Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] لاِ یْلاَفِ میں ابتدائی لام تعلیل کے لیے آیا ہے یعنی چونکہ اللہ نے قریش کے منتشر افراد کو مکہ میں ایک مقام پر اکٹھا کردیا تھا ان میں الفت پیدا کردی تھی اور وہ ایک دوسرے سے مانوس تھے۔ پھر کعبہ کی تولیت بھی ان کے سپرد کردی تھی۔ مزید برآں انہیں گرمی اور سردی کے تجارتی سفروں سے مانوس کردیا تھا لہذا انہیں چاہیے کہ وہ اس گھر یعنی کعبہ کے مالک ہی کی عبادت کریں۔ کیونکہ قریش معاشرتی، سیاسی، تمدنی اور تجارتی جو فوائد بھی حاصل کر رہے تھے وہ اس کعبہ کی بدولت ہی حاصل کر رہے تھے۔ لہذا انہیں صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنی چاہیے جو اس گھر کا مالک ہے۔ دوسرے معبودوں یا ان تین سو ساٹھ بتوں کی نہیں کرنی چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فلیعبدوا رب ھذا البیت، انعامات کا ذکر کرنے کے بعد ان کا شکر ادا کرنے کے لئے قریش کو خصوصی خطاب کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ اس کے گھر کے مالک کی عبادت کیا کرو۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے رب البیت ہونے کی صفت کو خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی بیت کعبہ ان کے تمام فضائل اور برکات کا سرچشمہ تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ۝ ٣ ۙ- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(3 ۔ 4) ان کو چاہیے کہ اس خانہ کعبہ کے رب کو توحید اختیار کریں جس نے سات سالہ قحط کے بعد ان کا پیٹ بھرایا یہ کہ جس نے ان سے بھوک مشقت اور سردی و گرمی کے سفر کی تکلیف کو دور کیا قریش سال میں دو مرتبہ سفر تجارت کیا کرتے تھے سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں ملک شام کی جانب اور دشمن کے خوف سے ان کو امن دیا، یا یہ کہ حبشہ کے بادشاہ کے خف سے ان کو امن دیا۔- شان نزول : لایلف قریش الخ - امام حاکم نے حضرت ام ہانی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو سات باتوں میں فضیلت عطا فرمائی چناچہ اسی میں بیان کیا کہ ان کے بارے میں مستقل طور پر سورة قریش نازل ہوئی کہ اس میں ان کے علاوہ اور کسی کا ذکر نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ ۔ ” پس انہیں بندگی کرنی چاہیے اس گھر کے رب کی۔ “- ظاہر ہے ان کے جدا مجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کا یہ گھر (ع ” دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا “ ) توحید کے مرکز کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اس گھر کے پہلو میں بساتے وقت توحید کے اعتبار سے ان کی ذمہ داری کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا : لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ تاکہ وہ اللہ کی بندگی کے طور پر نماز قائم کریں۔ چناچہ چاہیے تو یہ تھا کہ جس کعبہ کی تولیت کی وجہ سے انہیں خوشحالی اور عزت ملی تھی وہ اس گھر کے مالک کو پہچانتے اور اس کا حق ادا کرتے ۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے اللہ کے اس گھر میں ٣٦٠ بت نصب کرکے اسے دنیا کے سب سے بڑے بت کدے میں تبدیل کردیا اور اس کے اصل مالک کو بالکل ہی فراموش کردیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القریش حاشیہ نمبر : 3 اس گھر سے مراد خانہ کعبہ ہے اور اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے ، اور وہ خود مانتے ہیں کہ وہ 360 بت اس کے رب نہیں ہیں جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ، بلکہ صرف اللہ ہی اس کا رب ہے ۔ اسی نے ان کو اصحاب فیل کے حملے سے بچایا ۔ اسی سے انہوں نے ابرھہ کی فوج کے مقابلے میں مدد کی دعا کی تھی ۔ اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ عرب کے عام قبائل کی طرح وہ بھی ایک نسل کے بکھرے ہوئے گروہ تھے ۔ مگر جب وہ مکہ میں اس گھر کے گرد جمع ہوئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو سارے عرب میں محترم ہوگئے ۔ اور ہر طرف ان کے تجارتی قافلے بے خوف و خطر آنے جانے لگے ۔ پس انہیں جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے اس گھر کے رب کی بدولت نصیب ہوا ہے ، اس لیے اسی کی ان کو عبادت کرنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani