اسے قتل کر دیا اور سولی پر لٹکا دیا ۔ یقینا جناب روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے ۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ۔ اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد قسطنطنیہ نامی یونانی بادشاہ عیسائی بن گیا ۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا ۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا ۔ حیلہ اور مکر وفریب اور چال کے طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے ۔ نصرانی علماء اور درویشوں کو جمع کرکے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیلا دیا اور اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا ۔ اس نے کلیسا ، گرجے ، خانقاہیں ، ہیکلیں وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت کی اور حکومت کے زور اور زر کے لالچ سے اسے دور تک پہنچا دیا ۔ جو بےچارے موحد ، متبع انجیل اور سچے تابعدار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصلی دن پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کر دیا ۔ یہ لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں تبدیلی اور مسخ والا دین رہ گیا تھا اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر چھا گئے ۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں ۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں ۔ بڑی بڑی شاندار ، دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں ۔ صلیب کی پرستش ، مشرق کا قبلہ ، کنیسوں کی تصویریں ، سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے داخل کیں ۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کر دیا ۔ امانت کبیرہ اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے ۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل کی کتابیں اسی نے لکھوائیں ۔ اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح کیا ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا ۔ الغرض یہ پاک جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی اللہ نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حلال اور طبعا بھی طیب ۔ افسوس باوجود اللہ کی کتاب ہاتھ میں ہو نے کے انہوں نے خلاف بازی اور فرقہ بندی شروع کر دی ۔ ایک دو نہیں بہتر ( ۷۲ ) فرقے قائم ہوگئے ۔ اللہ اپنے رسول پر درود سلام نازل فرمائے آپ نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ میری امت میں بھی یہی بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہو جائیں گے جس میں سے ایک جنتی باقی سب دوزخی ہوں گے پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں؟ فرمایا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ ( مستدرک حاکم ) اللہ فرماتا ہے ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی کروں گا
93۔ 1 یعنی ایک تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، آپس میں اختلاف شروع کردیا، پھر یہ اختلاف بھی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ علم آجانے کے بعد کیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اختلاف محض عناد اور تکبر کی بنیاد پر تھا۔
[١٠٣] بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی : یعنی ملک مصر میں بھی ان کو غلبہ دیا اور شام میں بھی اور یہ دونوں سرسبز اور شاداب ملک ہیں جہاں ہر طرح کے پھل اور غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں پھر ان مادی نعمتوں کے علاوہ انھیں تورات بھی عطا کی۔ جس میں ان کی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل ہدایات موجود تھیں لیکن بعد میں یہی لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لیے ناکافی تھی بلکہ اس کی وجہ نئے نئے فلسفیانہ مباحث پیدا کرنا، پھر آپس میں اختلاف کرنا، پھر فرقے بنانا اور اپنی اپنی چودھراہٹ کی خاطر ان کی آبیاری کرنا تھی۔ علماء و مشائخ کے حب جاہ نے ان فرقوں میں اتنا تعصب پیدا کردیا تھا کہ ان میں اتحاد کی صورت باقی نہ رہ گئی تھی حالانکہ اگر وہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرتے تو وہ پھر سے متحد ہوسکتے تھے۔- تفرقہ بازی کی وجہ اور اس کا علاج :۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں جس کا شکار یہود اور نصاریٰ ہوچکے تھے اور آج تک شکار ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے بھی اسی ہٹ دھرمی اور ضد کا شکار ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے حال میں مست اور مگن ہے۔ ان فرقوں کے قائدین کے حب مال اور جاہ کی خواہش اور ان کے مناصب سے ان کی دستبرداری ان فرقوں کے متحد ہونے میں آج بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت موجود ہے۔ اگر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو اتحاد کی صورت آج بھی ممکن ہے بلکہ اتحاد کی ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے اور اماموں، علماء اور مشائخ کے اقوال کو کتاب و سنت کے مقابلہ میں درخور اعتناء نہ سمجھا جائے۔
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ ۔۔ :” مُبَوَّاَ “ (ٹھکانا) کی ” صِدْقً “ کی طرف اضافت کا مطلب اس کی تعریف ہے، یعنی بہترین باعزت ٹھکانا۔ اہل عرب جس چیز کی تعریف کرنا چاہیں اسے ” صِدْقٌ“ کی طرف مضاف کردیتے ہیں، جیسے کہتے ہیں : ” رَجُلُ صِدْقٍ “ ” سچ مچ کا آدمی۔ “ فرمایا : (اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ ) [ یونس : ٢ ] اور فرمایا : (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ) [ بنی إسرائیل : ٨٠ ] یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو نہایت باعزت ٹھکانا، حکومت اور وافر صاف ستھری چیزیں کھانے کے لیے عطا فرمائیں۔ ان بنی اسرائیل سے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی مراد لینا تو مشکل ہے، کیونکہ وہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم پر جہاد کے لیے نکلنے سے صاف انکار کی پاداش میں چالیس سال صحرائے سینا ہی میں بھٹکتے رہے تھے، البتہ ان کے بعد یوشع بن نون (علیہ السلام) کی قیادت میں نئی نسل نے فلسطین اور شام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق فتح کیے، وعدہ یہ تھا : (يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ) [ المائدۃ : ٢١ ] ” اے میری قوم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔ “ پھر مصر پر بھی بنی اسرائیل کی حکومت قائم ہوگئی، جیسا کہ فرمایا : (كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) [ الشعراء : ٥٩ ] ” ایسے ہی ہوا اور ہم نے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا۔ “ پھر بنی اسرائیل پر حکومت اور غلامی کے کئی دور آئے، کبھی داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) جیسے عظیم الشان حکمران آئے اور کبھی بخت نصر اور دوسرے کفار کے ہاتھوں ان کی پامالی ہوئی اور اس پامالی کا سبب ہمیشہ ان کا اختلاف بنا، جس کا باعث ان کی لاعلمی نہ تھا بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے وہ احبارو رہبان کو رب بنا کر مختلف سیاسی اور دینی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ احادیث میں ان کے بہتر (٧٢) فرقوں کا ذکر ہے، ان میں صحیح کون تھا اور غلط کون یہ فیصلہ اب قیامت کے دن رب تعالیٰ ہی فرمائیں گے۔ - فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ کی کتاب تورات کی صاف پیش گوئی کے مطابق بنی اسرائیل کا اتفاق تھا کہ خاتم النّبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آنے والے ہیں، کسی کا بھی اختلاف نہ تھا اور کوئی اس سے لا علم نہ تھا، بلکہ سب آپ کے آنے کے منتظر تھے اور آپ کے آنے کی دعا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) [ البقرۃ : ٨٩ ] ” حالانکہ وہ اس سے پہلے ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنھوں نے کفر کیا۔ “ مگر جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کو پہچان لینے کے بعد محض ضد اور حسد کی وجہ سے ان کا اتفاق اختلاف میں بدل گیا۔ کسی نے کہا، وہ ہیں ہی نہیں جن کے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا یہ ہمارے نہیں بلکہ صرف امیوں کے رسول ہیں۔ بعض خوش نصیبوں نے ایمان قبول بھی کرلیا، بہرحال علم کے بعد اختلاف کا فیصلہ اب رب تعالیٰ ہی فرمائیں گے۔
دوسری آیت میں فرعون کے انجام بد کے بالمقابل اس قوم کا مستقبل دکھلایا ہے جس کو فرعون نے حقیر و ذلیل بنا رکھا تھا، فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اچھا ٹھکانہ عطا فرمایا کہ پورا ملک مصر بھی ان کو مل گیا اور اردن و فلسطین کی ارض مقدسہ بھی ان کو مل گئی جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم اور ان کی ذریت کے لئے میراث بنادیا تھا، اچھے ٹھکانے کو قرآن میں مُبَوَّاَ صِدْقٍ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، صِدْقٍ کے معنی اس جگہ صالح اور مناسب کے ہیں، مطلب یہ کہ ایسا ٹھکانا ان کو دیا جو ان کے لئے ہر اعتبار سے لائق اور مناسب تھا پھر فرمایا کہ ہم نے ان کو حلال پاک چیزوں سے رزق دیا کہ دنیا کی تمام لذائذ اور راحتیں ان کو عطا فرما دیں۔- آخر آیت میں پھر ان کی کجروی اور غلط کاری کا ذکر ہے کہ ان میں بھی بہت سے لوگوں نے اقتدار پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی اور اس کی اطاعت سے پھرگئے، تورات میں جو نشانیاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ لوگ پڑھتے تھے اس کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ کے تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے یہی لوگ ایمان لاتے، مگر یہ عجیب اتفاق ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے تو یہ سب لوگ نبی آخر الزمان پر اعتقاد رکھتے اور ان کی نشانیوں اور ان کے ظہور کا وقت قریب ہونے کی خبریں لوگوں کو بتایا کرتے تھے اور اپنی دعاؤں میں نبی آخر الزمان کا وسیلہ دے کر دعا کیا کرتے تھے مگر جب نبی آخر الزمان اپنی پوری شہادتوں کے ساتھ اور تورات کی بتلائی ہوئی نشانیوں کے ساتھ تشریف لائے تو یہ لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگے، کچھ لوگ ایمان لائے باقیوں نے انکار کیا، اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کو لفظ جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ سے تعبیر کیا ہے، یہاں علم سے مراد یقین بھی ہوسکتا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ جب مشاہدہ کے ساتھ یقین کے اسباب جمع ہوگئے تو یہ لوگ اختلاف کرنے لگے۔- اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس جگہ علم سے مراد معلوم ہے یعنی جب وہ ہستی سامنے آگئی جو تورات کی پیشین گوئیوں کے ذریعہ پہلے سے معلوم تھی تو اب لگے اختلاف کرنے۔- آخر آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے اختلاف کا فیصلہ فرماویں گے حق و باطل نکھر جائے گا، اہل حق جنت میں اور اہل باطل دوزخ میں بھیجے جائیں گے۔
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ٠ ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ ٩٣- بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس 93] - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے
(٩٣) اور ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کی ہلاکت کے بعد عمدہ سرزمین یعنی اردن اور فلسطین میں رہائش دی اور ہم نے من وسلوی اور غنیمتیں ان کو کھانے کا عطا کیں۔- اور یہودی و نصاری نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے بارے میں اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ان کی کتاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کے بارے میں علم پہنچ گیا۔- محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا پروردگار قیامت کے دن یہود و نصاری میں اس دین کے بارے میں فیصلہ کردے گا جس میں یہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
(فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآءَ ہُمُ الْعِلْمُ )- یعنی انہوں نے اس وقت اختلاف کیا اور تفرقے برپا کیے جبکہ ان کے پاس علم آچکا تھا۔ انہوں نے ایسا ناواقفیت کی بنیاد پر مجبوراً نہیں کیا تھا ‘ بلکہ یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :94 یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارض فلسطین سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :95 مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبورا ایسا کیا ، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا ۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دین حق یہ ہے ، یہ اس کے اصول ہیں ، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں ، یہ کفر واسلام کے امتیازی حدود ہیں ، طاعت اس کو کہتے ہیں ، معصیت اس کا نام ہے ، ان چیزوں کی بازپرس خدا کے ہاں ہونی ہے ، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے ، مگر ان صاف صاف ہدایتوں کے باوجود انہوں نے ایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کرلیں ۔
37: یعنی بنی اسرائیل کا عقیدہ ایک مدت تک دین حق کے مطابق ہی رہا، تورات اور انجیل میں آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی جو خبر دی گئی تھی، اس کے مطابق وہ یہ بھی مانتے تھے کہ آخر میں نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لانے والے ہیں، لیکن جب آسمانی کتابوں میں مذکور نشانیوں کے ذریعے یہ علم آگیا کہ وہ نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو اس وقت انہوں نے دین حق سے اختلاف شروع کردیا۔