شہد سے زیادہ میٹھی اور دودھ سے زیادہ سفید نہر: مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غنودگی سی طاری ہو گئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا یا لوگوں کے اس سوال پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے مسکرائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس پوری سورت کی تلاوت کی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئیگی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائیگا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے نسائی کی حدیث میں ہے یہ واقعہ مسجد میں گذرا اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے مسند کی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں اور روایت میں ہے کہ معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کونسی نہر ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو دے رکھی ہے اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورہ اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے آپ نے فرمایا کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں ( ابن جریر ) اور روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا ( مسند احمد ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے ایک منقطع سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو واللہ اعلم صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائی ہے ابو بشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو حضرت سعید نے فرمایا وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں ۔ اور بھی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو ۔ کوثر ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے عکرمہ فرماتے ہیں نبوت ، قرآن ، ثواب ، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سندا مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوثرجنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالی اسے جزو جسم بنائے اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کر چکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی حضرت ابو عمارہ نے کہا تھا آپ نے فرمایا ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہو چکی ہے بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پر شوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصا نفل فرض نماز اور قربانی اسی وحدہ لا شریک لہ کے نام کی کرتے رہو جیسے فرمایا ( قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ۙ ) 6- الانعام:162 ) مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو اور جگہ ہے ( وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ ١٢١ۧ ) 6- الانعام:121 ) جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو فسق ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد وانحر سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے حضرت شعبی رحمۃ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں حضرت ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع الیدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری تو آپ نے فرمایا اے جبرئیل وانحر سے مراد کیا ہے جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے تو حضرت جبرئیل نے فرمایا اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنا ہے یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وانحر سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو ابن ابی حاتم یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد نحر سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول مقبول صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کر لیا اس کی قربانی نہیں ہوئی ابو بردہ بن نیار رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہوگی آپ نے فرمایا بس وہ تو کھانے کا گوشت ہو گیا صحابی نے کہا اچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہو گا آپ نے فرمایا ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بے برکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائیگا اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابو معیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکے میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے حضرت عطا فرماتے ہیں ابو لہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ یدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کٹ گئی ( صلی اللہ علیہ وسلم و بارک ) اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی ابتر کے معنی ہیں تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مر جاتے تو کہتے ہیں ابتر حضور علیہ السلام کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ ابتر وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا حاشاو کلا اللہ تعالی آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالاباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کر دی گئی ہے آپ کا پیار اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہیگا بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہیگی اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بے حد و بکثرت بھیجتا رہے آمین الحمداللہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورہ کوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ وللہ الحمدوالمنہ ۔
1۔ 1 کوثر، کثرت سے ہے اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر نے " خیر کثیر " کے مفہوم کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں ایسا عموم ہے کہ جس مییں دوسرے معانی بھی آجاتے ہیں۔ مثلاً صحیح حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ اس سے ایک نہر مراد ہے جو جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی جائے گی۔ اس طرح بعض حدیث میں مصداق حوض بتایا گیا ہے، جس سے اہل ایمان جنت میں جانے سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک سے پانی پئیں گے۔ اس حوض میں بھی پانی اسی جنت والی نہر سے آ رہا ہوگا۔ اسی طرح دنیا کی فتوحات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع و دوام ذکر اور آخرت کا اجر وثواب، سب ہی چیزیں " خیر کثیر " میں آجاتی ہیں۔ (ابن کثیر)
[١] کوثر کے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو :۔ کَوْثَر۔ کَثُرَ سے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اہل لغت نے اس کا معنی خیر کثیر لکھا ہے اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ کو عطا کی گئی۔ چناچہ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو اونگھ آگئی۔ اٹھے تو تبسم فرمایا۔ اور تبسم کی وجہ یہ بتائی کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی۔ پھر یہی سورت کوثر پڑھی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا : وہ ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے بہشت میں دی ہے۔ نیز اس سلسلے میں درج ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کے قصہ میں فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے تھے۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ نہر کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا : یہ کوثر ہے (جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) - ٢۔ سیدنا ابو عبیدہ نے سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کوثر سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں وہاں ستاروں کی تعداد جتنے آبخورے رکھے ہیں۔ (حوالہ ایضاً ) - ٣۔ سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : کوثر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی۔ ابو بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر (رض) سے کہا کہ : لوگ تو کہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے سعید نے جواب دیا کہ : جنت والی نہر بھی اس بھلائی میں داخل ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عنایت فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کے دن میدان محشر میں عطا کیا جائے گا۔ جس دن سب لوگ پیاس سے انتہائی بےتاب ہوں گے اور ہر شخص العطش العطش پکار رہا ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حوض پر بیٹھ کر اہل ایمان کو پانی پلائیں گے اور جس خوش قسمت کو اس حوض کوثر کا پانی میسر آجائے گا اسے قیامت کا سارا دن پھر پیاس نہیں لگے گی اور اس سلسلے میں اتنی احادیث صحیحہ وارد ہیں جو تواتر کو پہنچتی ہیں۔- اوپر جو کچھ ذکر ہوا اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت دی گئی اور قرآن جیسی عظیم نعمت دی گئی جس نے ایک وحشی اور اجڈ قوم کی ٢٣ سال کے مختصر عرصہ میں کایا پلٹ کے رکھ دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بلند کیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مشن کو اپنے جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ عرب میں کفر و شرک کا کلی طور پر استیصال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کی ایک ایسی جماعت چھوڑی جو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام دنیا پر چھاگئی۔
(١) انا اعطینک الکوثر :” الکوثر “” کثرۃ “ سے ” فوعل “ کا وزن ہے جو مبالغے کا معنی دے رہا ہے، بےانتہا کثرت۔ یعنی دشمن تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے پاس کچھ نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپ کو بےانتہا دیا ہے۔” الکوثر “ میں وہ ساری خیر کثیر شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی، مثلاً اسلام، نبوت، الخاق حسنہ، بہترین تابع دار امت، جنت اور دوسری نعتیں جو شمار نہیں ہوسکتیں۔ لغت کے لحاظ سے ” اکلوثر “ کا معنی یہی ہے ، البتہ بہت سی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محشر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حوض عطا کرے گا اس کا نام بیھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوثر بتایا۔ اس لحاظ سے یہ تفسیر مقدم ہے، مگر ترجیح کی ضرورت تب ہے جب دونوں تفسیروں میں تعارض ہو، جو یہاں ہے ہی نہیں۔ چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ سعید بن جبیر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہا نہوں نے ” الکوثر “ کے متعلق فرمایا :” اس سے مراد وہ خیر ہے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی۔ “ راوی کہتا ہے کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے ؟ تو سعید (رح) نے کہا :” جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اس خیر میں شامل ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی۔ “ (بخاری التفسیر، سورة :(انا اعطیناک الکوثر): ٣٩٦٦)- (٢) نہر کوثر جنت میں ہے اور حوض کوثر محشر کے میدان میں ہوگا، بعض اوقات اس پر بھی نہر کوثر کا لفظ آتا ہے، کیونکہ اس حوض میں بھی جنت کے دو پرنالوں سے پانی گر رہا ہوگا۔ گویا حوض کا اصل بھی جنت والی نہر کوثر ہے۔ (فتح الباری) انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بینما انا اسیر فی الجنۃ اذا انا بنھر حافتاہ قباب الدر المجوف، قلت ما ھذا یا جبریل ؟ قال ھذا الکوثر الذی اعطاک ربک فاذا طیبہ او طیبہ مسک ادفر) (بخاری، الرفاق، باب فی البعوض : ٦٥٨١)” میں جنت میں چلا جا رہا تھا تو اچانک ایک نہر آگئی جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے کہا :” اے جبریل یہ کیا ہے ؟ “ تو انہوں نے فرمائی :” یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ “ پھر دیکھا تو اس کی خوشبو یا مٹی مہکنے والی کستوری کی طرح تھی۔ ‘- (٣) حوض کو ثم میدان محشر میں ہے، جہں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کا استقبال کریں گے اور انہیں پانی پلائیں گے۔ حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حوض کوثر کی روایات تیس (٣٠) سے زیادہ صحابہ سے آئی ہیں، جن میں سے بیس (٢٠) صحابہ کی احادیث صحیحین میں ہیں، باقی دوسری کتابوں میں ہیں۔ ان کی نقل صحیح ہے اور ان کے راوی مشہور ہیں۔ (دیکھیے فتح لاباری، کتاب الرقاق، باب الحوض)- (٤) ابو ذر (رض) عنہماحوض کوثر میں جنت کے پرنالوں کا گرنا اور حوض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے عر کی : ” اے اللہ کے رسول حوض کے برتن کیسے ہوں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والذی نفس محمد بیدہ لا نیتہ اکثر من عدد نجوم السماء وکوا کبھا ، الا فی اللیلۃ المظلمۃ المصحیۃ ، آنیۃ الجنۃ من شرب منھا لم یظلما اخرما علیہ، یشخب فیہ میزابان من الجنۃ من شرب منہ لم یظما عرضہ مثل طولہ ما بین عمان الی ایلہ ماوہ اشد بیاضا من اللبن واحلی من العسل) (مسلم، الفضائل، باب اثبات حوض نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصفاتہ : ٢٣٠٠)” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اس کے برتن آسمان کے ت اورں سے زیادہ ہیں، یاد رکھو تارے بھی اس رات کے جو تاریک ہو اور بادل کے بغیر ہو۔ جنت کے برتن ایسے ہیں کہ جو ان سے پیے گا کبیھ پیاسا نہ ہوگا، اس وقت کے آخر تک جو اس پر گزرے گا۔ اس حوض میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں، جو اس سے پیے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا، اس کا عرض اس کے طول کے برابر ہے، جتنا عمان سے ایلہ تک فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ “- (٥) کوثر کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے، مشہور امام فقہ ابن جنی نے آیت :(ان شانئک ھوالابتر) کی مناسبت سے ” الکوثر “ کا معنی ” ذریۃ کثیرۃ “ (کثیر اولاد) کیا ہے۔ کفار قریشا ور آپ سے دشمنی رکھنے والے کہتے تھے کہ آپ ” ابتر “ (بےاولاد) ہیں، فوت ہوگئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہم نے آپ کو کوثر یعنی اولاد کثیر عطا فرمائی۔ مراد اولاد فاطمہ ہے، کیونکہ بیٹی کی اولاد بھی قرآن کی رو سے اولاد ہے، جیساک ہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ومن ذریتہ داؤد وسلیمن) (الانعام : ٨٣)” اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو (ہدایت دی) ۔ “ اس کے بعد کئی پیغمبروں کا نام لے کر فرمایا :(وزکریا ویحیی و عیسیٰ والیاس) (الانعام : ٨٥)” یعنی اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے زکریا، یحییٰ ، عیسیٰ اور ال یاس کو بھی ہدیات دی۔ “ معلوم ہوا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، حالانکہ ان کا باپ بالا تفاق تھا ہی نہیں، بلکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹی مریم کی اولاد ہیں۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی بیٹی کی اولاد بھی اس کی اولاد ہوتی ہے۔ (قاسمی) یہ معنی یعنی اولاد کثیر بھی ” اکلوثر “ کے اس معنی میں شامل ہے جو ابن عباس (رض) عنہمانے کیا ہے، یعنی خیر کثیر اور اس کی ” الابتر “ کے ساتھ مناسبت بھی ہے۔
خلاصہ تفسیر - بیشک ہم نے آپ کو کوثر (جنت کی ایک حوض کا نام بھی ہے اور ہر خیر کثیر بھی اس میں شامل ہے) عطا فرمائی ہے (جس میں دنیا و آخرت کی ہر خیر و بھلائی شامل ہے دنیا میں دین اسلام کی بقاء و ترقی اور آخرت میں جنت کے درجات عالیہ سب داخل ہیں) سو (ان نعمتوں کے شکر میں) آپ اپنے پر ورگدار کی نماز پڑھئے (کیونکہ سب سے بڑی نعمت کے شکر میں سب سے بڑی عبادت چاہئے اور وہ نماز ہے) اور تکمیل شکر کے لئے جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت یعنی اسی کے نام کی) قربانی کیجئے (جیسا دوسری آیتوں میں عموماً نماز کے ساتھ زکوة کا حکم ہے اس میں زکوة کے بجائے قربانی کا ذکر شاید اس لئے اختیار کیا گیا کہ قربانی میں مالی عبادت ہونے کے علاوہ مشرکین اور مشرکانہ رسوم کی عملی مخالفت بھی ہے کیونکہ مشرکین بتوں کے نام کی قربانی کیا کرتے تھے۔ آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے قاسم کی بچپن میں وفات پر بعض مشرکین نے جو یہ طعنہ دیا تھا کہ ان کی نسل نہ چلے گی اور ان کے دین کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا، اس کا جواب ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ بےنام و نشان نہیں ہیں بلکہ) بالیقین آپ کا دشمن ہی بےنام و نشان ہے (خواہ ظاہری نسل اس دشمن کی چلے یا نہ چلے لیکن دنیا میں اس کا ذکر خیر باقی نہیں رہے گا۔ بخلاف آپ کے کہ آپ کی امت اور آپ کی یاد نیک نامی، محبت و اعتضاد کے ساتھ بای رہے گی اور یہ سب نعمتیں لفظ کوثر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اگر پسری اولاد کی نسل نہ ہو نہ سہی، جو نسل سے مقصود ہے وہ آپ کو حاصل ہے یہاں تک کہ دنیا سے گزر کر آخرت تک بھی، اور دشمن اس سے محروم ہے۔ ) - معارف و مسائل - شان نزول :۔ ابن ابی حاتم نے سدی سے اور بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت محمد بن علی بن حسین سے نقل کیا ہے کہ جس شخص کی اولاد ذکور مر جائے اس کو عرب ابتر کہا کرتے تھے یعنی مقطوع النسل جس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے قاسم یا ابراہیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تو کفار مکہ آپ کو ابتر کہہ کر طعنہ دینے لگے ایسا کہنے والوں میں عاص بن وائل کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے اس کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جاتا تو کہتا تھا کہ ان کی بات چھوڑو یہ کچھ فکر کرنے کی چیز نہیں کیونکہ وہ ابتر (مقطوع النسل) ہیں جب ان کا انتقال ہوجائے گا ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا، اس پو سورة کوثر نازل ہوئی (رواہ البغوی، ابن کثیر و مظہری) - اور بعض روایات میں ہے کہ کعب بن اشرف یہودی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ آیا تو قریش مکہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ اس نوجوان کو نہیں دیکھتے جو کہتا ہے کہ وہ ہم سب سے (دین کے اعتبار سے) بہتر ہے حالانکہ ہم حجاج کی خدمت کرنے والے اور بیت اللہ کی حفاظت کرنے والے اور لوگوں کو پانی پلانے والے ہیں۔ کعب نے یہ سن کر کہا کہ نہیں تم لوگ اس سے بہتر ہو، اس پر سورة کوثر نازل ہوئی (ذکرہ ابن کثیر عن البزار باسنا (صحیح و قدر واہ مسلم قالہ مظہری) - خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسری اولاد نہ رہنے کے سبب ابتر ہونے کے طعنے دیتے تھے یا دوسری وجوہ سے آپ کی شان میں گستاخی کرتے تھے ان کے جواب میں سورة کوثر نازل ہوئی ہے جس میں ان کے طعنوں کا جواب بھی ہے کہ صرف اولاد نرینہ کے نہ رہنے سے آپ کو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر کہنے والے حقائق سے بیخبر ہیں۔ آپ کی نسل نسبی بھی انشاء اللہ دنیا میں تاقیامت باقی رہے گی اگرچہ دختری اولاد سے ہو اور نسل معنوی یعنی آپ پر ایمان لانے والے مسلمان جو درحقیقت نبی کی اولاد معنوی ہوتے ہیں وہ تو اس کثرت سے ہوں گے کہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں سے بھی بڑھ جائیں گے اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ کے نزدیک مقبول اور مکرم و معظم ہونا بھی مذکور ہے جس سے کعب بن اشرف کے قول کی تردید ہوجاتی ہے۔ یہ سب مضمون سورة کی تیسری آیت میں آیا ہے۔- انا اعطینک الکثور، امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں وایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ” کوثر وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ “ ابن عباس کے خاص شاگرد سعید بن خبیر سے کسی نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوثر جنت کی ایک نہ کا نام ہے تے تو سعید بن جبیر نے جواب دیا کہ (ابن عباس کا قول اس کے منافی نہیں بلکہ) وہ نہر جنت جس کا نام کوثر ہے وہ بھی اس خیر کثیر میں داخل ہے اسی لئے امام تفسیر مجاہد نے کوثر کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ دنیا و آخرت دونوں کی خیر کثیر ہے، اس میں جنت کی خاص نہر کوثر بھی داخل ہے۔- حوض کوثر :۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔ مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔- ایک روز جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں ہمارے درمیان تھے اچانک آپ پر ایک قسم کی نیند یا بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہوئی پھر ہنستے ہوئے آپ نے سر مبارک اٹھایا، ہم نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے، تو فرمایا کہ مجھ پر اسی وقت ایک سورت نازل ہوئی ہے پھر آپ نے بسم اللہ کے ساتھ سورة کوثر پڑھی، پھر فرمایا تم جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے ہم نے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم، آپ نے فرمایا یہ ایک نہر جنت ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے جس میں خیر کثیر ہے اور وہ حوض ہے جس پر میری امت قیاتم کے روز پانی پینے کے لئے آئے گی اس کے پانی پینے کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے اس وقت بعض لوگوں کو فرشتے حوض سے ہٹا دینگے تو میں کہوں گا کہ میرے پروردگار یہ تو میری امت میں ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ آپ نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد کیا نیا دین اختیار کیا ہے۔- ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے مزید لکھا ہے،- حوض کی صفت میں روایات حدیث میں آیا ہے کہ اس میں دو پر نالے آسمان سے کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے۔- اس حدیث سے سورة کوثر کا سبب نزول بھی معلوم ہوا اور لفظ کوثر کی صحیح تفسیر بھی یعنی خیر کثیر، اور یہ بھی کہ اس خیر کثیر میں و حوض کوثر بھی شامل ہے جو قیامت میں امت محمدیہ کو سیراب کریگی۔ نیز اس روایت نے یہ بھی واضح کردیا کہ اصل نہر کوثر جنت میں ہے اور یہ حوض کوثر میدان حشر میں ہوگی اس میں دو پرنالوں کے ذریعہ نہر کوثر کا پانی ڈالا جائیگا۔ اس میں ان روایات کی بھی تطبیق ہوگئی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حوض کوثر پر امت کا درود دخول جنت سے پہلے ہوگا اور اس حدیث میں جو بعض لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا دینے کا ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بعد میں اسلام سے پھرگئے یا پہلے ہی سے مسلمان نہیں تھے مگر منافقانہ اظہار اسلام کرتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کا نفاق کھل گیا، واللہ اعلم - احادیث صحیحہ میں حوض کوثر کے پانی کی صفائی اور شیرینی اور اس کے کناروں کا جواہرات سے مرصع ہونے کے متعلق ایسے اوصاف مذکور ہیں کہ دنیا میں ان کا کسی چیز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔- اس سورة کا نزول اگر کفار کے طعنوں کے دفاع میں ہو جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ آپ کی اولاد نرینہ فوت ہوجانے کی وجہ سے وہ آپ کو ابتر مقطوع النسل قرار دے کر کہا کرتے تھے کہ ان کا کام چند روزہ ہے پھر کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا تو اس سورة میں آپ کو کوثر عطا فرمانے کا ذکر جس میں حوض کوثر بھی شامل ہے ان طعنہ زنوں کی مکمل تردید ہے کہ ان کی نسل و نسب صرف یہی نہیں کہ دنیا کی عمر تک چلے گی بلکہان کی روحانی اولاد کا رشتہ محشر میں بھی محسوس ہوگا جہاں وہ تعداد میں بھی تمام امتوں سے زیادہ ہوں گے اور ان کا اعزازو اکرام بھی سب سے زیادہ ہوگا۔
اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ١ ۭ- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- كَوْثَرَ- وقوله : إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ [ الکوثر 1] قيل : هو نهر في الجنّة يتشعّب عنه الأنهار، وقیل : بل هو الخیر العظیم الذي أعطاه النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، وقد يقال للرّجل السّخيّ : كَوْثَرٌ ، ويقال : تَكَوْثَرَ الشیءُ : كَثُرَ كَثْرَةً متناهية، قال الشاعر : وقد ثار نقع الموت حتی تکوثرا - ۔ اور آیت : ۔ إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ [ الکوثر 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے اور بعض نے خیر کثیر مراد لی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو عطا کی اور سخی آدمی کو کوثر کہا جاتا ہے تکو ثر الشئی کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 370 ) وقد ثار نقع الموت حتی تکوثرا موت کا غبار اٹھا ۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ ہوگیا ۔- (1) الکوثر جنت کی ایک نہر اور حوض کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی طور پر عطا کی ہے۔ ( عن انس مرفوعا۔ مسلم)- (2) حضرت ابن عمر (رض) کی مرفوع روایت سے ثابت ہے کہ جنت کے ایک حوض کا نام ہے۔ ( معالم التنزیل)- (3) اس سے مراد قرآن ہے۔ ( حسن بصری)- (4) اس سے مراد قرآن اور نبوت ہے۔ ( عکرمہ)- (5) اس سے مراد عام خیر کثیر ہے۔ ( سعید بن جبیر از ابن عباس (رض) - اہل لغت نے لکھا ہے کہ کوثر ۔ کثرۃ سے بنا ہے جیسے نوفل ۔ نفل سے جو چیز تعداد میں کثیر اور مرتبے میں باعظمت ہو اس کو اہل عرب کوثر کہتے ہیں۔- صاحب معجم القرآن نے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے۔- علامہ نیشاپوری (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔ اس آیت میں گوناگوں مبالغہ ہے :۔ ابتداء ان سے کی گئی ہے جو تاکید پر دلالت کرتا ہے پھر ضمیر جمع استعمال کی گئی ہے ۔ جو تعظیم کا مفہوم دیتی ہے۔- نیز یہاں اعطاء کا استعمال ہوا ہے ایتاء کا نہیں اور اعطاء میں ملکیت پائی جاتی ہے ایتاء میں یہ مفہوم نہیں پایا جاتا۔ پھر یہاں ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو تحقیق پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی کام ہوگیا۔ ( ضیاء القرآن)- علماء تفسیر نے الکوثر کی تفسیر میں متعدد اقوال ذکر کئے ہیں چند ایک یہ ہیں :۔- (1) کوثر سے مراد جنت کی وہ نہر ہے کہ جس سے جنت کی ساری نہریں نکلتی ہیں ۔ ( ابن عمر (رض) - (2) کوثر اس حوض کا نام ہے جو میدان حشر میں ہوگا جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ - (3) اس سے مراد نبوت ہے۔- (4) اس سے مراد قرآن شریف ہے۔- (5) اس سے مراد دین اسلام ہے۔- (6) اس سے مراد صحابہ کرام کی کثرت ہے۔- (7) اس سے مراد رفع ذکر ہے۔ - (8) اس سے مراد مقام محمود ہے۔ - (9) اس سے مراد خیر کثیر ہے۔ ( ابن عباس)- (10) امام جعفر صادق کے نزدیک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کا نور ہے ( اقتباس از ضیاء القرآن)
(1 ۔ 3) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ہے اور قرآن بھی اسی میں سے ہے یا یہ کہ حوض کوثر عطا کی ہے تو اس شکریہ میں نماز پڑھیے اور اپنے سینہ کو قبلہ کی طرف کیجیے یا یہ کہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیے یا یہ کہ رکوع اور سجود کامل طور پر کیجیے تاکہ آپ کا سینہ مبارک ظاہر ہوجائے یا یہ کہ عید الضحیٰ کی نماز پڑھیے اور قربانی ذبح کیجیے۔ آپ کا دشمن یعنی عاص بن وائل ہمہ قسم کی بھلائی اہل و عیال اور مال و دولت سے بےنام و نشان ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا کوئی ذکر کرنے والا نہیں اور آپ کے کمالات ذکر ہو کر رہیں گے۔- ہوا یہ کہ جب حضور کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تو اس وقت ان لوگوں نے آپ کو یہ طعنہ دیا تھا کہ آپ بےنام و نشان ہیں۔- شان نزول : ان شانئک ھو الابتر - بزاز نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ کعب بن اشرف مکہ آیا تو قریش نے اس سے کہا کہ تو ان لوگوں کا سردار ہے کیا اسے بےدین کو نہیں دیکھتا جو اپنی قوم سے علاحدہ ہوگیا اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے حالاں کہ ہم حج والے سقایہ اور سدانہ والے ہیں تو کعب نے کہا تم ان سے بہتر ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی بھیجی تو قریش نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے کٹ گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے کہ قریش کہا کرتے تھے کہ جب کسی کے لڑکے مرجائیں و وہ بےنام و نشان ہوجاتا ہے چناچہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو عاص بن وائل نے کہا محمد بےنام و نشان ہوگئے۔ اور بیہقی نے دلائل میں محمد بن علی سے اسی طرح روایت کیا ہے اور آپ کے صاحبزادے کا نام قاسم بیان کیا ہے۔- اور مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ کہ اس نے کہا تھا کہ میں محمد پر عیب لگانے والا ہوں۔- اور طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ ابو ایوب سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو مشرکین ایک دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اس بےدین کا سلسلہ نسب کٹ گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- ابن جریر نے سعید بن جبیر سے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ حدیبیہ کے دن نازل ہوئی جبریل امین آپ کے پاس آئے اور حکم دیا کہ قربانی کرو اور نماز پڑھو چناچہ آپ نے عید کا خطبہ دیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور پھر اونٹ کو ذبح کیا۔ امام سیوطی کہتے ہیں کہ یہ روایت بہت ہی غریب ہے۔- سمرہ بن عطیہ سے روایت کیا گیا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط کہا کرتا تھا کہ حضور کا کوئی لڑکا باقی نہیں رہے گا اور وہ ان کی نسل کٹی ہوئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ابن منذر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم انتقال فرما گئے تو قریش کہنے لگے کہ حضور کا سلسلہ نسل ختم ہوگیا تو اس چیز سے آپ کو افسوس ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ انا اعطینک الکوثر۔
آیت ١ اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔ “- الکوثر : کثرت سے ماخوذ ہے ‘ اس کا وزن فَوْعَلْ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جاسکے۔ چناچہ اس کا ترجمہ ” خیر کثیر “ کیا گیا ہے۔- ” الکوثر “ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے حوض کوثر مراد ہے ‘ جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ لیکن درحقیقت وہ بھی ” خیر کثیر “ ہی میں شامل ہے۔ ” خیر کثیر “ کی وضاحت سے متعلق بھی تفاسیر میں لگ بھگ پچیس تیس اقوال ملتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے خیرکثیر کی سب سے بڑی مثال خود قرآن مجید ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال حکمت بھی ہے۔ ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اعلیٰ ترین درجے میں حکمت بھی عطا ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط (البقرۃ : ٢٦٩) ” وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ‘ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا “۔ مزید برآں جنت کی نہر کوثر ‘ نبوت کے فیوض و برکات ‘ دین اسلام ‘ صحابہ کرام کی کثرت ‘ رفع ذکر اور مقام محمود کو ” کوثر “ کا مصداق سمجھا دیا گیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو وہ سب کچھ عطا کردیا اور کثرت کے ساتھ عطا کردیا جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور جو نوع انسانی کے لیے ُ طرئہ امتیاز بن سکتا ہے۔
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 1 کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لغوی معنی تو بے انتہا کثرت کے ہیں ، مگر جس موقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت ، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو افراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو ، اور اس سے مراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کی نہیں بلکہ بے شمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے ۔ دیباچے میں اس سورہ کا جو پس منظر ہم نے بیان کیا ہے اس پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال کر دیکھیے ۔ حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر حیثیت سے تباہ ہوچکے ہیں ، قوم سے کٹ کر بے یارو مددگار رہ گئے ۔ تجارت برباد ہوگئی ، اولاد نرینہ تھی جس سے آگے ان کا نام چل سکتا تھا ۔ وہ بھی وفات پاگئی ، بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گنے چنے آدمی چھوڑ کر مکہ تو درکنار پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا ۔ اس لیے ان کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دو چار ہیں اور جب وفات پاجائیں تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو ، اس حالت میں جب اللہ تعالی کی طرف سے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا تو اس سے خودبخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم برباد ہوگئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ ھی تم سے چھن گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتوں سے نواز دیا ہے ۔ اس میں اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضور کو بخشی گئیں ۔ اس میں نبوت اور قرآن اور علم اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئیں ۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے ، عام فہم ، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع و ہمہ گیر اصول تمام عالم میں پھیل جانے اور ہمیشہ پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اس میں رفع ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت حضور کا نام نامی چودہ سو برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہورہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کی دعوت سے بالآخر ایک ایسی عالمگیر امت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین حق کی علمبردار بن گئی ، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے ، اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضور نے اپنی آنکھوں سے اپنی حیات مبارکہ ہی میں اپنی دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہوگئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہوجانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا ، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے ، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو جو جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضور سے اس کا انتساب ہے ۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کسی فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد وہ دو مزید ایسی عظیم نعمتیں بھی ہیں جو آخرت میں اللہ تعالی آپ کو دینے والا ہے ۔ ان کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں ۔ ایک حوض کوثر جو قیامت کے روز میدان حشر میں آپ کو ملے گا ، دوسرے نہر کوثر جو جنت میں آپ کو عطا فرمائی جائے گی ، ان دونوں کے متعلق اس کثرت سے احادیث حضور سے منقول ہوئی ہیں اور اتنے کثیر راویوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ ان کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ حوض کوثر کے متعلق حضور نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہیں: ( ۱ ) یہ حوض قیامت کے روز آپ کو عطا ہوگا اور اس سخت وقت میں جبکہ ہر ایک العطش العطش کر رہا ہوگا ، آپ کی امت آپ کے پاس اس پر حاضر ہوگی ، اور اس سے سیراب ہوگی ۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے ۔ آپ کا ارشاد ہے ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیمۃ ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہوگی ۔ ( مسلم ، کتاب الصلوۃ ، ابو داؤد ، کتاب السنہ ) انا فرطکم علی الحوض ۔ میں تم سب سے پہلے اس پر پہنچا ہوا ہوں گا ( بخاری ، کتاب الرقاق اور کتاب الفتن ، مسلم ، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد ، مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، و ابوہریرہ ) انی فط لکم وانا شھید علیکم وانی واللہ لانظر الی حوضی الانہ ۔ میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں ، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔ ( بخاری ، کتاب الجنائز ، کتاب المغازی ، کتاب الرقاق ) انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا انکم ستلقون بعدی اثرۃ فاصبروا حتی تلقونی علی الحوض ۔ میرے بعد تم کو خود غرضیوں اور اقربا نوازیوں سے پالا پڑے گا ، اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آکر حوض پر ملو ۔ ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار وکتاب المغازی ، مسلم کتاب الامارہ ، ترمذی ، کتاب الفتن ) انا یوم القیامۃ عند عقر الحوض ۔ میں قیامت کے روز حوض کے وسط کے پاس ہوں گا ( مسلم ، کتاب الفضائل ) حضرت ابو برزہ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ، ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چار نہیں پانچ نہیں بار بار سنا ہے ، جو اس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی نصیب نہ کرے ( ابو داؤد ، کتاب السنہ ) عبید اللہ بن زیاد حوض کے بارے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تھا ، حتی کہ اس نے حضرت برزہ اسلمی ، براء بن عازب اور عائذ بن عمرو کی سب روایات کو جھٹلا دیا ۔ آخر کار ابو سبرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں حضور کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا ان موعدکم حوضی خبردار رہو ، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص ) ( ۲ ) اس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ ایلہ ( اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ ایلات ) سے یمن کے صنعا تک ، یا ایلہ سے عدن تک ، یا عمان سے عدن تک طویل ہوگا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا ایلہ سے جحفہ ( جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام ) تک کا فاصلہ ہے ۔ ( بخاری ، کتاب الرقاق ، ابوداؤد الطیالسی ، حدیث نمبر 995 ۔ مسند احمد ، مرویات ابوبکر صدیق و عبداللہ بن عمر ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ و کتاب الفضائل ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ ا سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوض کوثر میں تبدیل کردیا جائے گا ، واللہ اعلم بالصواب ۔ ( ۳ ) اس حوض کے متعلق حضور نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر ( جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) سے پانی لاکر ڈالا جائے گا ۔ یشخب فیہ میزابان من الجنۃ ، اور دوسری روایت میں ہے یغت فیہ میزابان یمدانہ من الجنۃ ، یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لاکر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی ۔ ( مسلم ، کتاب الفضائل ) ایک اور روایت میں ہے یفتح نھر من الکوثر الی الحوض ، جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض کی طرف کھول دی جائے گی ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ) ( ۴ ) اس کی کیفیت حضور نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے ( اور بعض روایات میں ہے چاندی سے اور بعض میں برف سے ) زیادہ سفید ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا ، اس کی تہہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی ، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں ، جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی ۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا ۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت احادیث میں منقول ہوئی ہیں ( بخاری ، کتاب الرقاق ۔ مسلم ، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود ، ابن عمر ، وعبداللہ بن عمرو بن العاص ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزھد ، ابو داؤد طیالسی ، حدیث 995 ۔ 2135 ) ( ۵ ) اس کے بارے میں حضور نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر انہیں نہ آنے دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب میں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو ۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے ( بخاری ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود و ابو ہریرہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک ۔ ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی دردناک الفاظ میں ہے ۔ اس میں حضور فرماتے ہیں الا وانی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجھی ، الا وانی مستنقذ اناسا و مستنقذ اناس منی فاقول یا رب اصیحابی ، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعدک ۔ خبردار رہو ، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا ۔ اس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا ، خبردار رہو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے ، میں کہوں گا کہ اے پروردگار یہ تو میرے صحابی ہیں ، وہ فرمائے گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضور نے عرفات کے خطبے میں فرمائے تھے ) ( ۶ ) اسی طرح حضور نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردو بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں ، میری امت کے لوگ ہیں ، جواب ملے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا ۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں ( بخاری ) کتاب المساقات ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الصلوۃ ، کتاب الفضائل ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ مسند احمد مرویات ابن عباس ) اس حوض کی روایات 50 سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں ، اور سلف نے بالعموم اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے ۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے باب فی الحوض و قول اللہ اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ اور حضرت انس کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضور نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امتی ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہوگی ۔ جنت میں کوثر نامی جو نہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے ۔ حضرت انس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں ( اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں ) کہ معراج کے موقع پر حضور کو جنت کی سیرا کرائی گئی اور اس موقع پر آپ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے قبے بنے ہوئے تھے ۔ اس کی تہ کی مٹی مشک اذفر کی تھی ۔ حضور نے جبریل سے یا اس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی ، پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالی نے عطا کی ہے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمزی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن جریر ) حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا ( یا ایک شخص نے پوچھا ) کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالی نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ اس کی مٹی خشک ہے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۔ ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن جریر ۔ مسند احمد کی ایک اور راویت میں ہے کہ حضور نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں ) ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں ، وہ موتیوں اور ہیروں پر بہ رہی ہے ( یعنی کنکریوں کی جگہ اس کی تہ میں یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں ) اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ، اس کا پانی دودھ سے ( یا برف سے ) زیادہ سفید ہے ، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابن ابی حاتم ، دارمی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ) اسامہ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حمزہ کے ہاں تشریف لے گئے ۔ وہ گھر پر نہ تھے ۔ ان کی اہلیہ نے حضور کی تواضع کی اور دوران گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس کا نام کوثر ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں ، اور اس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد اور موتیوں کی ہے ( ابن جریر ، ابن مردویہ ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے ) ان مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے بکثرت اقوال احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں وہ کوثر سے مراد جنت کی یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت انس بن مالک ، حضرت عائشہ ، مجاہد اور ابوالعالیہ ( رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ) کے اقوال مسند احمد ، بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن مردویہ ، ابن جریر ، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
1: ’’کوثر‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں ’’بہت زیادہ بھلائی ‘‘۔ اور کوثر جنت کی اس حوض کا نام بھی ہے جو حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے تصرف میں دی جائے گی، اور آپ کی امت کے لوگ اُس سے سیراب ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ اُس حوض پر رکھے ہوئے برتن اِتنے زیادہ ہوں گے جتنے آسمان کے ستارے۔ یہاں یہ لفظ اگر ’’بہت زیادہ بھلائی‘‘ کے معنیٰ میں لیا جائے تو اُس بھلائی میں حوضِ کوثر بھی داخل ہے۔