Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں میں اسے کیوں چھوڑوں۔ ؟ (لنا اعمالنا ولکم اعمالکم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] شرک سے متعلق کسی قسم کی لچک اور رواداری کی کوئی گنجائش نہیں :۔ یہ ہے وہ دوٹوک فیصلہ جو صرف مکہ کے کافروں کو نہیں، دنیا بھر کے کافروں کو بھی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ مشرکوں کو ان کے معبود مبارک رہیں۔ مگر مسلمان اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں کرسکتے۔ شرک کے معاملہ میں اسلام نے کسی قسم کی لچک اور روا داری برداشت نہیں کی۔ خواہ یہ مشرک کافر ہوں یا اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں۔ کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت مشرک ہی ہوتی ہے جیسا کہ سورت یوسف کی آیت نمبر ١٠٦ میں فرمایا : ( وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦۔ ) 12 ۔ یوسف :106)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

الکفرملۃ واحدۃ - قول باری ہے (لکم دینکم قرلی دین ۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت اگرچہ بعض کافروں کے بارے میں خاص ہے اور بعض دوسرے اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے کافر اسلام لے آئے تھے اور ارشاد باری ہے (ولا انتم عابدون مااعبد۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں)- تاہم یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ کفر سارے کا سارا ایک ملت ہے کیونکہ جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے وہ اپنے مذاہب کے اختلاف کے باوجود آیت میں مراد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مذاہب کو ایک دین قرار دیا اور مذہب اسلام کو ایک دین۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ کفر اختلاف مذاہب کے باوجود ایک ملت ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ۔ ” اب تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ “- اب میرا تمہارا تعلق ختم۔ تم لوگ جس راستے پر جا رہے ہو تمہیں وہ راستہ مبارک ہو۔ تم اپنے حال میں مست رہو ‘ میں اپنے دین حق پر ثابت قدم ہوں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر رہے گا اور تم دیکھو گے کہ جلد ہی جزیرئہ عرب پر دین اسلام غالب آکر رہے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 5 یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میرے معبود کے پرستار نہیں ۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کرسکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو ۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہوسکتا ۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے ، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے براءت ، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان ہے ، اور اس سے مقصود ان کو اس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کردینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی ان سے کوئی مصالحت کرے گا ، یہی اعلان براءت اور اظہار بیزاری اس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں پے در پے کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ یونس میں فرمایا اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ۔ ( آیت 41 ) پھر آگے چل کر اسی سورہ میں فرمایا اے نبی ، کہہ دو کہ لوگو ، اگر تم میرے دین کے متعلق ( ابھی تک ) کسی شبہ میں ہو تو ( سن لو کہ ) اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا ، بلکہ صرف اس خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے اختیار میں تمہاری موت ہے ( آیت 104 ) سورہ سبا میں فرمایا ان سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبہ یم سے نہیں کی جائے گی ، کہو ہمارا رب ( ایک وقت ) ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے گا ۔ ( آیات 25 ۔ 26 ) سورہ زمر میں فرمایا ان سے کہو ، اے میری قوم کے لوگو ، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں ۔ ( آیات 39 ۔ 40 ) پھر یہی سبق مدینہ طیبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے ، جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ، قطعی بیزار ہیں ، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واح پر ایمان نہ لاؤ ۔ ( الممتحنہ ۔ آیت 4 ) قرآن مجید کی ان پے در پے توضیحات سے اس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو ۔ بلکہ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورہ زمر میں فرمائی گئی ہے کہ اے نبی ان سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا ، تم اسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو ۔ ( آیت 14 ) اس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں لیکن کفر بحیثیت مجموعی ایک ہی ملت ہے ، اس لیے یہودی عیسائی کا ، اور عیسائی یہودی کا ، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہوسکتا ہے اگر ان کے درمیان نسب ، یا نکاح یا کسی سبب کی بناپر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچنے کا مقتضی ہو ۔ بخلاف اس کے امام مالک ، امام اوزاعی اور امام احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پاسکتے ۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملتین شتی ۔ دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ۔ ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، دار قطنی ) اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابر سے اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور بزار نے حضرت ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور امام شمس الائمہ سرخسی لکتے ہیں ۔ کفار آپس میں ان سب اسباب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، اور ان کے درمیان بعض ایسی سورتوں میں بھی توارث ہوسکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں ، ایک دین حق ، دوسرے دین باطل چنانچہ فرمایا لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ۔ اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں ، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے ۔ اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفار ہیں ۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ( یہ دو مد مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے ۔ الحج آیت 19 ) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہے ۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملتیں ہیں ، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ملت ہیں کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ ان کا انکار کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملت ہیں ۔ حدیث لا یتوارث اھل ملتین اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، کیونکہ ملتین ( دو ملتوں ) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے کردی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے ، ( المبسوط ، جلد 3 ، صفحات 30 ۔ 32 ) امام سرخسی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری ، مسلم ، نسائی ، احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ سورت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب مکہ مکرَّمہ کے کچھ سرداروں نے جن میں ولیدبن مغیرہ، عاص بن وائل وغیرہ شامل تھے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے صلح کی یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں تو دُوسرے سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیں گے۔ کچھ اور لوگوں نے اِسی قسم کی کچھ اور تجویز بھی پیش کیں جن کا خلاصہ یہی تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کسی نہ کسی طرح اِن کافروں کے طریقے پر عبادت کے لئے آمادہ ہوجائیں تو آپس میں صلح ہوسکتی ہے۔ اس سورت نے دو ٹوک الفاظ میں واضح فرمادیا کہ کفر اور ایمان کے درمیان اِس قسم کی کوئی مصالحت قابلِ قبول نہیں ہے، جس سے حق اور باطل کا امتیاز ختم ہوجائے اور دینِ برحق میں کفر یا شرک کی ملاوٹ کردی جائے۔ ہاں اگر تم حق کو قبول نہیں کرتے تو تم اپنے دِین پر عمل کرو جس کے نتائج تم خود بُھگتو گے، اور میں اپنے دِین پر عمل کروں گا اور اس کے نتائج کا میں ذمہ دار ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے کوئی ایسی مصالحت جائز نہیں ہے جس میں ان کے دین کے شعائر کو اِختیار کرنا پڑے، البتہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے امن کا معاہدہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم نے سورہ انفال (۸:۶۸) میں فرمایا ہے۔