Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اخلدہ کا زیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ " اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا " یعنی یہ مال، جسے وہ جمع کر کے رکھتا ہے، اس کی عمر میں اضافہ کر دے گا اور اسے مرنے نہیں دے گا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مال کے جمع کرنے میں اس قدر منہمک ہے جیسے اسے کبھی موت آئے گی ہی نہیں۔ اور اس کا مال علاج وغیرہ کے ذریعہ اس کو موت کے منہ سے بچانے کا سبب بن جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کا یہ مال و دولت ہمیشہ اس کے پاس ہی رہے گا۔ حالانکہ دولت ایک ڈھلتی چھاؤں اور آنی جانی چیز ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یحسب ان مالہ اخلدہ):” خلد یخلد خلوا “ (ن) ہمیشہ رہنا اور ” اخلد یخلد اخلادا “ (افعال) ہمیشہ رہنے والا بنادینا۔” اخلدہ “ ماضی کا صیغہ ہے، اسلئے آیت کا ترجمہ کیا گیا ہے :” وہ گمان کرتا ہے کہ اس کے مال نے اسے ہمیشہ رہنے والا بنادیا۔ “ اس کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ مال کو موت سے بچانے والا سمجھتا ہے، کیونکہ اتنی عمر ہونے کے باوجود وہ مال جمع ہی کرتا جاتا ہے، نہ اللہ کا حق ادا کرتا ہے نہ بندوں کا ، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جمع کیا ہوا مال اسے مرنے نہیں دے گا بلکہ ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ورنہ ساٹھ ستر برس کی عمر میں اپنے لئے کروڑوں اربوں روپے جمع کرنے اور سینکڑوں برس باقی رہنے والی پختہ اور مضبوط عمارتیں بنانے کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ یہ مال اور عمارتیں اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا :(اتبنون بکل ریح ایۃ تعبثون، وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون ) (الشعرائ : ١٢٨، ١٢٩)” کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو ؟ اس حال میں کہ لا حاصل کام کرتے ہو۔ اور بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو، شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۝ ٣ ۚ- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ کافر خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال دنیا میں اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ ۔ ” وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔ “- گویا اس کے مال نے اسے زندئہ جاوید کردیا ہے۔ ایک دولت مند آدمی اپنی دولت کے ذریعے دنیا میں ایسے آثار و نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے اس کا نام دنیا میں ہمیشہ رہے۔ انسان کی اسی خواہش نے اسے اہرام مصر جیسے عجائبات کی تخلیق پر مجبور کیا۔ مشہور انگریزی نظم کے ان الفاظ میں انسان کی اسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے :- - ؔ - - .

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 3 دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے اس کا مال اسے حیات جاوداں بخش دے گا ، یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی ہے اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت اس کو یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوجانا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: جائز طریقے سے مال حاصل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن اُس کی ایسی محبت کہ ہر وقت اِنسان اُسی کی گنتی میں لگا رہے، اُسے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، اور جب کسی شخص پر مال کی محبت اس طرح سوار ہوجائے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری ہر مشکل اسی مال کے ذریعہ آسان ہوگی، اور موت سے غافل ہو کر دُنیا داری کے منصوبے اس طرح بناتا رہتا ہے جیسے یہ مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔