3۔ 1 ابتر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر ہو، یعنی اس کی ذات پر ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہوجائے یا کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد نرینہ زندہ نہ رہی تو بعض کفار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتر کہا، جس پر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ ابتر تو نہیں، تیرے دشمن ہی ہونگے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل کو باقی رکھا گو اس کا سلسلہ لڑکی کی طرف سے ہی ہے۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد معنوی ہی ہے، جس کی کثرت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن فخر کریں گے، علاوہ ازیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پوری دنیا میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض وعناد رکھنے والے صرف صفحات تاریخ پر ہی موجود رہ گئے ہیں لیکن کسی دل میں ان کا احترام نہیں اور کسی زبان پر ان کا ذکر نہیں۔
[٣] کفار مکہ کے اخلاف :۔ شانئ۔ شَنأ۔ شناء سے مصدر شَنَاٰنُ اور اسم فاعل شانیئ ہے اور اس سے مراد ایسا دشمن ہے جو بدخواہ بھی ہو اور کینہ پرور بھی۔ یعنی عداوت بھی رکھتا ہو اور بغض بھی اور یہ دشمنی کا تیسرا اور انتہائی درجہ ہے قریش مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے ہی دشمن تھے۔ بالخصوص ان کے سردار اور معتبر لوگ۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا بیٹا (جسے طیب بھی کہتے ہیں اور طاہر بھی) بھی فوت ہوگیا تو یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے اور تالیاں بجانے لگے اور ایک دوسرے کو مبارک کے طور پر کہنے لگے۔ بتر محمد اور بتر کا لفظ کسی جانور کے دم کاٹنے سے مخصوص ہے اور معنوی لحاظ سے مقطوع یا لاولد کو کہتے ہیں یا جس کا ذکر خیر کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی نرینہ اولاد تو رہی نہیں۔ اس کا معاملہ بس اس کی اپنی زندگی تک ہی محدود ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَبْتَرْ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہیں۔ ان دشمنوں میں سے اکثر تو جنگ بدر میں مارے گئے اور اگر ان کی نسل کہیں بچی بھی ہے تو ان کی اولاد میں کوئی بھی اپنے ایسے اسلاف کا نام لینا اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا گوارا تک نہیں کرتا۔ ان کا ذکر خیر کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ سب لوگ ان پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو شان و عظمت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کو جو بقا بخشی ہے وہ لازوال ہے۔ دنیا کے اربوں مسلمان ہر روز کئی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔ اذانوں اور نمازوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر میدان محشر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو درجات عطا کیے جائیں گے اور مقام محمود عطا کیا جائے گا ان کے ذکر سے قرآن اور حدیث کی کتب بھری پڑی ہیں۔
(١) ان شانئک ھوالابتر :” شانی “” شنئۃ شنئا “ (س ، ف) (بروزن فلس)” وشنئاناً “ (نون کے فتحہ اور سکون کے ساتھ) سے اسم فاعل ہے، اس کا معنی ”’ شمنی رکھنے اولا “ ہے۔ ” الابتر “ جس کی اولاد نہ ہو۔ اصل میں یہ ” بترہ “ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے ” قطعہ “ اس نے اسے کاٹ دیا۔ ” حمار ابتر “ وہ گدھا جس کی دم کٹی ہوئی ہو۔ دم کٹے سانپ کو بھی ” ابتر “ کہتے ہیں۔- (٢)” ھو “ ضمیر لانے کے علاوہ ” الابتر “ پر الف لام لانے سے کلام میں مزید حصر پیدا ہوگیا ، یعنی دشمن ہی لاولد ہے، آپ نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) اکیلے ہیں، ان کی اولاد نہیں ، مرگئے تو کوئی نام لینے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ کے نام لینے والے بیشمار ہوں گے اور قیامت تک رہیں گے۔ کلمہ پڑھتے وقت، اذان میں، اقامت میں نماز میں درد میں غرض آپ کا ذکر ہمیشہ رہے گا۔ آپ کی نسبت پر لوگ فخر کریں گے۔ اولاد بھی بہت ہوگی، مگر آپ کے دشمن کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ اگر ان کی نسل چلی بھی تو اسے اپنے کافر باپ کی طرف منسوب ہونے پر کوئی فخر نہیں ہوگا۔
ان شانئک ھوالابتر لفظ شانی کے معنے بغض رکھنے والے عیب لگانے والے کے ہیں یہ آیت ان کفار کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتر مقطوع النسل ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ اکثر روایات میں عاص بن وائل، بعض میں عقبہ، بعض میں کعب بن اشرف اس کے مصداق ہیں۔ حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوثر بیعنی خیر کثیر عطا کی جس میں اولاد کثیر بھی داخل ہے آپ کے لئے اولاد کی کثرت اس لحاظ سے ہے کہ نسبی اولاد بھی آپ کی ماشاء اللہ کچھ کم نہیں اور پیغمبر چونکہ پوری امت کا باپ ہوتا ہے اور پوری امت اس کی اولاد روحانی اور آپ کی امت پچھلے تمام انبیاء کی امتوں سے تعداد میں زیادہ ہوگی ایک طرف تو ان دشمنوں کی بات کو اس طرح خاک میں ملا دیا دوسری طرف یہ بھی فرما دیا کہ جو لوگ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ ہی ا بتر ہیں۔- عبرت :۔ اب غور کیجئے کہ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کو حق تعالیٰ نے کیسی رفعت اور عظمت فرمائی کہ آپ کے عہد مبارک سے آج تک پوری دنیا کے چپہ چپہ پر آپ کا نام مبارک پانچ وقت اللہ کے نام کے ساتھ میناروں پر پکارا جاتا ہے اور آخرت میں آپ کو شفاعت کبریٰ کا مقام محمود حاصل ہوگا، اس کے بالمقابل دنیا کی تاریخ سے پوچھئے کہ عاص بن وائل، عقبہ، کب کی اولاد کہاں اور ان کا خاندان کیا ہوا، خود ان کا نام بھی اسلامی روایات سے تفسیر آیات کے ذیل میں محفوظ ہوگی اور نہ دنیا میں آج ان کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں ہے۔- فاعتبروا یا اولی الاصبار
اِنَّ شَانِئَكَ ہُوَالْاَبْتَرُ ٣ ۧ- شنأ - شَنِئْتُهُ : تقذّرته بغضا له . ومنه اشتقّ : أزد شَنُوءَةَ ، وقوله تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ- [ المائدة 8] ، أي : بغضهم، وقرئ : شَنْأَنُ فمن خفّف أراد : بغیض قوم، ومن ثقّل جعله مصدرا، ومنه : إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ [ الکوثر 3] .- ( ش ن ء ) شنیئۃ ( ف س ) کے معنی بغض کی وجہ سے کسی چیز سے نفرت کرنے کے ہیں ۔ اسی سے أزدشَنُوءَةَ مشتق ہے جو ایک قبیلہ کا نام ہے اور آیت کریمہ : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ [ المائدة 8] لوگوں کی دشمنی ۔ میں شنان کے معنی بغض اور دشمنی کے ہیں ایک قرات میں شنان بسکون نون ہے پس تخفیف ( یعنی سکون نون ) کی صورت میں اسم اور فتح نون کی صورت میں مصدر ہوگا اور اسی سے فرمایا : إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ [ الکوثر 3] کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا ۔- بتر - البَتَر يقارب ما تقدّم، لکن يستعمل في قطع الذّنب، ثم أجري قطع العقب مجراه .- فقیل : فلان أَبْتَر : إذا لم يكن له عقب يخلفه، ورجل أَبْتَر وأَبَاتِر : انقطع ذكره عن الخیر ورجل أَبَاتِر : يقطع رحمه، وقیل علی طریق التشبيه :- خطبة بَتْرَاء لما لم يذكر فيها اسم اللہ تعالی.- وذلک لقوله عليه السلام : «كلّ أمر لا يبدأ فيه بذکر اللہ فهو أبتر» .- وقوله تعالی: إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ [ الکوثر 3] أي : المقطوع الذکر، وذلک أنهم زعموا أنّ محمدا صلّى اللہ عليه وسلم ينقطع ذكره إذا انقطع عمره لفقدان نسله، فنبّه تعالیٰ أنّ الذي ينقطع ذكره هو الذي يشنؤه، فأمّا هو فکما وصفه اللہ تعالیٰ بقوله : وَرَفَعْنا لَكَ ذِكْرَكَ [ الشرح 4] وذلک لجعله أبا للمؤمنین، وتقييض من يراعيه ويراعي دينه الحق، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله : «العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة» هذا في العلماء الذین هم تبّاع النبي عليه الصلاة والسلام، فكيف هو وقد رفع اللہ عزّ وجل ذكره، وجعله خاتم الأنبیاء عليه وعليهم أفضل الصلاة والسلام ؟ - ( ب ت ر ) البتر ۔ یہ قریبا بتک کے ہم معنی ہے مگر خاص کر دم کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ پھر مجازا قطع نسل کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہی ۔ اور ایتر اس شخص پر بولا جاتا ہے جس کی موت کے بعد اس کا خلف نہ ہو اور ابتریا اباتر وہ جس کا ذکر خیر باقی نہ رہے نیز رجل اباتئر ۔ قاطع رحم ۔ اور جس خطبہ کے شروع میں حمد ثنا نہ ہوا سے بھی مجازا خطبۃ بتراء کہا جاتا ہے چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ۔ کل امر لا یبدء فیہ بذکراللہ فھوا ابتر ہر وہ کام جس کے شروع میں اللہ کا نام نہ لیا جائے ہو ابتر ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ( سورة الکوثر 3) میں ابتر کے معنی یہ ہیں کہ تیرے مخالف کا ذکر خیر باقی نہیں رہے گا ۔ جب کفار نے طعنہ دیا کہ محمد کے ساتھ ہی اس کا نام ونشان منقطع ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس کی نسل ( اولاد ) نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا کہ تمہارا بد اندیش ہی مقطوع النسل رہے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اللہ تعالیٰ نے وَرَفَعْنا لَكَ ذِكْرَكَ [ الشرح 4] کا مقام بخشا ہے کیونکہ جملہ مومنین آپ کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو آپ کے اور آپ کے دین کے محافظ مقرر کردیا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی نے فرمایا ہے العلماء باقون مابقی الدھر ، اعیانھم مفقودۃ وآثارھم فی القلوب موجود ۃ ۔ علما ، تاقیامت باقی رہیں گے ان کے اجسام مفقود ہوتے جاتے ہیں ۔ مگر ان کے آثار لوگوں کے دلون پر ثبت رہتے ہیں ۔ جب علماء کو یہ فضیلت حاصل ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین سے ہیں تو آنحضرت کی شان تو اس سے کہیں بلند سے اور کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رفع ذکر ، ، کا شرف بخشا ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیا ہے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الصلاۃ والسلام
آیت ٣ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْـتَرُ ۔ ” یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ہی جڑ کٹا ہوگا۔ “- شَانِِیٔ بغض و عداوت رکھنے والے دشمن کو کہتے ہیں۔ اَبْـتَر : بتر سے ہے ‘ یعنی کسی چیز کو کاٹ دینا ‘ منقطع کردینا۔ اہل عرب دُم کٹے جانور کو ابتر کہتے ہیں۔ عرفِ عام میں اس سے ایسا آدمی مراد لیا جاتا ہے جس کی نرینہ اولاد نہ ہو اور جس کی نسل آگے چلنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ یہ لفظ مشرکین مکہ نے (معاذ اللہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استعمال کیا تھا ‘ جس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رض) کے بطن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ اولادپیدا ہوئی : قاسم ‘ پھر زینب ‘ پھر عبداللہ ‘ پھر اُم کلثوم ‘ پھر فاطمہ ‘ پھر رقیہ۔ (رض) اجمعین۔ پہلے قاسم کا انتقال ہوا۔ پھر عبداللہ (جن کا لقب طیب و طاہر ہے) داغِ مفارقت دے گئے۔ اس پر مشرکین نے خوشیاں منائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں فرزند فوت ہوگئے ہیں اور باقی اولاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بھی ہیں بس اپنی زندگی تک ہی ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل آگے چلے گی اور نہ ہی کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لیوا ہوگا۔ اس پس منظر میں یہاں ان لوگوں کو سنانے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا نام اور ذکر تو ہم بلند کریں گے ‘ جس کی وجہ سے آپ کے نام لیوا تو اربوں کی تعداد میں ہوں گے ۔ البتہ آپ کے یہ دشمن واقعی ابتر ہوں گے جن کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ شَانِئَكَ استعمال ہوا ہے ۔ شانی شن سے ہے جس کے معنی ایسے بغض اور ایسی عداوت کے ہیں جس کی بنا پر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگے ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۔ اور اے مسلمانو کسی گروہ کی عداوت تمہیں اس زیادتی پر آمادہ نہ کرنے پائے کہ تم انصاف نہ کرو ( المائدہ 8 ) پس شَانِئَكَ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی اور عداوت میں ایسا اندھا ہوگیا ہو کہ آپ کو عیب لگاتا ہو ، آپ کے خلاف بدگوئی کرتا ہو ، آپ کی توہین کرتا ہو ، اور آپ پر طرح طرح کی باتیں چھانٹ کر اپنے دل کا بخار نکالتا ہو ۔ سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 4 هُوَ الْاَبْتَرُ وہی ابتر ہے فرمایا گیا ہے ، یعنی وہ آپ کو ابتر کہتا ہے ، لیکن حقیقت میں ابتر وہ خود ہے ۔ ابتر کی کچھ تشریح ہم اس سے پہلے اس سورۃ کے دیباچے میں کرچکے ہیں ۔ یہ لفظ بتر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں ۔ مگر محاورے میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ حدیث میں نماز کی اس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جائے بتیراء کہا گیا ہے ، یعنی اکیلی رکعت ۔ ایک اور حدیث میں ہے کل امر ذی بال لا یبدأ فیہ بحمد اللہ فھو ابتر ۔ ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو ، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے ۔ یعنی اس کی جڑ کٹی ہوئی ہے ، اسے کوئی استحکام نصیب نہیں ہے ، یا اس کا انجام اچھا نہیں ہے ۔ نامراد آدمی کو ابتر کہتے ہیں ۔ ذرائع و وسائل سے محروم ہوجانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے ۔ جس شخص کے لیے کسی خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں منقطع ہوگئی ہوں وہ بھی ابتر ہے ، جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے ۔ جس آدمی کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہو یا مرگئی ہو اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا ، اور مرنے کے بعد وہ بے نام و نشان ہوجاتا ہے ۔ قریب قریب ان سب معنوں میں کفار قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہتے تھے ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے نبی ، ابتر تم نہیں ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن ابتر ہیں ۔ یہ محض کوئی جوابی حملہ نہ تھا ، بلکہ درحقیقت یہ قرآن کی بڑی اہم پیشینگوئیوں میں سے ایک پیشینگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت لوگ حضور ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہوجائیں گے جو نہ صرف مکہ میں بلکہ پورے عرب میں نامور تھے ، کامیاب تھے ، مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں نہیں رکھتے تھے بلکہ سارے ملک میں جگہ جگہ ان کے اعوان و انصار موجود تھے ، تجارت کے اجارہ دار اور حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے ۔ لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے ۔ یا تو وہ وقت تھا کہ غزوہ احزاب ( 5ھ ) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبائل کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضور کو محصور ہوکر شہر کے گرد خندق کھود کر مدافعت کرنی پڑی تھی ، یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ 8 ھ میں جب آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انہیں بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے ۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضور کے ہاتھ میں تھا ، ملک کے گوشے گوشے سے قبائل کے وفود آکر بیعت کر رہے تھے ۔ اور آپ کے دشمن بالکل بے بس اور بے یارومددگار ہوکر رہ گئے تھے ۔ پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں باقی رہی بھی تو ان میں سے آج کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عقبہ بن ابی معیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں سے ہے ، اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے ۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جارہا ہے ۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے ۔ لاکھوں انسان آپ ہی سے نہیں بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں کے خاندانوں تک سے انتساب کو باعث شرف سمجھتے ہیں ۔ کوئی سید ہے ، کوئی علوی ہے ، کوئی عباسی ہے ، کوئی ہاشمی ہے ، کوئی صدیقی ہے ، کوئی فاروقی ہے ، کوئی عثمانی ہے ، کوئی زبیری ہے ، اور کوئی انصاری ۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں پایا جاتا ۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ابتر حضور نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں ۔
2: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’ابتر‘‘ ہے، اس کے لفظی معنی ہیں: ’’جس کی جڑ کٹی ہوئی ہو‘‘۔ اور عرب کے لوگ اُس شخص کو ابتر کہتے تھے جس کی نسل آگے نہ چلے، یعنی جس کی کوئی نرینہ اولاد نرینہ نہ ہو۔ جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیٹے کا انتقال ہوا تو آپ کے دُشمنوں نے جن میں عاص بن وائل پیش پیش تھا، آپ کو یہ طعنہ دیا کہ معاذاللہ آپ ابتر ہیں، اور آپ کی نسل نہیں چلے گی، اس کے جواب میں اس آیت میں فرمایا ہے کہ آپ کو تو اﷲ تعالیٰ نے کوثر عطا فرمائی ہے، آپ کے مبارک ذکر اور آپ کے دین کو آگے چلانے والے تو بے شمار ہوں گے، ابتر تو آپ کا دُشمن ہے جس کا مرنے کے بعد نام ونشان بھی نہیں رہے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ اور آپ کی سیرت طیبہ تو الحمدللہ زندہ جاوید ہے، اور طعنے دینے والوں کو کوئی جانتا بھی نہیں، اور اگر کوئی اُن کا ذکر کرتا بھی ہے تو برائی سے کرتا ہے۔