Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

بعض نے پہلی آیت کو حال کے اور دوسری کو استقبال کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن امام شوکانی نے کہا ہے کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ تاکید کے لیے تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن کریم میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورة رحمٰن، سورة مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تاکید کے لیے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس توحید اور عبادت الہی سے محروم ہی رہو گے۔ یہ بات اس وقت فرمائی گئی جب کفار نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی اور ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت نمبر ٤ اور ٥ میں آیت ٢ اور ٣ کے مضمون کا ہی تکرار ہے اور اگر اسے تکرار ہی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ تاہم یہ محض تکرار نہیں بلکہ ان میں دو قسم کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ پہلی دو آیات میں ما کو موصولہ اور پچھلی دو آیات میں ما کو مصدریہ قرار دیا جائے۔ اس صورت میں پچھلی آیات کا معنی یہ ہوگا کہ جو طریق عبادت میں نے اختیار کیا ہے۔ اسے تم قبول نہیں کرسکتے اور جو تم نے اختیار کر رکھا ہے اسے میں نہیں کرسکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریق عبادت یہ تھا کہ آپ نماز میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے تھے اور اس طریق عبادت سے کافروں کو خاصی چڑ تھی اور اس سے منع بھی کرتے تھے جیسا کہ سورت علق میں ابو جہل اور عتبہ بن ابی معیط سے متعلق کئی واقعات درج کیے جاچکے ہیں۔ اور کافروں کا طریق عبادت یہ تھا کہ گاتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ آپ بھلا ان کا یہ طریق عبادت اختیار کرسکتے تھے۔ ؟- اور اگر بعد کی آیات میں بھی ما کو موصولہ ہی سمجھا جائے تو بھی دو فرق واضح ہیں۔ ایک یہ کہ پہلی آیت میں لاَاعْبُدُ آیا ہے اور بعد کی آیات میں لاَاَنَا عَابٍِدٌ اور ظاہر ہے کہ جو تاکید لاَاَنَا عَابِدٌ (یعنی میں کسی قیمت پر عبادت کرنے والا نہیں) میں پائی جاتی ہے وہ لاَاَعْبُدُ میں نہیں پائی جاتی اور دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیات میں ماتَعْبُدُوْنَ (یعنی جنہیں تم آج کل پوجتے ہو) ہے۔ اور بعد والی آیات میں ماعَبَدْتُمْ صیغہ ماضی میں ہے یعنی جنہیں تم پہلے پوجتے رہے یا تمہارے آباء واجداد پوجا کرتے تھے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مشرک اپنی حسب پسند اپنے معبودوں میں تبدیلی کرلیا کرتے تھے۔ جو چیز فائدہ مند نظر آئی یا جو خوبصورت سا پتھر نظر آیا اسے اٹھا کر معبود بنا لیا اور پہلے کو رخصت کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 4 مفسرین میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دونوں فقرے پہلے دو فقروں کے مضمون کی تکرار ہیں ، اور یہ تکرار اس غرض کے لیے کی گئی ہے کہ اس بات کو زیادہ پر زور بنا دیا جائے جو پہلے دو فقروں میں کہی گئی تھی ۔ لیکن بہت سے مفسرین اس کو تکرار نہیں مانتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان میں ایک اور مضمون بیان کیا گیا ہے جو پہلے فقروں کے مضمون سے مختلف ہے ۔ ہمارے نزدیک اس حد تک تو ان کی بات صحیح ہے کہ ان فقروں میں تکرار نہیں ہے ، کیونکہ ان میں صرف اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ اور یہ اعادہ بھی اس معنی میں نہیں ہے جس میں یہ فقرہ پہلے کہا گیا تھا ۔ مگر تکرار کی نفی کرنے کے بعد مفسرین کے اس گروہ نے ان دونوں فقروں کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے بیان کردہ معنی کو نقل کر کے اس پر بحث کریں ، اس لیے طول کلام سے بچتے ہوئے ہم صرف وہ معنی بیان کریں گے جو ہمارے نزدیک صحیح ہیں ۔ پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اس کا مضمون آیت نمبر 2 کے مضمون سے بالکل مختلف ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ میں ان کی عبادت نہیں کرنا جن کی عبادت تم کرتے ہو ۔ ان دونوں باتوں میں دو حیثیتوں سے بہت بڑا فرق ہے ۔ ایک یہ کہ میں فلاں کام نہیں کرتا یا نہیں کروں گا کہنے میں اگرچہ انکار اور پرزور انکار ہے ، لیکن اس سے بہت زیادہ زور یہ کہنے میں ہے کہ میں فلاں کام کرنے والا نہیں ہوں ، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسا برا کام ہے جس کا ارتکاب کرنا تو درکنار اس کا ارادہ یا خیال کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جن کی عبادت تم کرتے ہو کا اطلاق صرف ان معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اب کر رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جن کی عبادت تم نے کی ہے کا اطلاب سن سب معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اور ان کے آباؤ اجداد زمانہ ماضی میں کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مشرکین اور کفار کے معبودوں میں ہمیشہ ردو بدل اور حذف و اضافہ ہوتا رہا ہے ، مختلف زمانوں میں کفار کے مختلف گروہ مختلف معبودوں کو پوجتے رہے ہیں ، اور سارے کافروں کے معبود ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی نہیں رہے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے آج کے معبودوں ہی سے نہیں بلکہ تمہارے آباؤ اجداد کے معبودوں سے بھی بری ہوں اور میرا یہ کام نہیں ہے کہ ایسے معبودوں کی عبادت کا خیال تک اپنے دل میں لاؤں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani