4۔ 1 مذکورہ تجارت اور سفر کے ذریعے سے۔ 4۔ 2 عرب میں قتل و غارت گری عام تھی لیکن قریش مکہ کو حرم مکہ کی وجہ سے جو احترام حاصل تھا، اس کی وجہ سے وہ خوف و خطرے سے محفوظ تھے۔
[٣] قریش مکہ پر اللہ کے احسانات :۔ مکہ اور اس کے آس پاس کا تمام علاقہ یا پہاڑی ہے یا ریگستانی۔ جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی بلکہ پورے علاقہ حجاز کا یہی حال تھا۔ لوگوں کا عام پیشہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنا تھا۔ یا پھر لوٹ مار اور ڈاکہ زنی۔ عرب قبائل تجارتی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور ایک دوسرے کو بھی۔ اس بدامنی اور رہزنی سے صرف قریش بچے ہوئے تھے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انہیں عرب بھر میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ رہزن قبیلے ان کے تجارتی قافلہ سے تعرض نہیں کرتے تھے، بلکہ جس قافلے کو قریش پروانہ راہداری دے دیتے وہ بھی محفوظ سفر کرسکتے تھے۔ اور قریش کا وطن مکہ تو ویسے ہی امن والا شہر تھا اور لوگ یہیں آکر پناہ لیتے تھے۔ قریش کے قافلوں سے راستہ میں جگاٹیکس بھی وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ قریش کے بدامنی سے محفوظ ہونے کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص کبھی نادانستہ کسی قریش پر حملہ آور ہوتا اور وہ صرف اتنا کہہ دیتا کہ انا حرمی تو حملہ آور کے اٹھے ہوئے ہاتھ وہیں رک جاتے تھے۔ قریش مکہ کو دوسرے قبائل عرب پر جو سیاسی اور معاشی تفوق حاصل تھا اس کی وجہ محض کعبہ کی تولیت تھی۔ جسے تمام قبائل عرب اللہ کا گھر سمجھتے تھے۔ اس اللہ کے گھر میں ٣٦٠ بت رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن توڑا تھا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سارے بت صرف قریش کے نہیں تھے بلکہ تمام قبائل عرب اپنے اپنے بت کا ایک مثنیٰ بیت اللہ میں بھی لا کر رکھ دیتے تھے اور یہ قریش کی مہربانی تھی کہ کسی قبیلہ کو اپنا بت بیت اللہ میں رکھنے دیں یا نہ رکھنے دیں۔ کیونکہ بیت اللہ کے متولی یہی لوگ تھے۔ پھر اگر کوئی قبیلہ قریش مکہ سے کوئی ناروا سلوک کرتا تو قریش اس قبیلہ کے بت کی گردن مروڑ سکتے تھے۔ اسے توڑ پھوڑ بھی سکتے تھے اور کعبہ سے باہر بھی پھینک سکتے تھے۔ بالفاظ دیگر قبائل عرب کعبہ میں اپنے بت اس لیے رکھتے تھے کہ ان کا اور ان کے خدا کا نام بلند ہو اور قریش اس لیے رکھ لیتے تھے کہ ان قبائل کے خدا ہمارے پاس بطور یرغمال رہیں گے۔ یہ تھی وہ اصل وجہ جس کی بنا پر دوسرے قبائل قریشیوں کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ اور کسی کو ان کے تجارتی قافلوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اور اسی بت پرستانہ نظام کی بدولت قریش مکہ کئی طرح کے فائدے اٹھا رہے تھے۔ چناچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بتوں اور اس بت پرستانہ نظام کے خلاف صدا بلند کی تو قریش نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو پھر تو ہم زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ ہمارے تجارتی قافلے بھی لوٹ مار کی زد میں آجائیں گے۔ قبائل عرب میں جو ہمارا احترام اور عزت کی جاتی ہے وہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا اور ہمارے سیاسی تفوق کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔ ان حالات میں ہم تمہاری باتوں کو کیونکر قبول کرسکتے ہیں ؟ تو قریش کے اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے پانچ جواب دیئے تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ق کے حواشی ٧٨ تا ٨٥) - علاوہ ازیں تھوڑی مدت پہلے ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے اس کے لشکر کو برباد کردیا تھا۔ اس واقعہ سے اہل عرب کے دلوں میں قریش کا عزت و احترام اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی عزت و احترام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہر طرح کی لوٹ مار اور جگا ٹیکس سے محفوظ سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کثیر منافع حاصل ہوجاتا تھا۔ اتنا زیادہ جتنا کسی دوسرے تجارتی قافلے کو ہونا ناممکن تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے عرب قبائل تو بھوکوں مر رہے تھے جبکہ قریش نہایت آسودہ حالی اور امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے انہیں احسانات کا ذکر کرکے فرمایا کہ ان احسانات کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ تم صرف اکیلے پروردگار کی جو اس کعبہ کا مالک ہے عبادت کرتے۔ مگر تم ایسے احسان فراموش ثابت ہوئے ہو کہ اس کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو بھی شریک بنالیتے ہو۔
الذی الطعھم من جوع و امنھم من خوف اس میں قریش مکہ کے لئے دنیا کی ان تمام عظیم نعمتوں کو جمع فرما دیا ہے جو انسان کے خوش عیش رہنے کے لئے ضروری ہیں اطعھم من جوع میں کھانے پینے کی ضروریات داخل ہیں اور امنھم من خوف میں دشمنوں ڈاکوؤں کے خوف سے مامون ہونا بھی شامل ہے اور آخرت کے عذاب سے مامون ہونا بھی۔- فائدہ :۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جو شخص اس آیت کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا میں بھی امن اور بےخوف و خطر رہنے کا سامان فرما دیتے ہیں اور آخرت میں بھی اور جو اس سے انحراف کرے اس سے یہ دونوں قسم کے امن سلب کر لئے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ضرباللہ مثلاً قریتہ کانت امتہ مطمئنتہ یایتھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بانعم اللہ فاذا قھا اللہ لباس الجوع و الخوف بما کانوا یصنعون یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک بستی تھی جو مامون و محفوظ اور ہر خطرہ سے مطمئن تھی اس کا رزق ہر جگہ سے وافر آجاتا تھا، پھر اس بستی والوں نے اللہ کے انعامات کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کی پریشانی میں مبتلا کردیا ان کے کرتوت کی بنا پر - فائدہ عظیمہ :۔ ابو الحسن قزوینی نے فرمایا کہ جس شخص کو کسی دشمن یا اور کسی مصیبت کا خوف ہو اس کے لئے لایلاف قریش کا پڑھنا امان ہے، اس کو امام جزری نے نفل کر کے فرمایا کہ یہ عمل آزمودہ اور جرب ہے۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں اس کو نفل کر کے فرمایا کہ مجھے میرے شیخ حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے خوف و خطر کے وقت اس سورة کے پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر بلا و مصیبت کے دفع کرنے کے لئے اس کی قرات مجرب ہے۔ حضرت قاضی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ میں نے بھی بارہا اس کا تجربہ کیا ہے۔- تمت سورة القریش بحمد اللہ تعالیٰ
الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ٠ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ٤ ۧ- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- جوع - الجُوع : الألم الذي ينال الحیوان من خلّو المعدة من الطعام، والمَجَاعة : عبارة عن زمان الجدب، ويقال : رجل جائع وجوعان : إذا کثر جو عه .- ( ج و ع ) الجوع - ۔ وہ تکلیف جو کسی حیوان کو معدہ کے طعام سے خالی ہونے کی وجہ پہنجتی ہے المجاعۃ خشک سالی کا زمانہ ۔ کہا جاتا ہےء رجل جائع بھوکا آدمی اور جب بہت زیادہ بھوکا ہو تو اسے جو عان کہا جاتا ہے ۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، وقوله : إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأحزاب 72] قيل : هي كلمة التوحید، وقیل : العدالة وقیل : حروف التهجي، وقیل : العقل، وهو صحیح فإنّ العقل هو الذي بحصوله يتحصل معرفة التوحید، وتجري العدالة و تعلم حروف التهجي، بل بحصوله تعلّم كل ما في طوق البشر تعلّمه، وفعل ما في طوقهم من الجمیل فعله، وبه فضّل علی كثير ممّن خلقه . وقوله : وَمَنْ دَخَلَهُ كانَ آمِناً [ آل عمران 97] أي : آمنا من النار، وقیل : من بلایا الدنیا التي تصیب من قال فيهم : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ التوبة 55] . ومنهم من قال : لفظه خبر ومعناه أمر، وقیل : يأمن الاصطلام وقیل : آمن في حکم الله، وذلک کقولک : هذا حلال وهذا حرام، أي : في حکم اللہ . والمعنی: لا يجب أن يقتصّ منه ولا يقتل فيه إلا أن يخرج، وعلی هذه الوجوه : أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنا حَرَماً آمِناً [ العنکبوت 67] . وقال تعالی: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْناً [ البقرة 125] . وقوله : أَمَنَةً نُعاساً- [ آل عمران 154] أي : أمنا، وقیل : هي جمع کالکتبة . وفي حدیث نزول المسیح : «وتقع الأمنة في الأرض» . وقوله تعالی: ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ [ التوبة 6] أي : منزله الذي فيه أمنه .- وآمَنَ : إنما يقال علی وجهين :- أحدهما متعدیا بنفسه، يقال : آمنته، أي :- جعلت له الأمن، ومنه قيل لله : مؤمن .- والثاني : غير متعدّ ، ومعناه : صار ذا أمن .- ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ( سورة الأحزاب 72) ہم نے ( بار ) امانت آسمان اور زمین پر پیش کیا (33 ۔ 72) کی تفسیر میں بعض نے عدل و انصاف مراد لیا ہے ۔ بعض نے حروف تہجی اور بعض نے عقل مراد لی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ معرفت توحید ، عدل و انصاف کا قیام اور حروف تہجی کی معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ انسان کے لئے علوم ممکنہ کی تحصیل اور افعال حسنہ کی سر انجام دہی عقل کے بغیر مشکل ہے ۔ اور عقل کے باعث ہی انسان کو اکثر مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ( سورة آل عمران 97) اور جو شخص اس ( مبارک ) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا (3 ۔ 97) میں امن پانے سے مراد دوزخ کی آگ سے بیخوف ہونا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ ان دنیوی مصائب سے بےخوف ہونا مراد ہے جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جن کے بارے میں إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ( سورة التوبة 55) ۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا زندگی میں ان کو عذاب دے (9 ۔ 55) ارشاد فرمایا ہے اور نہ زیر بحث آیت میں خبر بمعنی انشار ہے یعنی جو شخص حرم میں داخل ہوا ہے امن دیا جائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہلاکت سے بےخوف ہونا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اسے پرامن رہنے دیا جائے جیسے محاورہ ہے ھذاحلال وھذا حرام یعنی اللہ کا حکم یہ ہے کہ یہ جیز حلال ہے اور دوسری حرام ہے لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ مجرم جب تک حرم کے اندر ہے نہ اس سے قصاص لیا جائے اور نہ ہی کسی جرم میں اسے قتل کیا جائے اسی طرح آیت ؛۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا ( سورة العنْکبوت 67) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنا یا ہے (29 ۔ 67) اور آیت وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا ( سورة البقرة 125) اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا (2 ۔ 125) میں بھی امن کے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَمَنَةً نُعَاسًا ( سورة آل عمران 154) ( یعنی ) نیند و نازل فرمائی ) (4 ۔ 154) میں امنۃ بمعنی امن ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کتبۃ کی طرح اٰمن کی جمع ہے نزول مسیح والی حدیث میں ہے ۔ (15) وتقع الامنۃ فی الارض اور زمین میں امن قائم ہوجائیگا اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ( سورة التوبة 6) ۔ پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو (9 ۔ 6) میں مامن ظرف ہے جس کے معنی جائے امن ، ، کے ہیں ۔ امن افعال بنفسہ ۔ جیسے امنتہ ( میں نے اسے امن د یا ) اور اسی معنی کے اعتبار سے اسماء حسنی میں مومن آیا ہے ۔ (2) لاازم جس کے معنی ہیں پرامن ہونے والا ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ .
آیت ٤ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا ” جس نے انہیں بھوک میں کھانے کو دیا “- انہیں رزق عطا فرماکر فاقہ کشی سے محفوظ رکھا۔ جب عرب کے عام لوگ غربت اور تنگ دستی کا شکار تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے قریش ِمکہ کو کامیاب تجارت اور کعبہ کی تولیت کی وجہ سے معاشی خوشحالی سے نواز رکھا تھا۔- وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۔ ” اور انہیں خوف سے امن عطا کیا۔ “- ان کے قافلے سارا سال یمن اور فلسطین کے درمیان بلاخوف و خطر محو ِسفر رہتے تھے۔ خداداد تحفظ کی یہ ضمانت انہیں اس سرزمین میں میسر تھی جہاں ہر طرف جنگل کے قانون کا راج تھا۔
سورة القریش حاشیہ نمبر : 4 یہ اشارہ ہے اس طرف کہ مکے میں آنے سے پہلے جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے ۔ یہاں آنے کے بعد ان کے لیے رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ان کے حق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ اے پروردگار ، میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں ، پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ( ابراہیم ۔ آیت 37 ) سورة القریش حاشیہ نمبر : 5 یعنی جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں ہے اس سے یہ محفوظ ہیں ، عرب کا حال اس دور میں یہ تھا کہ پورے ملک میں کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں کو چین سے سو سکتے ہوں ، کیونکہ ہر وقت ان کو یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اس پر چھاپا مار دے ۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کرسکے ، کیونکہ اکا دکا آدمی کا زندہ بچ کر واپس آجانا ، یا گرفتار ہوکر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امر محال تھا ۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کرسکے ، کیونکہ راستے میں جگہ جگہ اس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا ، اور راستے بھر کے بااثر قبائلی سرداروں کو رشوتیں دے کر تجارتی قافلے بخیریت گزر سکتے تھے ۔ لیکن قریش مکہ میں بالکل محفوظ تھے ، انہیں کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا ۔ ان کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصے میں آتے جاتے تھے ، کوئی یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ قافلہ حرم کے خادموں کا ہے ، انہیں چھیڑنے کی جرات نہ کرسکتا تھا ۔ حد یہ ہے کہ اکیلا قریشی بھی اگر کہیں سے گزر رہا ہو اور کوئی اس سے تعرض کرے تو صرف لفظ حرمی یا انا من حرم اللہ کہہ دینا کافی ہوجاتا تھا ، یہ سنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رک جاتے تھے ۔