Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 یہ بھی دراصل مخاطب امت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تکذیب کا راستہ خسران اور تباہی کا راستہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا۔۔ : یہاں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے امت ہی کو سمجھایا جا رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چو تھی، پانچویں اور چھٹی آیتوں میں اسی مضمون کی تائید و تاکید اور غفلت برتنے والوں کو تنبیہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٩٥- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک آپ کے رب کی طرف سے جبریل امین قرآن کریم آپ پر لے کر آئے ہیں جس میں گزشتہ اقوام کی بھی باتیں ہیں، سو آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں (خطاب خاص ہے مراد عام لوگ ہیں) اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کو جھٹلایا، کہیں نعوذ باللہ آپ اس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچا بیٹھیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :96 یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل بات ان لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے ۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے ، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی ، مگر اہل کتاب کے علماء میں سے جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کرسکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیاء علیہم السلام دیتے رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani