5۔ 1 مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس غفلت کا انجام اسطرح یقینی طور پر جان لو جس طرح دنیا کی کسی دیکھی بھالی چیز کا تم یقین کرتے ہو تو تم یقینا تکاثر و تفاخر میں مبتلا نہ ہو۔
کلالو تعلمون علم الیقین…:” لترون “” رای یری رویہۃ “ (ف) (دیکھنا) سے جمع حاضر فعل مضارع معلوم بانون تاکید ثقلیہ ہے، تم ضرور بالضرور دیکھو گے۔ ان آیات کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حاقہ کی آیت (٥١) کی تفسیر۔ مسلمان اور کافر سبھی جہنم کو دیکھیں گے، جیسا کہ فرمایا :(وان منکم الا واردھا) (مریم : ٨١)” تم میں سے ہر کوئی اس پر وارد ہوگا۔ “ پھر اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لیں گے، کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا۔
لو تعلمون علم الیقین، حرف لو جو شرط کے لئے آتا ہے اس کے مقابل کوئی جزاء ہونا چاہئے وہ بقرینہ سیاق اس جگہ حذف کردی گئی ہے یعنی لما الھکم التکاثر یعنی اگر تم کو قیامت کے حساب کتاب کا یقین ہوتا تو تم اس تکاثر اور تغافل میں نہ پڑتے۔
(5 ۔ 7) ۔ ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لیتے کہ دنیا میں جو تم نے فخر کیا ہے قیامت میں اس پر کیا مواخذہ ہوگا۔ واللہ قیامت کے دن دوزخ کو دیکھو گے اور تم سب لوگوں سے کھانے، پینے، پہننے کی سب نعمتوں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
آیت ٥ کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ۔ ” کوئی بات نہیں کاش کہ تم علم یقین کے ساتھ جان جاتے “- یعنی موت یا قیامت کا علم دراصل یقینی علم ہے ‘ کاش کہ تمہیں اس کا شعور ہوتا۔ حکماء کے ہاں ہمیں یقین کے تین درجوں کا ذکر ملتا ہے : علم الیقین ‘ عین الیقین اور حق الیقین۔ علم الیقین وہ یقین ہے جو انسان کو علم ‘ معلومات یا استدلال کی بنیاد پر حاصل ہو۔ مثلاً آپ نے دور سے دھواں اٹھتا دیکھا تو آپ نے کہا کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے ‘ حالانکہ آگ آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ پھر جب آپ نے وہاں جا کر خود اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لیا تو آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔ لیکن حق الیقین کا درجہ اس سے بھی آگے ہے ۔ یقین کا یہ درجہ باقاعدہ تجربے سے حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ آنکھ سے دیکھنے میں بھی دھوکے کا امکان ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی چیز جیسی نظر آرہی ہے حقیقت میں بھی ویسی ہو۔ جیسے آج کل بعض الیکٹرک ہیٹرز میں انگارے دہکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ‘ لیکن جب آپ غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو محض دکھاوے کا منظر ہے اور حرارت کا اصل منبع کہیں اور ہے۔ چناچہ آگ کے بارے میں آپ کو ” علم الیقین “ تو محض دھواں دیکھنے سے ہی حاصل ہوگیا۔ پھر جب آپ نے آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو آپ کا یقین ” عین الیقین “ میں بدل گیا۔ اس کے بعد جب آپ نے آگ کو چھو کر یا اس کے قریب ہو کر اس کی حرارت کو عملی طور پر محسوس کیا تو آگ کی موجودگی کے بارے میں آپ کا یقین ” حق الیقین “ کے درجے میں آگیا۔