5۔ 1 یعنی ان کے اجزائے جسم اس طرح بکھر گئے جیسے کھائی ہوئی بھوسی ہوتی ہے۔
[٦] عَصْفٌ بمعنی غلہ کے دانہ کے اوپر کے پردے اور چھلکے نیز توڑی اور بھوسہ وغیرہ جو مویشیوں کے لیے چارہ کا کام دیتا ہے۔ اور عَصْفٍ مَاکُولٍ سے مراد یا تو چارے کا وہ حصہ یا ڈنٹھل ہیں جو جانور چرنے کے بعد آخری حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا چارے کا وہ حصہ ہے جو جانور کھاتے وقت یا جگالی کرتے وقت منہ سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ گویا اس عذاب کے بعد ہاتھی والوں کی لاشوں کی حالت بھی سخت بگڑ گئی تھی۔- جو لوگ قرآن میں مذکور معجزات کی مادی تاویل کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں وہ اس معجزہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ چناچہ دور حاضر میں پرویز صاحب نے اپنی تفسیر مفہوم القرآن میں اس کی آخری تین آیات کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے : (انہوں (یعنی اصحاب الفیل) نے پہاڑ کے دوسری طرف ایک غیر مانوس خفیہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ وہ تم پر اچانک حملہ کردیں لیکن چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ (جو عام طور پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں فطری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں گی) ان کے سروں پر منڈلاتے ہوئے آگئے اور اس طرح تم نے دور سے بھانپ لیا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر آرہا ہے (یوں ان کی خفیہ تدبیر طشت ازبام ہوگئی) چناچہ تم نے ان پر پتھراؤ کیا۔ اور اس طرح اس لشکر کو کھائے ہوئے بھس کی طرح کردیا۔ (یعنی ان کا کچومر نکال دیا۔ ) (مفہوم القرآن ص ١٤٨٤) - خ پرویزی تاویل اور اس کا جواب :۔ اب دیکھیے پرویز صاحب کا بیان کردہ مفہوم درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔- ١۔ آپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ عام طو پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں تاکہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں دور نبوی میں بیشمار جنگیں ہوئیں تو کیا کسی اور موقع پر بھی چیلوں اور گدھوں کے لشکر کے اوپر منڈلائے تھے ؟ دور نبوی کے علاوہ اور کسی بھی جنگ کے موقعہ پر کہیں اوپر چیلیں اور گدھ کبھی نہیں منڈلائے۔ لہذا یہ پرویز صاحب کی گپ ہے۔- ٢۔ سجیل کا معنی پہاڑوں کے پتھر نہیں۔ بلکہ مٹی ملے کنکر ہیں اور یہ فارسی لفظ سنگ گل سے معرب ہے۔- ٣۔ ایسے کنکر یا کنکریاں پہاڑوں کے اوپر نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ایسی کنکریوں سے کسی ایسے لشکر جرار کو ہلاک کیا جاسکتا ہے جس میں ہاتھی بھی ہوں۔- ٤۔ تَرْمِیْ واحد مونث غائب کا صیغہ پرندوں کی جماعت کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن آپ نے اس کا ترجمہ تم نے ان پر پتھراؤ کیا بیان فرمایا۔ یہ تَرْمُوْنَ کا ترجمہ ہے۔ ترمی کا نہیں ہوسکتا۔- ٥۔ علاوہ ازیں تاریخ سے بھی ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکتی کہ اہل مکہ اصحاب الفیل کے مقابلے کے لیے نکلے ہوں۔
(١) فجعلھم کعصف ماکول :” عصف “ اناج کے دانوں سے جو چھلکا اترتا ہے، بھوسا، توڑی۔” ماکول “ ” اکل یا کل اکلا “ (ن) سے اسم مفعول ہے، کھایا ہوا، کھائے ہوئے بھس سے مراد جانور کی لید ہے، کیونکہ جانور بھس کھا کر لید کرتا ہے اور پھر وہ خشک ہو کر ادھر اھدر بکھر جاتی ہے۔ سنگریزوں کے عذاب سے ان کے اعضا کے بکھر جانے کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (طبری) اللہ تعالیٰ کے استعمال میں اعلیٰ درجے کی شائستگی اختیار فرماتے ہیں، اس مفہوم کو ” لید “ کے بجائے ” کھائے ہوئے بھس “ کے الفاظ میں ادا کیا ہے، اس سے ان کی زبوں حلای بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ (قاسمی بحوالہ شہاب) یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جانوروں کے کھانے کے بعد جو بھوسا بچ جاتا ہے اسے وہ پاؤں میں روند دیتے ہیں اور وہ ادھر ادھر بکھر جاتا ہے، وہ اس بھوسے کی طرح ہوگئے۔
فجعلھم کعصف ماکول عصف، بھوسہ کو کہتے ہیں اول تو خود بھوسہ ہی منتشر تنکے ہوتے ہیں، پھر جبکہ اس کو کیک جانور نے چبا بھی لیا ہو تو تنکے بھی اپنے حال پر نہیں رہتے۔ ابرہہ کے لشکر میں جس پر یہ کنکر پڑی ہے اس کا یہی حال ہوگیا ہے۔ اصحاب فیل کے اس عجیب و غریب واقعہ نے پورے عرب کے دلوں میں قریش کی عظمت بڑھا دی اور سب ماننے لگے کہ یہ لوگ اللہ والے ہیں ان کی طرف سے خود حق تعالیٰ جل شانہ نے ان کے دشمن کو ہلاک کردیا (قرطبی) اسی عظمت کا یہ اثر تھا کہ قریش مکہ مختلف ملکوں کا سفر بغرض تجارت کرتے تھے اور راستہ میں کوئی ان کو نقصان نہ پہنچاتا حالانکہ اس وقت دوسروں کے لئے کوئی سفر ایسے خطرات سے خالی نہیں تھا۔ قریش کے انہی سفروں کا ذکر آگے اگلی سورت سورة قریش میں کر کے ان کو شکر نعمت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔- تمت سورة الفیل بحمد اللہ تعالیٰ
فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ ٥ ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- عصف - العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ.- قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک .- ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ - کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔
آیت ٥ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ ۔ ” پھر اس نے کردیا ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح۔ “- یعنی اس پورے لشکر کی حالت اس چارے یا ُ بھس کی طرح ہوگئی جسے جانوروں نے کھا کر چھوڑ دیا ہو۔
سورة الفیل حاشیہ نمبر : 7 اصل الفاظ ہیں كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ ، عصف کا لفظ سورہ رحمان آیت 12 میں آیا ہے ۔ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ اور غلہ بھوسے اور دانے والا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عصف کے معنی اس چھلکے کے ہیں جو غلے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانے نکال کر پھینک دیتے ہیں ، پھر جانور اسے کھاتے بھی ہیں ، اور کچھ ان کے چبانے کے دوران میں گرتا بھی جاتا ہے ، اور کچھ ان کے پاؤں تلے روندا بھی جاتا ہے ۔