اس سے مراد مال جمع کرتا ہے اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا۔ ورنہ مطلق مال جمع کرکے رکھنا مذموم نہیں ہے۔ یہ مذموم اس وقت ہے جب اس میں زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ نہ کا اہتمام نہ ہو۔
[٢] ان کا ایسی حرکتیں کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ مالدار تھے اور اپنی دولت کے نشہ میں مسلمانوں کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر ایسی حرکتیں کرتے تھے۔ مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بخیل بھی انتہا درجے کے تھے۔ روپے پیسے کو محفوظ رکھنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں انہیں خاص لطف آتا تھا۔ واضح رہے کہ اگرچہ ان آیات کا روئے سخن رؤسائے قریش کی طرف ہے۔ لیکن الفاظ عام ہیں اور ان کا اطلاق ایسے تمام مالداروں پر ہوتا ہے جو ان صفات کے حامل ہوں اور یہ تو عام مشاہدہ کی بات ہے کہ مالداروں اور زر پرستوں کو مال جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں ایک خاص فرحت محسوس ہوتی ہے۔
(١) الذی جمع مالا وعددہ، یعنی لوگوں کی عیب جوئی، ان پر طعنہ زنی اور ان کی تحقیر کا اصل باعث اس کی مال جمع کرنے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش اور شدید بخل ہے۔ اس بخل نے چونکہ اس میں فراخ دلی یا ہمدردی وغیرہ کی کوئی خوبی باقی نہیں چھوڑی، اسلئے وہ اپنی خست و کمینگی پر پردہ ڈلانے کے لئے ہر صاحب خیر پر طعن کرتا اور اس کی عیب جؤی کرتا ہے، تاکہ کوئی اس کے بخل و حرص کی مذمت کی طرف متوجہ ہی نہ ہو سکے۔ منفاقین بھی یہی کام کرتے تھے، فرمایا :(الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقت والذین لایجدون الا جھدھم فیسخرون منھم) (التوبۃ : ٨٩)” یہ وہ لوگ ہیں جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور ان پر بھی جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں، سو یہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ “ اس کے عالوہ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے لئے دوسروں کی بدگوئی اور عیب جوئی کرتا ہے اور اپنے آپ کو صاف ستھرا ظاہر کرتا ہے، تاکہ لوگ ہر سودے اور ہر کام میں کسی اور سے معاملہ کرنے کے بجائے صرف اس سے معاملہ کریں اور اس کا مال بڑھتا رہے۔ اگر ” ھمزۃ لمزۃ “ کا واضح نقشہ دیکھنا ہو تو جمہوری انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدو اورں کے بیانات پڑھ لیں کہ وہ سیٹ کے حصول کیلئے اپنے حریفوں پر کس قدر طعن اور بہتان تراشی کرتے ہیں۔- (٢) یعنی مال جو انسان کی ضرورت پوری کرنے اور آسائش حاصل کرنے کا ذریعہ تھا، وہ اس کے لئے اصل مطلوب بن گیا۔ اب وہ اسی کو جمع کرنے اور گن گن کر رکھنے کی دھن میں لگا ہوا ہے۔
تیسری خصلت جس پر عذاب کی وعید اس سورت میں آئی ہے وہ مال کی حرص اور محبت ہے اسی کو آیت میں اس طرح سے تعبیر کیا ہے کہ حرص و محبت مال کی وجہ سے اس کو بار بار گنتا رہتا ہے چونکہ دوسری آیات و روایات اس پر شاید ہیں کہ مطلقاً مال کا جمع رکھنا کوئی حرام و گناہ نہیں اس لئے یہاں بھی مراد وہ جمع کرنا ہے جس میں حقوق واجبہ ادا نہ کئے گئے ہوں یا فخر و تفاخر مقصود ہو یا اس کی محبت میں منہمک ہو کر دین کی ضروریات سے غفلت ہو۔
الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ ٢ ۙ- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے۔
آیت ٢ نِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ ۔ ” جو مال جمع کرتا رہا اور اس کو گنتا رہا۔ “- جس نے اپنی زندگی اور زندگی کی ساری جدوجہد مال کمانے اور اس کا حساب رکھنے میں برباد کردی۔ وہ یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ اس ماہ میرے اکائونٹس میں اتنے فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال میرے اثاثہ جات اس قدر بڑھ گئے ہیں۔
سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 2 پہلے فقرے کے بعد یہ دوسرا فقرہ خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ لوگوں کی یہ تحقیر و تذلیل وہ اپنی مال داری کے غرور میں کرتا ہے ۔ مال جمع کرنے کے لیے جَمَعَ مَالًا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مال کی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے ۔ پھر گن گن کر رکھنے کے الفاظ سے اس شخص کے بخل اور زر پرستی کی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے ۔