2۔ 1 یعنی نماز بھی صرف اللہ کے لیے اور قربانی بھی صرف اللہ کے لیے ہے مشرکین کی طرح اس میں دوسروں کو شریک نہ کرو۔ نحر کے اصل معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے ذبح کرنا۔ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیری جاتی ہے اسے ذبح کرنا کہتے ہیں۔ لیکن یہاں نحر سے مراد مطلق قربانی ہے، علاوہ ازیں اس میں بطور صدقہ و خیرات جانور قربان کرنا، حج کے موقعے پر منیٰ میں اور عیدالاضحیٰ کے موقعے پر قربانی کرنا، سب شامل ہیں۔
[٢] یعنی ان نعمتوں اور احسانات کے شکریہ کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار کے لیے نماز بھی ادا کیجیے اور قربانی بھی دیجیے۔ بدنی عبادتوں میں سے نماز بہت اہمیت رکھتی ہے اور مالی عبادتوں میں سے قربانی۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ( قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ۙ ) 6 ۔ الانعام :162) یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس پروردگار کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ گویا ان آیات میں مشرکین مکہ پر تعریض ہے جو عبادت بھی بتوں کی کرتے تھے اور قربانی بھی بتوں کے نام پر اور ان کے لیے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا چاہیے۔ واضح رہے بعض علماء نے نحر سے مراد عید الاضحیٰ کے دن کی قربانی لی ہے۔ اور نماز سے مراد اسی دن کی نماز عید جو قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔
(١) فصل الربک وانحر : عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اس آیت میں نماز پڑھنے اورق ربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ یہاں اصل مفہوم یہ ہے کہ نمازپ ڑھو تو صرف اپنے رب کے لئے اور قربانی کرو تو وہ بھی اس کے لئے، کسی غیر کے لئے نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو، تو اس سے مراد نمازپ ڑھنے کا حکم دینا نہیں ہوتا بلکہ مراد یہ حکم ہوتا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھو، بیٹھ کر نہ پھڑو۔ یہی مفہوم سورة انعام میں بھی ادا ہوا ہے، فرمایا :(قل ان صلاتی ون کسی و محیای و مماتی للہ رب العلمین ، لاشریک لہ، وبذلک امرت وانا اول السلمین) (الانعام : ١٦٢، ١٦٣)” کہہ دے بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں۔ “- (٢) اللہ تعالیٰ نے کوثر عطا فرمانے کا احسان ذکر کر کے صرف رب تعالیٰ ہی کے لئے نماز اور قربانی کا حکم دیا۔” اکلوثر “ (خیر کثیر) کے لفظ میں وہ سب کچھ آگیا، جو اللہ نحے آپ کو عطا فرمایا، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں شامل نہ ہو۔” فصل “ کی فاء کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو خیر ثکیر عطا فرمائی ہے تو اس کے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی ہر عبادت (بدنی ہو یا ملای) صرف اسی کے لئے ہونی چاہیے، کسی غیر کے لئے نہیں۔ یہ انتہائی ناشکری ہے کہ ہر نعمت اللہ نے دی ہو اور بدنی یا ملای بندگی کسی اور کی ہو۔- (٣) بظاہر کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی، پس تو ہماری ہی لئے نمازپڑھ اورق براین کر، مگر فرمایا :” تو اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ “ اسے ” التفات “ من المتکلم الی الغائب “ کہتے ہیں۔ مقصد توجہ دلانا ہے کہ رب ہونے کی وج سہے ہمارا حق ہے کہ ہماری ہی عبادت کرو، کسی اور کی نہیں۔- (٤) بعض روایات میں علی (رض) سے مروی ہے کہ ” وانحر “ کا معین نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہے، مگر وہ روایات صحیح نہیں۔ البتہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا مسئلہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
فصل لربک وانحر، انحر، نحر سے مشتق، اونٹ کی قربانی کو نحر کہا جاتا ہے جس کا مسنون طریقہ اس کا پاؤں باندھ کر حلقوم میں نیزہ یا چھری مار کر خون بہا دینا ہے جیسا کہ اگئے بکری وغیرہ کی قربانی کا طریقہ ذبح کرنا یعنی جانور کو لٹا کر حلقوم پر چھری پھیرنا ہے۔ عرب میں چونکہ عموماً قربانی اونٹ کی ہوتی تھی اس لئے قربانی کرنے کے لئے یہاں لفظ وانحر استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات لفظ نحر مطلقاً قربانی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سورة کی پہلی آیت میں کفار کے زعم باطل کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوثر یعنی دنیا و آخرت کی ہر خیر اور وہ بھی کثیر مقدار میں عطا فرمانے کی خوشخبری سنانے کے بعد اسکے شکر کے طور پر آپ کو دو چیزوں کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایک نماز، دوسری قربانی، نماز بدنی اور جسمانی عبادتوں میں سب سے بڑی عبادت ہے اور قربانی مالی عبادتوں میں اس بناء پر خاص امتیاز اور اہمیت رکھتی ہے کہا للہ کے نام پر قربانی کرنا بت پرستی کے شعار کے خلاف ایک جہاد بھی ہے کیونکہان کی قربانیاں بتوں کے نام پر ہوتی تھیں۔ اسی لئے قرآن کریم کی ایک اور آیت میں بھی نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر فرمایا ہے ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی لل رب العالمین اس آیت میں وانحر کے معنے قربانی ہونا حضرت ابن عباس، عطار، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ سے مستند روایات میں ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے جو وانحر کے معنی نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے بعض ائمہ تفسیر کی طرف منسوب کئے ہیں اس کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا کہ روایت منکر (ناقابل اعتبار) ہے۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ٢ ۭ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- نحر - النَّحْرُ : موضِع القِلَادةِ من الصَّدر . ونَحَرْتُهُ : أَصَبْتُ نَحْرَهُ ، ومنه : نَحْرُ البعیر، وقیل في حرف عبد اللہ : فَنَحَرُوهَا وما کادوا يفعلون [ البقرة 71] وانْتَحَرُوا علی كذا : تَقَاتَلُوا تشبيهاً بنَحْر البعیر، ونَحْرَة الشَّهر ونَحِيرُهُ : أوَّله، وقیل : آخر يوم من الشَّهر كأنه ينحر الذي قبله، وقوله : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ- [ الکوثر 2] هو حثٌّ علی مراعاة هذين الرُّكْنين، وهما الصلاة، ونَحْرُ الهَدْي، وأنه لا بدّ من تعاطيهما، فذلک واجب في كلّ دِين وفي كلّ مِلَّة، وقیل :- أَمْرٌ بوَضْع الید علی النَّحْر وقیل : حثٌّ علی قتل النَّفس بقَمْع الشَّهوة . والنِّحْرِير : العالِمُ بالشیء والحاذِقُ به .- ( ن ح ر ) النحر ۔ سینہ کا بالائی حصہ جہاں پر ہارپڑا رہتا ہے نحر تہ کسی کے سینہ پر مارنا اسی سے نحر البعیر ہے جس کے معنی اونٹ کے سینہ پر بر چھا مار کر اسے ذبح کرنے کے ہیں ۔ اور عبداللہ بن مسعود کی قراءت میں ہے : فَنَحَرُوهَا وما کادوا يفعلون [ البقرة 71] انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا ۔ اور وہ ایسا کر نیوالے تھے نہیں پھر نحر البعیر کی تشبیہ سے انتحروا علٰی کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز پر باہم لڑائی کرنے کے ہیں ۔ محر ۃ الشھرۃ ونحیرہ مہینہ کے پہلے دو دن اور تیسری رات کی مجموعی مدت ۔ اور بقول بعض مہینے کے آخری دن کو بھی نحیرۃ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے سے پہلے دنوں کو تضریر کر ڈالتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ [ الکوثر 2] اور اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو ۔ میں خاص کر ان ہر دوارکان یعنی نماز اور قربانی ادا کرنے کی توکید کی گئی ہے کیونکہ یہ دونوں عبادتیں ضروری ہیں اور ہر دین اور ہر دور میں واجب رہی ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہاں وانحر کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ریاضت کے ذریعہ نفس کشی مراد ہے ۔ التحریر کسی چیز کا ماہر وحاذق
وانحر کی تفسیر - قول باری ہے (فصل لربک وانحر، پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو) حسن کا قول ہے کہ یوم النحر کی نماز اور قربانی مراد ہے۔ عطاء اور مجاہد کا قول ہے کہ ” صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھو اور منیٰ میں جاکر قربانی کرو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ تاویل دو باتوں کو متضمن ہے ایک تو بقر عید کی نماز کا ایجاب اور دوسری قربانی کا وجوب۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس پر بحث کی ہے۔ حماد بن سلمہ نے عاصم الجعدری سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ نماز میں بائیں بازو پر دایاں ہاتھ رکھ کر اپنے سینے پر باندھنا (وانحر) سے مراد ہے۔- ابوالجوزاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ” نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گلے کے پاس رکھنا۔ “ عطاء سے مروی ہے کہ اس سے نماز میں رفع یدین مراد ہے۔ فرا کا قول ہے کہ اپنے سینے کے ساتھ استقبال قبلہ کرو۔- اگر یہ کہا جائے کہ پہلی تاویل کو حضرت براء بن عاذب (رض) کی حدیث باطل کردیتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ” بقر عید کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور ہمیں بقیع کی طرف لے گئے وہاں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں پھر ہماری طرف رخ کرکے فرمایا۔ آج کے دن ہماری سب سے پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز سے ابتداء کریں اور پھر واپس جاکر قربانی کریں، جو شخص ایسا کرے گا وہ ہماری سنت کے ساتھ موافقت کرے گا لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرلے گا وہ اپنے اہل وعیال کے لئے گوشت مہیا کرنے میں تعجیل کرے گا اس کی یہ ذبح قربانی نہیں کہلائے گی۔ “- آپ نے عید کی نماز اور قربانی کو سنت قرار دیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کو کتاب اللہ کے اندر ان دونوں باتوں کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے خیال کیا ہے اس لئے جو چیز اللہ تعالیٰ جاری کردے اور ہم پر اسے فرض کردے تو اس کے متعلق یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ ” یہ ہماری سنت ہے۔ “ اور یہ ہمارا فرض ہے۔ “ جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ” ہمارا دین ہے۔ “ اگرچہ اللہ تعالیٰ دین کو ہم پر فرض کرنے والا ہے۔- جن حضرات نے آیت کی تاویل قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کے حقیقی معنوں پر کی ہے ان کی تاویل اولیٰ ہے کیونکہ لفظ نحر کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ نیز جب لفظ کا اطلاق کیا جائے تو اس سے اس کے حقیقی معنی ہی سمجھ میں آتے ہیں۔ اس لئے کہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ (فلاں نے قربانی کی) تو اس سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے جانوروں کی قربانی کی۔- اس سے بائیں ہاتھ دائیں ہاتھ رکھنے کے معنی سمجھ میں نہیں آتے۔ آیت سے پہلی تاویل مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نمازی گلے کے پاس اپنا ہاتھ نہیں رکھے گا۔ دوسری طرف حضرت علی (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نمازی دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔
آیت ٢ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ ” پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے۔ “- نحر کے لغوی معنی اونٹ ذبح کرنے کے ہیں۔ اس آیت میں جن دو احکام کا ذکر ہے ان دونوں پر عیدالاضحی کے دن عمل ہوتا ہے۔ یعنی عید الاضحی کے دن پہلے مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور پھر جانور قربان کرتے ہیں۔
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 2 اس کی مختلف تفسیریں مختلف بزرگوں سے منقول ہیں ۔ بعض حضرات نے نماز سے مراد پنج وقتہ فرض نماز لی ہے ، بعض اس سے بقر عید کی نماز مراد لیتے ہیں ، اور بعض کہتے ہیں کہ بجائے خود نماز مراد ہے ۔ اسی طرح وانحر یعنی نحر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھ کر اسے سینے پر باندھنا ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہنا ہے ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ افتتاح نماز کے وقت ، اور رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کرنا مراد ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد بقر عید کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد قربانی کرنا ہے ۔ لیکن جس موقع پر یہ حکم دیا گیا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کا مطلب صریحا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اے نبی ، جب تمہارے رب نے تم کو اتنی کثیر اور عظیم بھلائیاں عطا کی ہیں تو تم اسی کے لیے نماز پڑھو اور اسی کے لیے قربانی کرو ۔ یہ حکم اس ماحول میں دیا گیا تھا جب مشرکین قریش ہی نہیں تمام عرب کے مشرکین اور دنیا بھر کے مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے تھے اور انہی کے آستانوں پر قربانیاں چڑھاتے تھے ۔ پس حکم کا منشا یہ ہے کہ مشرکین کے برعکس تم اپنے اسی رویے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو کہ تمہاری نماز اللہ ہی کے لیے ہو اور قربانی بھی اسی کے لیے ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ اے نبی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، سی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں ۔ ( الانعام ۔ 162 ۔ 163 ) یہی مطلب ابن عباس ، عطا ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن بصری ، قتادہ ، محمد بن کعب قلرظی ، ضحاک ، ربیع بن انس ، عطاء الخراسانی ، اور بہت سے دوسرے اکابر مفسرین رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ( ابن کثیر ) البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں اللہ تعالی کے حکم سے بقر عید کی نماز اور قربانی کا طریقہ جاری کیا تو اس بنا پر کہ آیت اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ اور آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ میں نماز کو مقدم اور قربانی کو موخر رکھا گیا ہے ، آپ نے خود بھی یہ عمل اختیار فرمایا اور اسی کا حکم مسلمانوں کو دیا کہ اس روز پہلے نماز پڑھیں اور پھر قربانی کریں ۔ یہ اس آیت کی تفسیر نہیں ہے ، نہ اس کی شان نزول ہے ، بلکہ ان آیات سے حضور کا استنباط ہے ، اور آپ کا استنباط بھی وحی کی ایک قسم ہے ۔