Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ٹھوس دلائل کے باوجود انکار قابل مذمت ہے جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ مجھے کچھ شک نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ۔ پس اس آیت سے مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ کی امت کے ایمان کی مضبوطی کی جائے اور ان سے بیان کیا جائے کہ اگلی الٰہامی کتابوں میں بھی ان کے نبی کی صفتیں موجود ہیں ، خود اہل کتاب بھی بخوبی واقف ہیں ۔ جیسے ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْل ١٥٧؀ۧ ) 7- الاعراف:157 ) میں ہے ۔ ان لوگوں پر تعجب اور افسوس ہے ان کی کتابوں میں اس نبی آخر الزمان کی تعریف و توصیف اور جان پہچان ہو نے کے باوجود بھی ان کتابوں کے احکام کا خلط ملط کرتے ہیں اور تحریف و تبدیل کر کے بات بدل دیتے ہیں اور دلیل سامنے ہو نے کے باوجود انکاری رہتے ہیں ۔ شک و شبہ کی ممانعت کے بعد آیات رب کی تکذیب کی ممانعت ہوئی ۔ پھر بدقسمت لوگوں کے ایمان سے ناامیدی دلائی گئی ۔ جب تک کہ وہ عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے ۔ یہ تو اس وقت ایمان لائیں گے جس وقت ایمان لانا بےسود ہوگا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے لیے اور فرعونیوں کے لیے یہی بددعا کی تھی ۔ ان کی جہالت اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ بالفرض ہم اپنے فرشتوں کو ان پر اتاریں ۔ مردے ان سے بولیں ہر پوشیدہ چیز سامنے آجائے جب بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ہاں مرضی مولیٰ اور چیز ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 یہ خطاب یا تو عام انسانوں کو ہے یا پھر نبی کے واسطے سے امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیونکہ نبی کو تو وحی کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو کتاب پڑھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں کا مطلب ہے کہ قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابیں (تورات و انجیل وغیرہ) یعنی جن کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں ان سے اس قرآن کی بابت معلوم کریں کیونکہ ان میں اس کی نشانیاں اور آخری پیغمبر کی صفات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] شک کا علاج اہل علم سے تحقیق کرنا ہے :۔ بظاہر یہ خطاب رسول اللہ کی طرف ہے لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں اور یہ خطاب محض تاکید مزید کی بنا پر ہے وجہ یہ ہے کہ ہر نبی منزل من اللہ وحی پر سب سے پہلے خود ایمان لاتا ہے پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے اور شک اور ایمان دو بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ آپ بھلا اس بات میں کیسے شک کرسکتے تھے جس کی تمام دنیا کو دعوت دے رہے تھے اور سننے والوں کے دلوں میں بھی پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین پیدا کردیتے تھے اب اگر اللہ کی نازل کردہ وحی میں کسی شخص کو شک پیدا ہو کہ آیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے یا نہیں تو اس کا علاج یہ نہیں کہ وہ شک میں ہی پڑا رہے بلکہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر سابقہ آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ ان سے پوچھ کر اپنا شک دور کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی تھی جو آپ پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم ان میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جن میں سے کچھ ایمان لے آئے اور بعض نے بعض دوسری وجوہ کی بنا پر قبول نہیں کیا تھا پھر چونکہ اصولی لحاظ سے سب آسمانی کتابوں کی تعلیم ملتی جلتی ہے لہذا اہل کتاب میں سے بھی منصف لوگ یہ شہادت دے دیتے تھے کہ فی الواقع یہ آسمانی کتاب ہے۔ اور آپ کے اور صحابہ کے شک نہ کرنے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے یا صحابہ نے کبھی اہل کتاب سے یہ بات نہ پوچھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ ۔۔ : اس سورت کا اصل موضوع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ثبوت اور مخالفین کے شبہات کی تردید ہے۔ یہاں سورت کے آخر میں پھر اصل موضوع کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ مشرکین عرب چونکہ ان پڑھ اور آسمانی کتابوں کے علم سے بےبہرہ تھے، اس لیے ان کو توجہ دلائی کہ اگر تمہیں کوئی شک ہے، خود علم نہیں ہے تو ان علمائے یہود سے دریافت کرلو جو تورات وغیرہ کا آسمانی علم رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو منصف مزاج اور اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ قرآن واقعی آسمانی کتاب اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، کیونکہ ان کی کتابوں میں جگہ جگہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارتیں موجود ہیں اور آپ کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض یہ خطاب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مقصود مشرکین عرب کو توجہ دلانا ہے، ورنہ آپ کو اپنی رسالت پر شک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات ایک بات بطور فرض و تقدیر کی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ فی الواقع ایسا ہے، یعنی اگر فرض کریں آپ کو کوئی شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لیں، ان کی کتابوں میں آپ کا واضح ذکر خیر موجود ہے، پھر شک کیسا ؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ جب عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ؟ تو وہ اپنے تفصیلی بیان میں یہ بھی کہیں گے : (اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ) [ المائدۃ : ١١٦ ] یعنی فرض کریں کہ میں نے یہ بات کہی تھی تو یا اللہ تجھ سے تو اوجھل نہیں رہ سکتی۔ مطلب صاف ہے کہ میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ شک تھا نہ آپ کو کسی اہل کتاب سے پوچھنے کی ضرورت تھی۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہاں ” کُنْتَ فِی شَکٍ “ میں ہر انسان کو براہ راست خطاب ہے، کیونکہ یہ کتاب ہر ایک کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں بظاہر خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ آپ کو وحی میں شک ہونے کا احتمال نہیں، اس لئے اس خطاب کے ذریعہ مقصود امت کو سنانا ہے خود آپ مقصود نہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب عام انسان کو ہو، کہ اے انسان اگر تجھ کو اس وحی الہٰی میں کوئی شک ہے جو بواسطہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری طرف بھجی گئی تو تو ان لوگوں سے دریافت کر جو تجھ سے پہلے اللہ کی کتاب تورات و انجیل پڑھتے تھے وہ تجھے بتلائیں گے کہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی کتابیں محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشخبری دیتی آئی ہیں، جس سے تیرے وساوس دور ہوجائیں گے۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو دین کے معاملہ میں کوئی شبہ پیش آجائے تو اس پر لازم ہے کہ علماء حق سے سوال کرکے اپنے شبہات دور کرے ان کی پرورش نہ کرتا رہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۝ ٠ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝ ٩٤ ۙ- شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر بالفرض آپ اس کتاب یعنی قرآن کریم کے بارے میں کسی شک میں ہوں جس کو ہم نے بذریعہ جبریل امین آپ پر اتارا ہے تو آپ توریت کے پڑھنے والوں یعنی حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں سے پوچھ لیجئے، چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو قرآن کریم کے کتاب خداوندی ہونے میں کسی قسم کا ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا، اس لیے آپ نے کسی سے نہیں پوچھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا مقصود اس کتاب خصوصی سے ذات اقدس (رض) نہیں ہیں بلکہ مراد آپ کی قوم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ )- یہاں خطاب بظاہر محمد رسول اللہ سے ہے ‘ لیکن اس بات کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں کہ آپ کو اس میں کوئی شک ہوتا لہٰذا اصل میں روئے سخن اہل مکہ کی طرف ہے۔ بعض اوقات جس سے بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے رویے کی وجہ سے اس سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اسے براہ راست مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص سے بات کی جاتی ہے تاکہ اصل مخاطب بالواسطہ طور پر اسے سن لے۔ چناچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اے مشرکین مکہ اگر تم لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے رسول پر نازل کی ہے :- (لَقَدْ جَآءَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ )- یہ اسی انداز تخاطب کا تسلسل ہے کہ حضور کو مخاطب کر کے مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہے، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ کو قرآنِ کریم کی سچائی میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا اس لئے درحقیقت سنانا دوسروں کو مقصود ہے کہ جب آپ کو یہ انتباہ کیا جارہا ہے تو دوسروں کو تو اور زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔