Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 سجیل مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے بنائے ہوئے کنکر۔ ان چھوٹے چھوٹے پتھروں یا کنکروں نے توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے زیادہ مہلک کام کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] سجیل فارسی کے لفظ سنگ گل (بمعنی مٹی کا پتھر) سے معرب ہے۔ یعنی وہ نوکدار کنکریاں جن میں مٹی کی بھی آمیزش ہوتی ہے اور مٹی سے کنکریاں بن رہی ہوتی ہیں۔- [٥] تَرْمِیْھِمْرمی بمعنی کسی چیز کو نشانہ بناکر دور سے پتھر کنکر وغیرہ پھینکنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پرندے ان پر کنکر گراتے تھے۔ بلکہ فرمایا نشانہ بناکر پھینک رہے تھے۔ واضح رہے کہ تیر اندازی کے لیے بھی رمی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا وہ پرندے یا اللہ کے لشکر باقاعدہ ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ترمیھم بحجارۃ من سجیل :” سجیل “ کی تفسیر میں ابن عباس (رض) عنہمانے فرمایا :(ھی سنک وکل) (بخاری، التفسیر، باب سورة :(الم تر) ، قبل ح، ٣٩٦٣)” اس سے مراد سنگ و گل ہے۔ ” یعنی پکی ہوئی مٹی جسے کھنگرکہا جاتا ہے۔ لاوا اگلنے والے پہاڑوں کے اردگرد اس قسم کے جلے ہوئے سخت سنگریزے عام ملتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بحجارة من سجیل سجیل بکسر سین سنگ گل کا معرب کیا ہوا لفظ ہے جس کے معنے ہیں ایسی کنکریں جو تر مٹی کو آگ میں پکانے سے بنتی ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کنکریں بھی خود کوئی طاقت نہ رکھتی تھیں معمولی گارے اور آگ سے بنی ہوئی تھیں مگر بقدرت حق سبحانہ، انہوں نے ریوالور کی گولیوں سے زیادہ کام کیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ۝ ٤ - رمی - الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى- [ الأنفال 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالقذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ- [ النور 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض .- ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو " قذف " کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔- وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔- حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - سجل - والسِّجِّيلُ : حجر وطین مختلط، وأصله فيما قيل : فارسيّ معرّب، والسِّجِلُّ : قيل حجر کان يكتب فيه، ثم سمّي كلّ ما يكتب فيه سجلّا، قال تعالی: كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء 104] «6» ، أي : كطيّه لما کتب فيه حفظا له .- ( س ج ل ) السجل - ۔ السجیل سنگ گل کو کہتے ہیں اور اصل میں جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے بعض نے کہا ہے کہ السجل کے اصل معنی اس پتھر کے ہیں جس پر لکھا جاتا تھا بعد ہ ہر اس چیز کو جس پر لکھا جائے سجل کہنے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء 104] جیسے خطول کا مکتوب لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ یعنی لکھی ہوئی چیزوں کی حفاظت کے لئے اسے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔ ” جو ان پر مارتے تھے کنکر کی پتھریاں۔ “- رَمٰی یَرْمِی رَمْیًاکا معنی ہے پھینکنا ‘ مارنا۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو بھی ” رمی جمرات “ کہا جاتا ہے۔- لفظ سِجِّیْلدراصل فارسی ترکیب ” سنگ ِگل “ سے معرب ہے (فارسی کی ” گ “ عربی میں آکر ” ج “ سے بدل گئی ہے) ۔ فارسی میں سنگ بمعنی پتھر اور گل بمعنی مٹی استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ سنگ ِگل کے لغوی معنی ہیں مٹی کا پتھر۔ اس سے مراد وہ کنکریاں ہیں جو ریتلی زمین پر ہلکی بارش برسنے اور بعد میں مسلسل تیز دھوپ چمکنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ یعنی بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ جو ریت ملی مٹی گیلی ہوجاتی ہے وہ بعد میں مسلسل تیز دھوپ کی حرارت سے پک کر سخت کنکری بن جاتی ہے۔ - ابرہہ کے لشکرجرار کو تباہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی غیر معمولی طاقت کے استعمال کی ضرورت نہ پڑی ‘ بلکہ اس نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ُ جھنڈ بھیج دیے جو ساحل سمندر کی طرف سے امڈ پڑے اور چند لمحوں کی سنگ باری سے اس لشکر کا بھرکس نکال دیا۔ ان میں سے ہر پرندہ تین چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھائے ہوئے تھا ‘ ایک اپنی چونچ میں اور دو اپنے پنجوں میں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الفیل حاشیہ نمبر : 6 اصل الفاظ ہیں بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ، یعنی سجیل کی قسم کے پتھر ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گل کا معرب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہوگیا ہو ۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ سورہ ہود آیت 82 اور سورہ حجر آیت 74 میں کہا گیا ہے کہ قوم لوط پر سجیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے ، اور انہی پتھروں کے متعلق سورہ ذاریات آیت 33 میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حجارۃ من طین ، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے ۔ مولانا حمید الدین فراھی مرحوم ، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے ، اس آیت میں ترمیہم کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے ، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں ۔ اس تاویل کے لیے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب کا ابرھہ کے پاس جاکر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے ، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے ، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھپے ہوں ۔ اس لیے صورت واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے ، اور اللہ تعالی نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا ، پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے ۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں ، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبدالمطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنے گئے تھے ، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے ۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ 60 ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا ، وہ تو غزوہ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی ، پھر بھلا وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کرسکتے تھے ۔ تاہم ان ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف سورہ فیل کی ترتیب کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اس کے خلاف پڑتی ہے ۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے ، اور اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے ، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ ( تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ، پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ، اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے ) لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے ، پھر اس کے متصلا بعد تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ( جو ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ) فرمایا ہے اور آخر میں کہا کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani