تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورہ بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے ۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے ۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے ۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے ۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے ۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں ، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں ۔ زیادہ قریب والے پہلے ، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا ۔ پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ۔ قرآن کریم نے ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97 ) 16- النحل:97 ) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے ، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا ، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی ۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا ۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہو گئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں ۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں ۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے ۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے ، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام ، مخلوق کی نئی پیدائش ، سب اس کے قبضے میں ہے ۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا ۔
اس سورت میں بھی ان قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بنیں اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرح مٹ گئیں یا اوراق تاریخ پر عبرت کا نمونہ بنی موجود ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا بات ہے آپ بوڑھے سے نظر آتے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة ہود، واقعہ، عم یتسآءلون، اور اذالشمس کورت وغیرہ نے بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) 1۔ 1 یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔ 1۔ 2 پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔ 1۔ 3 یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
[١] محکم آیات کا مفہوم :۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض دوسری متشابہ۔ لغوی لحاظ سے تو محکم ہر اس چیز کو کہا جاسکتا ہے جسے حکمت، دانائی اور تجربہ سے اس کو ساخت میں مضبوط بنادیا گیا ہو جیسے ارشاد باری ہے (ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 52ۙ ) 22 ۔ الحج :52) اور جب محکم کے مقابلے میں متشابہ کا لفظ آئے تو محکم کا معنی ایسی آیات ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو بالفاظ دیگر اس کے معنی بالکل واضح ہوں جن کی کوئی اور تاویل نہ ہوسکتی ہو یعنی قرآن کی آیات محکم ہیں اور ان کی حکمت اور تفصیل بعض دوسرے مقامات پر دوسری آیات میں بیان کردی گئی ہے مثلاً لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی شریعتوں میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر مختلف اوقات میں اس کی تفصیلات نازل ہوتی رہی ہیں لیکن وہ سب اس حقیقت کو مزید مستحکم و مضبوط بناتی چلی جاتی ہیں اور ان میں کہیں بھی اختلاف یا تضاد واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی کسی حکیم اور خبیر ہستی سے نازل شدہ ہے۔- بعض مفسرین آیات کو محکم بنانے سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ایسی ہیں جن میں عقل سلیم اگر غور و فکر کرے تو کوئی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا اور وہ ہر معیار پر پوری اترتی ہیں وہ ماضی کے حالات سے متعلق ہوں یا آئندہ کے متعلق پیشین گوئیاں ہوں اور وہ احکام سے متعلق ہوں جو تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملکی تک نیز عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ تک پھیلے ہوئے ہوں اور زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اثبات توحید کے دلائل ہوں اور ان میں سے جن احکام کی اس دنیا میں تجربہ کی کسوٹی پر جانچ کی جاسکتی ہے وہ سچ اور درست ہی ثابت ہوتے ہیں ایسے اخبار اور ایسے احکام بھی قرآن میں جابجا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً مذکور ہوئے ہیں اور ایسی تمام آیات میں کسی نقص، خرابی یا اختلاف کا نہ ہونا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کسی حکیم وخبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔
سورة ہود - الرا دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے) کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا بہت اثر ہوا، چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدْ شِبْتَ ، قَالَ شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ ) وَ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الواقعۃ : ٣٢٩٧۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ٩٥٥ ] ” یا رسول اللہ آپ بوڑھے ہوگئے۔ “ فرمایا : ” مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کردیا۔ “- كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ : یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جاسکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہوجائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔ - ثُمَّ فُصِّلَتْ : تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بیحد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ ” فصلت “ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ - مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا : (صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٨٨ ] ” اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ “ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہوگی ؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔
خلاصہ تفسیر - الۗر ( کے معنی تو اللہ کو معلوم) یہ ( قرآن) ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں ( دلائل سے) محکم کی گئی ہیں پھر ( اس کے ساتھ) صاف صاف ( بھی) بیان کی گئی ہیں ( اور وہ کتاب ایسی ہے کہ) ایک حکیم باخبر ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے ( آئی ہے جس کا بڑا مقصد) یہ ( ہے) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ( ایمان نہ لانے پر عذاب سے) ڈرانے والا اور (ایمان لانے پر ثواب کی) بشارت دینے والا ہوں اور ( اس کتاب کے مقاصد میں سے) یہ ( بھی ہے) کہ تم لوگ اپنے گناہ ( شرک و کفر وغیرہ) اپنے رب سے معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ اور) پھر ( ایمان لا کر) اس کی طرف ( عبادت سے) متوجہ رہو ( یعنی عمل صالح کرو پس ایمان و عمل صالح کی برکت سے) وہ تم کو وقت مقررہ ( یعنی وقت موت) تک (دنیا میں) خوش عیشی دے گا اور (آخرت میں) ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ( یہ کہنا بھی بمنزلہ بشیر کے کہنے کے ہے) اور اگر ( ایمان لانے سے) تم لوگ اعراض ( ہی) کرتے رہے تو مجھ کو ( اس صورت میں) تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ( یہ کہنا بمنزلہ نذیر کے کہنے کے ہے، اور عذاب کو مستبعد مت سمجھو کیونکہ) تم ( سب) کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وہ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے ( پھر استبعاد کی کوئی وجہ نہیں البتہ اگر وہاں تمہاری حاضری نہ ہوتی یا نعوذ باللہ اس کو قدرت نہ ہوتی تو عذاب واقع نہ ہوتا پس ایسی ایسی حالت میں ایمان اور توحید سے اعراض نہ کرنا چاہئے، آگے علم الہٰی کا اثبات ہے، اور ایسا علم وقدرت دونوں دلیل توحید ہیں) یاد رکھو وہ لوگ دوہرا کئے دیتے ہیں اپنے سینوں کو ( اور اوپر سے کپڑا لپیٹ لیتے ہیں) تاکہ اپنی باتیں خدا سے چھپا سکیں ( یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میں جو باتیں کرتے ہیں تو اس ہیئت سے کرتے ہیں تاکہ کسی کو خبر نہ ہوجاوے اور جس کو اعقاد ہوگا کہ خدا کو ضرور خبر ہوتی ہے اور آپ کا صاحب وحی ہونا دلائل سے ثابت ہے، پس وہ اخفاء کی ایسی تدبیر کبھی نہ کرے گا کیونکہ ایسی تدبیر کرنا گویا بدلالت حال اللہ سے پوشیدہ رہنے کی کوشش کرنا ہے سو) یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت ( دوہرے ہوکر) اپنے کپڑے ( اپنے اوپر) لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چپکے باتیں کرتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر باتیں کرتے ہیں ( کیونکہ) بالیقین وہ ( تو) دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے ( تو زبان سے کہی ہوئی تو کیوں نہ جانے گا ) ۔- معارف و مسائل - سورة ہود ان سورتوں میں سے ہے جن میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہر الہٰی اور مختلف قسم کے عذابوں کا اور پھر قیامت کے ہولناک واقعات اور جزاء و سزا کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے۔- یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ریش مبارک میں کچھ بال سفید ہوگئے تو حضرت صدیق اکبر نے بطور اظہار رنج کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ بوڑھے ہوگئے، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے سورة ھود نے بوڑھا کردیا، اور بعض روایات میں سورة ہود کے ساتھ سورة واقعہ اور مرسلات اور عم یتساءلون اور سورة تکویر کا بھی ذکر ہے۔ (رواہ الحاکم والترمذی) مطلب یہ تھا کہ ان واقعات کے خوف و دہشت کی وجہ سے بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوگئے) اس کی پہلی آیت کو الر سے شروع کیا گیا ہے، یہ ان حروف میں سے ہیں جن کی مراد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان راز ہے دوسروں کو اس پر مطلع نہیں کیا گیا، ان کو اس کی فکر میں پڑنے سے بھی روکا گیا ہے۔- اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم بنایا گیا ہے، لفظ محکم احکام سے بنا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کلام کو ایسا درست کیا جائے جس میں کسی لفظی اور معنوی غلطی یا فساد کا احتمال نہ رہے، اس بناء پر آیات کے محکم بنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ حق تعالیٰ نے ان آیات کو ایسا بنایا ہے کہ ان میں میں کسی لفظی غلطی یا معنوی فساد اور خلل یا باطل کا کوئی امکان و احتمال نہیں۔ ( قرطبی) - اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ محکم اس جگہ منسوخ کے مقابلہ میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اس کتاب یعنی قرآن کی آیات کو اللہ تعالیٰ نے مجموعی حیثیت سے محکم غیر منسوخ بنایا ہے یعنی جس طرح پچھلی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ نزول قرآن کے بعد منسوخ ہوگئیں، اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد چونکہ سلسلہ نبوت و وحی ہی ختم ہوگیا اس لئے یہ کتاب تا قیامت منسوخ نہ ہوگی۔ ( قرطبی) اور قرآن کی بعض آیات کا خود قرآن ہی کے ذریعہ منسوخ ہوجانا اس کے منافی نہیں۔- اسی آیت میں قرآن کی دوسری شان یہ بتلائی گئی ثُمَّ فُصِّلَتْ یعنی پھر ان آیات کی تفصیل کی گئی، تفصیل کے اصلی معنی یہ ہیں کہ دو چیزوں کے درمیان فصل و امتیاز کیا جائے، اسی لئے عام کتابوں میں مختلف مضامین کو فصل فصل کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے، اس جگہ تفصیل آیات سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق وغیرہ مضامین کی آیات کو جدا جدا کر کے واضح بیان فرمایا گیا ہے۔- اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو بیک وقت پورا لوح محفوظ میں ثبت کردیا گیا تھا مگر پھر مختلف قوموں اور ملکوں کے حالات و ضروریات کے تحت بہت سی قسطوں میں تھوڑا نازل فرمایا گیا تاکہ اس کا حفظ بھی آسان ہو اور ان پر تدریجی عمل بھی سہل ہوجائے۔- اس کے بعد فرمایا (آیت) مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ، یعنی یہ سب آیات ایک ایسی ہستی کی طرف سے آئی ہیں جو حکیم بھی ہے اور باخبر ہے، ان کے سب حالات موجودہ و آئندہ کو جانتا ہے ان سب پر نظر کرکے احکام نازل فرماتا ہے، انسانوں کی طرح نہیں کہ وہ کتنے ہی عقلمند، ہوشیار، تجربہ کار ہوں مگر ان کی عقل و دانش ایک محددو دائرہ میں گھری ہوئی اور ان کا تجربہ صرف اپنے گرد و پیش کی پیداوار ہوتا ہے جو بسا اوقات آئندہ زمانہ اور آئندہ حالات میں ناکام و غلط ثابت ہوتا ہے۔
الۗرٰ ٠ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ١ ۙ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - احکمت - ۔ ماضی مجہول ۔ واحد مؤنث غائب احکام سے۔ جس کے معنی مضبوط اور محکم کرنے کے ہیں۔ یوں پختہ اور استوار کرنا کہ اس میں کسی خلل اور نقص کا گمان تک نہ رہے۔ بمعنی مضبوط اور مستحکم بنا دی گئی ہیں۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(١) یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات میں حلال و حرام اوامرو نواہی کا حکم دیا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا اور ان کو صاف صاف بھی بیان کیا گیا اور وہ کتاب ایک عالم باخبر کی طرف سے آئی ہے۔
آیت ١ (الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ )- اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید میں شروع شروع میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ حجم کے اعتبار سے تو چھوٹی ‘ لیکن بہت جامع اور گہرے مفہوم کی حامل ہیں ‘ جیسے کو زے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہو۔ مثلاً سورة العصر ‘ جس کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں : لَوْلَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاس یعنی ” اگر اس سورت کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو بھی یہ سورت لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی “۔ امام شافعی سورة العصر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں : لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ ” اگر لوگ اس سورت پر ہی تدبر کریں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے گی “۔ چناچہ قرآن مجید کی ابتدائی سورتیں اور آیات بہت محکم اور جامع ہیں اور بعد میں انہی کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اور اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ ہے :
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :1 ”کتاب“ کا ترجمہ یہاں انداز بیان کی مناسبت سے ”فرمان“ کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :2 یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اٹل ہیں ۔ خوب جچی ٹلی ہیں ۔ نری لفاظی نہیں ہے خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے ۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو ۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں ، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے ۔ بیان الجھا ہوا ، گنجلک اور مبہم نہیں ہے ۔ ہر بات کو الگ الگ ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے ۔
1: جیسا کہ پچھلی سورت میں عرض کیا گیا، ان حروف کو مقطعات کہتے ہیں، اور ان کے صحیح معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہیں 2: مضبوط کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ دلائل کے لحاظ سے مکمل ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں ہے۔